’’حکومت سے پہلے مسائل کا دلدل، ہمیں نگلتا جا رہا ہے، بگڑتی ہوئی معاشی صورتِ حال، قرضے کا بڑھتا ہوا بوجھ، تاش کے پتوں کی طرح بیوروکریسی کو بار بار پھینٹا جانا، لمحہ لمحہ قرض دار، مرد و زن کی بڑھتی ہوئی تعداد، بلند بانگ قومی دعوے اور دعوئوں کے پیچھے…
یہ نظم ہے، شاعر کا نام ہے ڈاکٹر آصف فرخی اور آج اس کی برسی ہے۔ یہ نظم 35سال پہلے لکھی تھی۔ جناب فیلڈ مارشل صاحب آپ کو بھی یہ پڑھ کر ایک دم خیال آیا ہوگا کہ یہ کیا شخص ہےجس کو مرے ہوئے 5سال ہوگئے ہیں اور ہمیں قبر سے آواز دے رہا ہے کہ دیکھو میرے الفاظ آج کی کہانی سنا رہے ہیں۔
سر آپ نے ہی کہا تھا کہ نوجوانوں کو اپنے بزرگوں کے حالات وواقعات پڑھنے اور سننے چاہئیں۔ عرض ہے! وہ سب جنہوں نے ملک بنتے اور ٹوٹتے دیکھا تھا، وہ سب مرچکے ہیں۔ اُن پڑھے لکھوں نے جو کتابیں لکھی تھیں، وہ کورس میں پڑھائی نہیں جاتیں۔ نصاب بنانے والوں میں اکثریت رجعت پسندوں کی رہی ہے۔ جو اورنگزیب کے دور کے بارے میں لکھتے ہیںکہ وہ آخر عمر میں ٹوپیاں سی کربادشاہت کے باوجود اپنی روزی کماتا تھا۔ کتابوں نے جو اورنگزیب کے بارے میں بتایا ہے ان میں ایسا ایک حرف بھی ہمارے نصاب میں نہیں ہے۔ ساری دنیا کی تحقیق میں درج ہے کہ اس نے اپنے سارے بھائیوں کو مار کے، باپ کو قید کرکے، بادشاہت حاصل کی تھی۔ اس کے دور میں مرہٹوں کا عروج اور مغلوں کا زوال شروع ہوا ،گو یا مغل سلطنت ختم بھی ہوگئی تھی۔ چلیں چھوڑیں یہ تو پرانی تاریخ کی باتیں ہیں، ہماری 77سال کی تاریخ میں قائداعظم سے لیکر، فاطمہ جناح، بھٹو صاحب اور ضیاء الحق کے بارےمیں نصاب بنانے والوں نے سچ اور حقیقت کے علاوہ، بڑے بڑے سانحات اور جنگوں کے بارے میں ایک بھی سچ نہیں لکھا یہی بنیادی وجوہات ہیں کہ ہم سے چاروں صوبوں کے دانشور ناراض ہیں۔ اگر انکے بڑوں یعنی باچا خان کا نام ہی شاملِ نصاب نہیں، پٹھان اپنی شناخت باچا خان کو سمجھتے ہیں۔ اس طرح بلوچی، سندھی اور پنجابی ناراض ہیں کہ نصاب کے ذریعہ نہیں بلکہ ہمارے مغنیوں یعنی عابدہ پروین، نصرت فتح علی اور قوالوں کے ذریعے ہمارے کان ان کی تخلیقات سے آگاہ ہیں۔ رہا شعر اور نثر لکھنے والوں کا مسئلہ، ہماری قومی زبانوں کے شاعر تو اپنے فلسفیوں اور دانشوروں کو جانتے ہیں۔ ان کے بارے میں لکھتے بھی اپنی زبانوں میں ہیں۔ اردو ادب میں ہمارے فلسفیوں میں علامہ اقبال، غالب پر بہت کتابیں لکھی گئیں مگر انکے فارسی کلام کو نصاب میں ہاتھ بھی نہیں لگایا جاتا۔
عالمی سلامتی کونسل میں فلسطین کے مسئلے پر فلسطینی نمائندہ بولنے لگا تو اس کی آواز بھرائی اور پھر وہ کھل کر رونے لگا۔ پاکستان میں جماعت اسلامی ہی زیادہ جلوس نکال رہی ہے مگر ان کے جلوس میں پاکستان ایکٹیوسٹ طاہرہ عبداللہ جیسی حب الوطن اور انسانیت کی پرستار بھی شامل ہونے کو آئےتو لیڈی پولیس آکر پکڑ کر تھانے لے جاتی ہے۔ یہ ہم جمہوریت پروان چڑھا رہے ہیں؟۔
حال ہی میں شنگریلا کانفرنس ہوئی ہے۔ اس میں دونوں ہمسائے نےدشمنی میں لپٹے، ایک دوسرے سے ہاتھ بھی نہیں ملایا۔ ایک دوسرے کے پانی سے لیکر زرعی مسائل کی پیچیدگیاں ایک جیسی ہیں۔ اگر بات کریں گے تو پتہ چلے گا کہ دونوں ملکوں میں نفرتوں کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے۔
شنگریلا کانفرنس کے نتیجے میں پاکستان نے طوعاً و کرہاً افغانستان میں چار سال سے حکومت کرتے لوگوں کے ملک میں اپنا سفیر بھیجا ہے اور عالمی سطح پر چین نے بھی وہاں منصوبوں کے شروع کرنے کے باوجود، نہ ان کو تسلیم کیا اور نہ کسی ملک میں دہائی دی کہ لڑکیوں کو نہ پڑھانے کی بدعت ختم کرنے کی سبیل کی جائے۔ ادھرہمارے علماء لڑکیوں کی شادی کی عمر کے قانون پر معترض ہیں۔
دو سال پہلے ایک اور فتنہ اٹھایا گیا ہے جسکے باعث عدالتوں میں ہزاروں کیس کرنے والے مرکھپ چکے ہیں مگر منصفین ہی اپنے وقار کو قائم رکھنے کی بجائے، بندر بانٹ میں تماش بین بنے ہوئے ہیں۔ اللہ کرے چیف جسٹس صاحب حج سے واپس آئیں تو یہ مسئلہ حل ہو کہ جو گرہیں ہاتھوں سے لگا کر، انگریزوں کے جانے کے 77سال بعد، دانتوں سے کھولنی پڑ رہی ہیں۔ میں اس بات پر بھی حیران ہوتی ہوں (بربنائے اپنی جہالت) کہ ہمارے ججز کے علاوہ، وکلا بھی باہر کے ملکوں سے ڈاکٹریٹ کرکے آتے رہے ہیں مگر کیا کہوں کہ ان میں جسٹس نسیم حسن شاہ بھی ہوتے ہیں اور وہ تمام جج جو قطعی غلط یا صحیح یا کسی دولت کے انبار کو دیکھ کر قلم سے وہ حرف لکھتے ہیں جن کو پڑھ کے نوجوان نسل ان سے قیدیوں کو طول دینے اور اگر خاتون کا مسئلہ ہے تو اس میں کبھی کبھی شیطانیت بھی شامل ہو جاتی ہے۔
اب آخر میں سب سے اہم موضوع جو ساری قوموں کی اگلی نسلوں کی عافیت کیلئے زیر غور ہے۔ وہ یہ ہے کہ فلسطین کے علاقے میں 16ماہ سے جاری جنگ کے اثرات زمین نے ان زہروں کو کیسے قبول کیا ہے۔ کیا وہ زمین، خوراک اور پھل پیدا کرسکتی ہے کہ وہاں ببول ہی اُگ سکتے ہیں۔ یہاں پر مصنوعی ذہانت بھی خاموش ہے کہ اس وقت 380امریکی مصنفین اپیل کررہے ہیں کہ انسانوں کو تمہارے جدید اور مصنوعی ذہانت کے زہریلے ڈرون ختم کرچکے۔ بتائو یوکرین اور فلسطین میں جو بچے یا بوڑھے باقی بچے ہیں انکی ذہنی ساخت کیسی ہوگی۔ میرا ہیروشیما اور ناگاساکی کے دوران چند بچ جانے والوں کے ساتھ مکالمہ ہوا، وہ نفسیاتی طور پر سیاست اور اسلحہ کے دنیا بھر سے ختم کرنے کی دعا اور ترغیب دیتے ہیں، برٹرینڈ رسل اور چرچل کی طرح محمود درویش اور سارے فلسطینی ادیب، صرف تپسیا اور نوحہ گری نہیں کرتے، ان کے عزم میں استقامت ہے جبھی تو مجھ سی بے شمار خواتین لیلیٰ خالد کی کتاب مانگتی ہیں کہ ایک نوجوان خاتون نے جہاز اغوا کرنے کی تربیت لی، تاریخ میں اپنا نام یاسر عرفات اور معین بسیسو کی طرح چھوڑا ہے۔ اس وقت دنیا کے امن پسند لوگ اسرائیل اور حماس کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جنگ مسائل حل نہیں کرتی، انسانیت کو ذلیل کرتی ہے۔