آرٹیفیششل انٹیلیجنس (اے آئی) ٹیکنالوجی اس وقت دنیا بھر میں خصوصی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔
ہر خاص و عام دنیا میں تیزی سے پھیلتی ہوئی اس اے آئی ٹیکنالوجی کے اثرات کے بارے میں جاننا چاہتا ہے اور ماہرین اس حوالے سے تحقیقات بھی کر رہے ہیں۔
روسی نژاد کینیڈین سائنسدان ساشا لوسیونی نے خبردار کیا ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کسی بھی روایتی سرچ انجن کے مقابلے میں 30 گنا زیادہ توانائی استعمال کر رہی ہے اور اس سے 25 ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کا اخراج بھی ہو رہا ہے۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ساشا لوسیونی اس نئی ٹیکنالوجی کے ماحولیاتی اثرات کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں اور ان کا شمار اے آئی ٹیکنالوجی کے حوالے سے دنیا کی ایسی 100 بااثر شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے کئی سال سے ’چیٹ جی پی ٹی‘ اور ’مِڈ جرنی‘ جیسے پروگرامز سے ہونے والے کاربن ڈائی اکسائیڈ گیس کے اخراج کی مقدار معلوم کی ہے۔
ساشا لوسیونی نے مونٹریال میں متعقد ہونے والی ایک آل ان آرٹیفیشل انٹیلی جنس کانفرنس میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے خاص طور پر یہ بات مایوس کن لگتی ہے کہ انٹرنیٹ پر کوئی بھی چیز سرچ کرنے کے لیے اب جنریٹو اے آئی کا استعمال کیا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ لینگویج ماڈلز جن پر اے آئی پروگرامز کی بنیاد رکھی گئی ہے ان کو تربیت دینے کے لیے بہت زیادہ طاقت ور سرورز کی ضرورت ہوتی ہے جس سے ہمارا ماحول متاثر ہو رہا ہے۔