آج ارادہ تو احمدآباد میں بدقسمت بھارتی مسافر طیارے کے کریش کر جانے کی انسانی ٹریجڈی پر کالم لکھنے کا تھا لیکن جمعۃ المبارک کی صبح کاذب اسرائیل نے ”آپریشن رائزنگ لائن“ کے نام سے ایرانی جوہری و ملٹری تنصیبات پر جو بڑا حملہ کیا ہے اس کی بڑھتی ہوئی سنگینی نے اپنی طرف کھینچ لیا۔دوسولڑاکا طیاروں کے ساتھ اسرائیل نے ایران پر یہ منظم حملہ پوری منصوبہ بندی کے ساتھ پانچ مراحل میں کیا اور چن چن کر ایران کی جوہری تنصیبات کو کم از کم آٹھ یا دس مقامات پر نشانہ بنایا 330بم پھینکے جن میں تہران کے مضافات، نطنز، فردو، تبریز، اہواز، کرمان شاہ، جنوب میں اصفہان، جنوب مغرب میں اراک شہر اور دوسری طرف خرم شہر نمایاں ہیں۔ چھ ملٹری تنصیبات کو بھی ٹارگٹ کیا گیا ہے بوشہر نشانہ بننے سے بچا ہے۔ ان اسرائیلی حملوں میں ایرانی جوہری افزودگی سسٹم کو کس قدر نقصان پہنچا ہے اس کی تفصیلات دھیرے دھیرے سامنے آئیں گی ۔بیشتر جوہری تنصیبات زیر زمین ہیں،جن کیلئے زیادہ گہرائی تک جانے والے ہیوی بم امریکا کے پاس ہیں،البتہ کئی عسکری شخصیات اور ایٹمی سائنسدانوں کے جاں بحق ہونے کی تصدیق خود ایرانی میڈیا بھی کررہا ہے جن میں سب سے اہم پاسدارانِ انقلاب کے چیف میجر جنرل حسین کلامی، ختم الانبیاء ہیڈکوارٹر کے کمانڈر میجر جنرل غلام علی راشد اور ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے محافظ کمانڈر شمخانی ،ایرانی چیف آف آرمی سٹاف جنرل محمد باقرئی کے نام نمایاں ہیں۔ اسی طرح چھ بڑے ایٹمی سائنسدانوں کےنام بھی مرنے والوں میں لیے جارہے ہیں جن میں فریدون عباسی، محمد مہدی ،تہانچی عبدالرحیم منوچہر ،احمد رضازلفغری، امیر حسین فغیحی، متلبی زادہ نمایاں جوہری سائنسدان ہیں۔ اعلیٰ ایرانی سیکورٹی ذرائع نے رائٹر کو بتایا ہے کہ ہمارے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای تو حملے میں محفوظ رہے ہیں البتہ ان کے محافظ علی شمخانی شدید زخمی ہیں ان کی حالت نازک ہے۔ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے حملے کے فوری بعد کہا ہے کہ اب اسرائیل ہمارے سخت ردِعمل کا انتظار کرے صہیونی ریاست نے ہماری سرزمین کے خلاف گھناؤنا جرم کیا ہے ہمارے کئی کمانڈرا ور سائنسدان شہید کردیے ہیں ، اسرائیل نے اپنے لیے اذیت ناک قسمت کا انتخاب کیا ہے، ہمارے اوپر یہ حملہ امریکی تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھا، اس لیے ہم امریکا کو بھی اس کا پوری طرح ذمہ دار سمجھتے ہیں،ایرانی انقلابی قیادت نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم نے جنگ کی ابتدا نہیں کی لیکن اب اختتام ہم کریں گے، ایک ایک شہید کے خون کا بدلہ لیں گے اور صہیونیوں کا جینا حرام کر دیں گے ۔ اطلاعات کے مطابق ایران نے فوری طور پر سوکے قریب ڈرون اسرائیل پر داغے ہیں لیکن اسرائیلوں کا کہنا ہے کہ انہیں اہداف پر پہنچنے سے قبل فضا میں ہی ناکارہ کردیا گیا ہے۔ دونوں ممالک نے اپنی اپنی حدود میں ایمرجنسی لاگو کرکے ہائی الرٹ جاری کردیا ہے۔ اپنی فضائی حدود کو مکمل طور پر بند کردیا ہے بلکہ اردن کی طرف سے بھی اطلاعات ہیں کہ اس نے بھی اپنی فضائی حدود کو مکمل طور پر بندکردیا ہے۔مختلف ممالک اور عالمی رہنماؤں نے ایران پر اسرائیلی حملے کی مذمت کی ہے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے دونوں ممالک کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کی ہے کئی مغربی ممالک برطانیہ، جرمنی، فرانس سمیت جاپان،آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، چائینہ، سعودی عرب، قطر، عرب امارات، اردن،مصر، انڈیا، روس اور پاکستان نے ان حملوں کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ایرانی خود مختاری اور سلامتی کو نقصان پہنچانا بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ یہاں یہ امر واضح رہے کہ یہ سعودی عرب ہی تھا جس نے امریکی صدر ٹرمپ کی سعودی عرب آمد سے قبل کنگ سلمان بن عبدالعزیز کے بیٹے اور کراؤن پرنس کے بھائی پرنس خالد بن سلمان کو خصوصی طور پر ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے پاس بھیجا تھا یہ واضح کرنے کیلئےکہ امریکہ سے جوہری افزودگی کے تنازعے یا معاملے کو مثبت طور پر نمٹالو ورنہ اس کے نتائج ایران کیلئے اچھے نہیں ہونگے اسکے بعد ہی عمان میں مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا تھا جس پر بالآخر ایران نے نرمی دکھانے کی بجائے ہارڈ رویہ اپناتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اپنے ایٹمی پروگرام پر کوئی بھی سمجھوتہ قبول کرنےکیلئے تیار نہیں اور یہ ہماری خودمختاری کا ایشو ہے جس پر امریکی صدر نے یہ بیان جاری کیا تھا کہ ایران کو نیوکلیئر پروگرام پر سخت رویہ نہیں اپنانا چاہیے کیونکہ ایرانی ایٹم بم کو کسی صورت قبول نہیں کیاجاسکتا۔ انہوں نے ایرانی قیادت کو یہ تنبیہ بھی کی تھی کہ اتوار کو ہونے والے مذاکرات میں وہ اپنی پالیسی بدل لے تو اس کیلئے بہتر ہوگا۔ اسرائیلی حملے کے فوری بعد امریکی وزیرخارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ آج رات اسرائیل نے ایران کے خلاف جو کارروائی کی ہے وہ اسکی اپنی ہے ہم ان حملوں میں شامل نہیں ہیں ہماری اولین ترجیح خطے میں امریکی فورسز اور شہریوں کی حفاظت ہے۔ ایران ہمارے مفادات اور شہریوں کو نشانہ بنانے سے باز رہے لیکن یہ امر سب پر واضح ہے کہ اسرائیل نے یہ قدم اٹھانے سے قبل امریکا کو پوری طرح باخبر کردیا تھا یہی وجہ ہے کہ امریکا نے حال ہی میں خلیج اور مڈل ایسٹ کے ممالک سے اپنے سفارتکاروں اور دیگر ذمہ داران کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کا ہدایت نامہ جاری کردیا تھا اور اس حوالے سے مختلف تیاریاں کرتا دکھائی دے رہا تھا۔دوسری طرف حملے کے فوری بعد اسرائیلی پرائم منسٹر نیتن یاہو نے اپنی قوم اور دنیا کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے ”آپریشن رائزنگ لائن“ کے حوالے سے کہا ہے کہ ایرانی ایٹمی پروگرام، اسرائیلی وجود اور اسکی بقا کیلئے خطرہ ہے جسے پیچھے دھکیلنےکیلئے ہم نے یہ ملٹری آپریشن کیا ہے ہم اسرائیل کی تاریخ کے فیصلہ کن موڑ پر ہیں۔ (جاری ہے)