• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان پر بلا اشتعال جارحانہ حملے میں بری طرح شکست کھانے کے بعد سفارتی محاذ پر بھی بھارت عالمی برادری کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔اس صورتحال میں حکمران ہندوتوا جنتا پارٹی پر اندرونی سیاسی دبائو بڑھ گیا ہے،جس سے گھبرا کر وزیراعظم مودی اور ان کی پارٹی کے انتہا پسند رہنمائوں نے پاکستان کے خلاف اشتعال انگیز تقریروں ،بیانات اور دھمکیوں کا سلسلہ تیز کردیا ہے۔جس سے جنوبی ایشیا میں امریکی مداخلت سے امن کے جو آثار پیدا ہوئے تھے،وہ پھر سے معدوم ہوتے نظرآرہے ہیں۔امریکا اور یورپ کا دورہ کرنے والے پاکستانی سفارتی مشن کے سربراہ بلاول بھٹو نے اس تناظر میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے کہا ہے کہ انہوں نے بھارت پر دبائو ڈال کر جنگ تو رکوادی،اب مودی حکومت کو پاکستان کے ساتھ کشمیر سمیت مختلف معاملات پر جامع اور بامعنی مذاکرات کیلئے میز پر لانے میں بھی فعال کردار ادا کریںتاکہ جنگ بندی کے عمل کو مستقل شکل دی جاسکے۔واشنگٹن میں امریکی سینیٹ اور کانگریس کے ارکان سے ملاقاتوں،تھنک ٹینک سے گفتگواور نیوز ایجنسیوں سے بات چیت میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان،بھارت سے دہشت گردی سمیت تمام معاملات پر بات چیت کیلئے تیار ہے،ان میں کشمیر بنیادی تنازعہ ہے۔موجودہ غیریقینی اور غیرمتوازن فضا کو معمول کے طور پر قبول کرنا خطرناک ہے اور اسے فوری طور پر ختم کرنا ضروری ہے۔بھارت کی جارحانہ پالیسی سے خطے میں غیرمعمولی صورتحال پیدا ہوگئی ہے،وہ کسی بھی دہشت گردی کے واقعے کا بلا ثبوت پاکستان پر الزام لگاکرجارحیت کا ارتکاب کرسکتا ہے۔اسی طرح پاکستان کے24کروڑ عوام کا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پانی بند کرنا بھی اعلان جنگ کے مترادف ہوگا۔امریکا بھارت کو سمجھائے،جو علاقائی طاقت بننے کے زعم میں امن کی بجائے کشیدگی بڑھا رہا ہے۔بلاول بھٹو امریکا کا دورہ مکمل کرکے اب برطانوی حکومت،ارکان پارلیمنٹ،تھنک ٹینکس اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو برصغیر میں جنگ جیسی صورتحال پر اعتماد میں لیں گے۔واشنگٹن میں امریکی کانگریس اور سینیٹ کے جن ارکان سے ان کی ملاقات ہوئی، انہوں نے پاکستان کے موقف کی مکمل حمایت کی ہےجبکہ صدر ٹرمپ نے بھی جرمن چانسلر سے گفتگو کے دوران ایک بار پھر پاک بھارت جنگ بند کرانے پر فخر کا اظہار کیا ہےاور پاکستان کی قیادت کو معاملہ فہمی کے اعتبار سے مضبوط اور طاقتور قرار دیا ہے۔امریکی حکام اور سفارت کاروں سے پاکستانی وفد کی ملاقاتیں نتیجہ خیز ثابت ہوئیں اور جموں و کشمیرکے تنازعہ پر گفتگو کو مرکزیت حاصل رہی جو پاکستان اور بھارت کے درمیان تمام مسائل کی بنیادی وجہ ہے۔سندھ طاس معاہدے پر بھی پاکستان کے موقف کو مبنی بر حق اور بھارت کی طرف سے اسے معطل کرنے کے اقدام کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیاگیا۔بلاول بھٹو کے اس موقف کو مکمل پذیرائی ملی کہ پاک بھارت کشیدگی سے دنیا پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ہوگئی ہے کیونکہ دونوں ممالک ایٹمی طاقتیں ہیں ،ان کے درمیان جنگ ایٹمی تصادم اختیار کرسکتی ہے،جس کے پوری دنیا پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔بلاول بھٹو اپنے وفد کے ہمراہ برطانیہ کے دورے کے بعد دوسرے یورپی ممالک بھی جائیں گےاور پاکستان کا نقطہ نظر واضح کریں گے۔عالمی برادری کو بھارت سے کشیدگی کی بنیادی وجوہات سے آگاہ کرنااس لیے بھی ضروری ہے کہ بھارتی لیڈر حالیہ ہزیمت سے سبق سیکھنے کی بجائے مزید اشتعال انگیزی پر آمادہ نظرآرہے ہیں ۔ان کا کوئی بھی غلط قدم عالمی امن کو تہ وبالا کرسکتا ہےاور دنیا کے اربوں انسانوں کی زندگیاں خطرے میں پڑسکتی ہیں۔

تازہ ترین