گیلپ پاکستان کے ایک حالیہ سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دائمی بیماریاں ملک کے تقریباً نصف گھرانوں کو متاثر کرتی ہیں۔
اس سروے کے دوران ملک بھر میں لوگوں سے پوچھا گیا کہ کیا ان کے گھر میں کوئی بھی دائمی حالات کا شکار ہے اور ان کے لیے باقاعدگی سے دوا لیتا ہے؟
سروے کے نتائج کے مطابق 21 فیصد نے گھر کے کسی فرد کو ہائی بلڈ پریشر کا مسئلہ ہونے کی اطلاع دی، 20 فیصد نے گھر میں ذیابیطس کے مسئلے کی موجودگی کی اطلاع دی جبکہ 10 فیصد نے یہ اطلاع دی کہ ان کے گھر میں ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر دونوں مسائل موجود ہیں۔
سروے میں47 فیصد نے اطلاع دی کہ ان کے گھروں میں ان بیماریوں میں سے کو بھی بیماری موجود نہیں ہے اور 2 فیصد لوگوں نے سروے کا جواب نہیں دیا۔
اس کے علاوہ، ماہرین صحت نے بھی پاکستان میں بڑھتی ہوئی دائمی بیماریوں کے بوجھ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
بین الاقوامی ذیابیطس فیڈریشن (آئی ڈی ایف) کے ذیابیطس اٹلس 2025ء کے مطابق ملک میں ذیابیطس کے پھیلاؤ کی شرح 31.4 فیصد ہے۔
ماہرین صحت نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر جیسی دائمی بیماریوں کے معاشی بوجھ کو کم کرنے کے لیے جلد تشخیص اور بروقت تشخیص بہت ضروری ہے کیونکہ لاکھوں مریض اس بات سے بے خبر ہیں کہ وہ صحت کے کسی دائمی مسئلے کا بھی شکار ہیں جن سے جسم میں اعضاء کی خرابی جیسی سنگین پیچیدگیوں کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
اگرچہ اے آئی ٹیکنالوجی جیسی نئی ٹیکنالوجی صحت کے عالمی منظر نامے میں انقلاب برپا کر رہی ہیں جو بیماریوں کی جلد تشخیص اور علاج میں ڈاکٹرز کی مدد کر رہی ہے لیکن پاکستان میں ماہرینِ صحت کا اس ٹیکنالوجی کو اپنانے کی جانب رجحان ابھی کم ہے۔
وائرلیس اینڈ انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز ایسوسی ایشن آف پاکستان (WISPAP) کے چیئرمین شہزاد ارشد کا کہنا ہے کہ اے آئی ٹیکنالوجی سے چلنے والی طبی ٹیکنالوجیز کو اپنانے سے دائمی بیماریوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ سے نمٹنے میں ملے گی۔
اُنہوں نے کہا کہ اے آئی ٹیکنالوجی پر مبنی طبی آلات بیماریوں کی جلد تشخیص، کسی بھی مسئلے کے بارے میں ڈاکٹرز سے آن لائن مشاورت کو ممکن بنا کر پاکستان میں آبادی کےلیے معیاری صحت کی دیکھ بھال کو مزید قابل رسائی اور سستی بنا سکتے ہیں۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ صحت کے شعبے میں اے آئی کے استعمال کو بڑھانے کے لیے بنیادی ڈھانچے، تربیت اور مضبوط ڈیٹا گورننس میں اہم سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر ضیاء الدین اسپتال کے شعبہ ریڈیولوجی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے پاکستان میں صحت کے شعبے میں اے آئی ٹیکنالوجی کا استعمال کم ہونے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں صحت کی دیکھ بھال میں اے آئی کا استعمال کافی عرصے سے ہو رہا ہے اور اس میں توسیع ہو رہی ہے لیکن جب اے آئی الگورتھم تیار کرنے کے لیے سافٹ ویئر ہاؤسز کے ساتھ مریضوں کا ڈیٹا شیئر کرنے کی بات آتی ہے تو چیلنجز درپیش ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یونیورسٹی کے اسپتالوں میں محققین کےلیے اسامیوں یا نوکریوں کی کمی کی وجہ سے بھی پاکستان کےلیے اپنے اے آئی سافٹ ویئر تیار کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔