• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بقر عید کی چھٹیوں سے پہلے اسلام آباد میں املتاس کا راج تھا۔ میں اس کو بار بار دیکھتی پھر اپنے جیسے فرخ یار کو کہا ’’چلو آج کی شام املتاس کے نام‘‘ مگر اسکے دیگر دوستوں نے کہا ’’اپنے بچوںکیلئے بکرا لانا ہے۔ میں نے اگلے ہی دن مراکش کے سربراہ کا اعلان ٹی وی پر سنا کہ قربانی جائز ہے اور لازم ہے حج کرنے والوں پر باقی جوثروت مند ہیں ان پر واجب ہے۔ اس لئے بے ضرورت غربت میں بھی قرضے لے کر دنیا کو دکھانے کیلئے قربانی مت کرو۔ مجھے یاد ہے یہی الفاظ بادشاہی مسجد کے امام (قاسمی صاحب کے ماموں) نے 50برس پہلے تفسیر قربانی بیان کرتے ہوئے کہے تھے۔ اس میں بھی یہی روح اور فلسفہ تھا مگر کیا کیا جائے میرے گھر کام کرنیوالے کا باپ فوت ہوا تو اس کے کفن دفن پر 30ہزار روپے لگے جو ادھار لئے گئے۔ آپ ان دو مثالوں کو حرز جاں کریں اور بتائیں ان پانچ دنوں میں آپ کو کتنے پیارے دوست رشتہ دار اور وہ لوگ یاد آئے جو پاکستان کی ادبی زندگی میں اصولوں کی جنگ لڑتے ہوئے چلے تو گئے مگر ہمارے لیے یادیں اپنے کردار، تحریروں اور نظریات کے ساتھ، صرف پاکستان کی تاریخ میں یاد کیے جاتے، خاص دنوں میں یاد آتے ہیں۔ کتابوں میں یادوں کی طرح تیر رہے ہیں۔ اصول پرستی مجھ جیسے لوگوں کو سکھا گئے۔

پہلی یاد کا کونہ پکڑتی ہوں تو مولانا ابوالکلام آزاد سے ،مولانا ظفر علی خاں، مولانا غلام حسین حسرت، ڈاکٹر سلام ہیں۔ جن کو بہت پڑھا اور ان سے لفظ کی حرمت سیکھی کہ ان میں سے چند توہمارے بچپن کی شکلیں ہیں کہ ایک اورشخص جو چار برس بڑا ہے۔ گویا صدیوں کی آمریت اور ہزیمت کو جھیل کر ہمارے درمیان ہے اور آج بھی، صحافت کی تاریخ، علمیت اور سچائی کی گرفت کو مضبوطی سے پکڑے مجھے یاد دلا رہا ہے دیکھو میں وہی حسین نقی ہوں جو لکھنؤ میں پیدا ہوا، پلا بڑھا۔ پورا خاندان پڑھا لکھا تھا۔ والد وکیل تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب اشرفیاں استعمال ہوتی تھیںایک تولہ سونا 30روپے کا آتا تھا۔ ’’میں نے تو آٹھویں کلاس میں لکھنا شروع کر دیا تھا‘‘۔ مجھے خوش مزاجی سے دیتا ہوا کہتا ہے ’’میں تو نوجوانی کے شروع میں مسجد میں نماز پڑھتا، اذان دیتارہا‘‘ مگر یہ جنون راج واڑی نخوت میرے خاندان میں نہیں تھی۔

خاندان کے سارے رشتہ دار جن میں خواتین بھی شامل تھیں، وہ بھی میٹرک اسکول میں اور وہاں کالج بنا تو کالجوں میں پڑھتی تھیں۔ عینی آپا کی والدہ رضیہ سجاد ظہیر بھی مسلم گرلز کالج میں پڑھاتی تھیں۔

1965 سے پہلے ہندوستان اور پاکستان میں صرف پرمٹ لے کر آیا اور جایا جا سکتا تھا۔ حسین نقی اس دوران پاکستان میں لاہور اور کراچی آتے جاتے رہے۔ ایف ایس سی لکھنؤ سے کیا مگر ماسٹرز کراچی سے، مجھے یاد دلایا کہ فتح یاب علی خاں اور معراج محمد خاں تمہارے زمانے میں۔ انٹر یونیورسٹی ڈیبیٹ میں حصہ لینے لاہور آتے تھے۔ یہ بھی یاد آیا کہ نقی نے تو 1953 میں طلبا موومنٹ اور شاعری پر بھی کچھ لکھا تھا کہ وہ لکھنؤ میں انیس اور دبیر کے خاندانوں سے واقف تھے۔ گھروں کا اصول کہ ’مغرب سے پہلے گھر واپس آ جائو‘ تھا۔

حسین نقی کے بچپن کے حالات پڑھ کر بار بار میرے ذہن میں آتا تھا کہ ہمارے شہر بلند شہر میں بھی شیعہ، سنی کا کوئی تفرقہ بلکہ ہندو بھی ابا کے اور حسین نقی کے خاندان کے ہی دوست تھے۔ مجھے حسین نقی نے لکھنؤ کے سارے امام باڑے یاد کرا دیئے۔ بارہ دری میں جلسے جلوس یاد آیا کہ ہوتے تھے، مجھے کیفی اعظمی کی بیگم پورا لکھنؤ دکھاتی گومتی کے کنارے پہنچ گئی۔

میں حسین نقی کو یاد کراتی کہ تم نے کہیں بھی باقاعدہ نوکری ،جسے سرکاری نوکری کہتے ہیں، نہیں کی۔ نقی نے جواب میں بتایا کہ شروع کی نوکری بھی اخبار ا ور صحافت کے ساتھ شروع کی۔ ہڑتالیں کروانے میں جب کبھی کراچی میں ان کا نام آجاتا تو اس وقت کے کراچی کے شہنشاہ بنے ایم۔ بی نقوی کے جلال کو بھی نوجوان بار بار ٹھیس پہنچاتے تھے۔ نقی نے پی پی آئی سے اخباری صفحات کا آغاز کیا اور اسٹوڈنٹ یونین کی تحریکوں کے ذریعے بار ورکروں کو بقایاجات دلواتے رہے مگر اب بہت پڑھی لکھی اولادان کے نخرے اٹھاتی ہے اور بیگم جن کا تعلق قزلباش خاندان سے تھا۔ ان سے 1960میں شادی کی تھی۔ مجھے یاد تھا کہ زہرا نے تو ایک ہائوس بلڈنگ کمپنی بھی قائم کی تھی کہ وہ بھی قزلباش خاندان میں رئیس تھیں۔ مگر لکھنے کی شوقین بھی تھیں۔ ’حسین نقی کی مختصر حیات کہانی‘ ڈاکٹر سید جعفر احمد کے ادارے نے انٹرویو اور گفتگو پر مشتمل یہ مختصر کتاب، پاکستان کے 77سال میں صحافت میں جان دینے والے دوستوں کو مشرقی اور پاکستان کے صحافیوں کو یاد کرتے ہوئے منہاج برنا سے لے کر چھاپرا، عابدی صاحب، مظہر علی خان اور ہاجرہ مسرور کے شوہر احمد علی کے ساتھ بنگال کے شہید اللہ قیصر، کے جی مصطفیٰ یہ سب بنگال کے الگ ملک بننے سے پہلے کے دوست تھے۔ حسین نقی پنجاب یعنی لاہور میں تھے تو پہلے تو باقاعدہ پریس کلب بنایا اور پھر پنجابی کا ہفت روزہ پنجاب پنچ نکالا۔ وہ خود پنجابی زیادہ نہیں جانتے تھے، مگر ایک انکو پرانا پکا یقین تھا کہ لاہور کہ پنجاب کہ سندھ، بلوچ اور کے۔ پی یہاں پہ بسنے والوں کو علاقے کی زبان، تہذیب میں مل جل کر رہنا چاہیے۔ اردو زبان کی اپنی تہذیب ہے مگر سب تہذیبوں تمدن اور نصابی زبان کو بھی ملا کر پڑھنا چاہئے اور وہ جو مہاجر کا قصہ الطاف حسین نےشروع کیا۔ جنوبی پنجاب اور دیگر صوبوں کے شوشے چھوڑنے سے ملک میں یگانگت نہیں آ سکتی۔ اب بھی سمجھ جائیں تو ملک میں امن آ سکتا ہے۔

سال ڈیڑھ سال بعد پنجاب پنچ مارشل لا کی مہربانیوں کا شکار ہو گیا۔ جیل اور صحافت چلتی رہی۔ اب عاصمہ جہانگیر نے مارشل لا کے خلاف انسانی حقوق کی تحریک چلائی اور رحمان صاحب، عزیز صدیقی اور حسین نقی کو ہاتھ سے پکڑ کر دفتر بٹھا گئی اور ان صاحب کے انسانی حقوق کی عالمی اور ملکی سطح پر اتنی تحقیق کی اور دیہات تک میں یہ نام مقبول ہوا۔ حسین نقی نے بتایا کہ جب کبھی ضلعی سربراہوں کا اجلاس ہوتا، عورت اور مرد دونوں شریک ہوتے اور حسین نقی کے زمانے سے آج کی صحافت میں سیاست اور سرمایہ تلاش کرتے اینکرز اور مالکان خود ایڈیٹر بن گئے ہیں۔

اب نہ ویو پوائنٹ ہے، نہ مظہر علی خاں، نہ مساوات، نہ انجام۔ تازہ خبر اور خبریں تلاش نہیں کی جاتیں۔ شہرت کے دیوانے خبر لینے خود آ جاتے ہیں۔ زندہ رہیں حسین نقی۔

تازہ ترین