• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں جاری ہونے والے سروے آف پاکستان میں قوم کو یہ نوید سنائی گئی کہ پاکستانیوں کی فی کس آمدنی میں اضافہ ہوا ہے جو بڑھ کر 1824ڈالر ہو گئی ہے اور گزشتہ سال یہ آمدنی 1662ڈالر تھی۔ ساتھ ہی پاکستانیوں کو یہ خوشخبری بھی سنائی گئی کہ پاکستان میں غربت میں کمی واقع ہوئی ہے مگر حیران کن بات یہ ہے کہ کچھ دن قبل ہی جاری ہونے والی عالمی بینک کی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا کہ پاکستان میں غربت میں اضافہ ہوا ہے اور پاکستان کی44.7 فیصد آبادی غربت کا شکار ہے جبکہ اس سے قبل پاکستان میں غربت کی شرح39.8 فیصد تھی۔ عالمی بینک کے غربت جانچنے کے نئے پیمانے کے مطابق 10کروڑ 79لاکھ سے زائد پاکستانی غربت کا شکار ہیں۔ عالمی بینک کی نئی جائزہ رپورٹ کے مطابق پاکستان سمیت لوئر مڈل انکم ممالک میں یومیہ 4.2 ڈالر آمدن سے کم کمانے والے افراد غربت کی لکیر سے نیچے آتے ہیں۔ اس سے پہلے غربت کا پیمانہ 3.85 ڈالر یومیہ آمدن تھا۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں یومیہ 1200روپے سے کم کمانے والے افراد غریب کہلائیں گے۔ واضح رہے کہ عالمی بینک نے اس سے قبل اپنی ایک اور رپورٹ میں یہ انکشاف کیا تھا کہ پاکستان میں غربت کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ 2024میں پاکستان میں غربت کی شرح 25.3 فیصد رہی جو 2023 کے مقابلے میں 7فیصد زائد ہے اور اس طرح ایک سال کے دوران ایک کروڑ 30لاکھ سے زائد مزید پاکستانی غربت کا شکار ہو گئے۔ رپورٹ کے مطابق 2023کے دوران بدترین سیلاب نے انفراسٹرکچر کو تباہ کردیا جس سے زرعی پیداوار میں کمی، ریکارڈ مہنگائی اور معاشی بحران کے ساتھ غربت میں مزید اضافہ ہوا اور ملکی آبادی کو روزگار، تعلیم، صحت اور بنیادی ضروریات کی کمی کا شدید سامنا رہا۔

تشویشناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں جہاں سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں میں اضافہ ہورہا ہے، وہاں دوسری طرف اپر کلاس یعنی امیر طبقے کی دولت میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جنہوں نے کرپشن اور روزمرہ اشیا کی ذخیرہ اندوزی سے اربوں روپے کا ناجائز منافع کمایا جسکی عکاسی فائیو اسٹار ہوٹلز اور مہنگے ریسٹورنٹس سے ہوتی ہے جو امیر طبقے سے کھچا کھچا بھرے ہوتے ہیں۔ ماہ رمضان المبارک میں مجھے ایک دوست نے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں افطار ڈنر پر مدعو کیا جہاں ایک فرد کا افطار ڈنر 5ہزار روپے سے زیادہ تھا۔ میں یہ دیکھ کرحیران رہ گیا کہ وہاں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ اسی طرح گزشتہ سال یہ خبر پاکستانیوں کیلئے باعث حیرت تھی کہ لاہور میں ایک کینیڈین کافی شاپ کے افتتاح کے موقع پر عالمی ریکارڈ قائم ہوا اور دنیا بھر میں ان کی ہزاروں کافی شاپس میں سب سے زیادہ سیل لاہور کی اس کافی شاپ میں ریکارڈ کی گئی۔ یہ خبر برطانوی نشریاتی ادارے نے شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کی جو نہ صرف دنیا میں حیرانی کا سبب بنی بلکہ پاکستان میں امیر اور غریب طبقے میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات کو ظاہر کرتی تھی۔

پاکستان میں غربت ایک سنگین مسئلہ اور ناسور کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے جس نے مجھ سمیت ہر پاکستانی کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ غربت کا مسئلہ نہ صرف ملکی معیشت کو متاثر کرتا ہے بلکہ سماجی مسائل اور فرقہ واریت میں بھی اضافہ کرتا ہے۔ پاکستان میں غربت میں اضافے کی کئی وجوہات ہیں جن میں بیروزگاری، سیاسی عدم استحکام، معاشی عدم مساوات، پانی، غذائیت، صحت اور تعلیم کی فراہمی کی ناکامی ہے جو نہ صرف عوام کے معیار زندگی کو متاثر کرتی ہیں بلکہ غربت میں اضافہ، معاشرتی جرائم، بیروزگاری اور سیاسی استحکام کا باعث بھی بنتی ہیں جس کے اثرات فرد کی زندگی کے ساتھ ساتھ پورے معاشرتی ڈھانچے پر پڑتے ہیں تاہم شہریوں کی مشترکہ کوششوں، غیر سرکاری اداروں، این جی اوز اور بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے غربت کے خاتمے میں مدد مل سکتی ہے۔

یہ امر قابل ستائش ہے کہ پاکستان میں مختلف این جی اوز صحت، تعلیم، مفت کھانے کی فراہمی اور دیگر بنیادی شعبوں میں غریب عوام کی فلاح و بہبود میں مصروف عمل ہیں اور غربت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ اگر ہم اپنے وسائل کو صحیح طریقے سے استعمال کریں اور یکجا ہوکر کام کریں تو پاکستان میں غربت میں کمی لانے میں کافی حد تک کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ملک میں بڑھتی ہوئی غربت، معاشی ناہمواری اور بیروزگاری ایک آتش فشاں کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے اور اگر اس پر سنجیدگی سے توجہ نہ دی گئی تو یہ آتش فشاں کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے جس سے امیر طبقہ بھی متاثر ہو گا۔

تازہ ترین