• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ روز ظالم صہیونیوں یعنی اسرائیل نے غزہ، شام، یمن، اور لبنان کے بعد ایران پر بھی حملہ کردیا ہے۔ اس وقت کئی سینئر ایرانی فوجی افسران اور سائنسدانوں کی شہادت کی خبریں گردش کررہی ہیں۔ اس حملے کا بنیادی مقصد ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنا ہے۔ حالانکہ منافقت کی انتہا یہ ہے کہ اسرائیل امریکہ سمیت مغربی استعمار کے پاس یہ سب ہتھیار موجود ہیں۔ لیکن دراصل اس حملے کا مقصد ایران کی عسکری قوت کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنا ہے۔1990 کی دہائی میں جب سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد فلسطین اور عرب دنیا کے ایک بڑے مزاحمتی حصے نے اسرائیل کے آگے ہتھیار ڈال دیئے تو مزاحمت کار بالکل تنہا رہ گئے تھے۔ 2003میں عراق اور 2011میں شام اور لیبیا پر استعماری یلغار نے اس تنہائی کو شدید تر کردیا تھا۔ ایسے میں ایران نے پورے خطے میں مزاحمتی گروہوں کی حمایت شروع کی۔ حماس سے لے کر حزب اللہ اور انصار سے لے کر شام اور عراق میں مزاحمتی گروہوں کو مضبوط کیا۔ عالمی سطح پر کیوبا، وینزویلا، روس، اور چین سمیت ان تمام ممالک کے ساتھ رابطے بڑھائے جو امریکی سامراج کی مخالفت کرنے کی جرات رکھتے تھے۔ ایران سے کئی غلطیاں بھی ہوئیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر آج اسرائیل پریشان ہے تو اس کی وجہ ایران کی خطے میں مزاحمتی گروہوں کی حمایت ہے۔ ایران کواس دیدہ دلیری اور جرات کی داد تو دینا پڑے گی کہ اس نے سالہا سال سے اپنے اوپر اقتصادی پابندیوں کے باوجود امریکہ اور اسرائیل کے خلاف کام کرنے والے گروپس کو یکجا کیے رکھا اور خود بھی یہ مزاحمت دو بڑی قوتوں کےخلاف جاری رکھی۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یوں لگتا ہے کہ امریکی بحران بھی شدید ہو چکا ہے اور وہ اپنی معاشی برتری بہت عرصے تک برقرار نہیں رکھ سکتا۔ اگر کسی بھی دن اسرائیل کے لئے امریکہ اور یورپ کی مالی مدد ختم ہو گئی تو اس صہیونی ریاست کو قائم رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔ اسی لئے اسرائیل اور امریکہ کی خواہش اور حکمت عملی ہے کہ جتنی جلدی سامراج مخالف امریکی ریاستوں کو توڑا جا سکتا ہے، توڑ دیا جائے تاکہ مستقبل میں کوئی بھی اسے چیلنج کرنے کے قابل نہ رہے۔ یہ ایک نئی دنیا کا ویژن ہے جس میں عسکری توازن کو خطرناک حد تک امریکہ اور اس کے علاقائی اتحادیوں کے حق میں موڑ دیا جائے گا۔

ایسی ہی کوشش پچھلے ماہ مودی نے پاکستان کے حوالے سے کرنے کی کوشش کی لیکن اس کےناپاک عزائم کو دفن کر دیا گیا۔ اس لئے کسی بھی تجزیے کو اس حقیقت کو مدنظر رکھ کر بنانا چاہئے کہ ہمارے خطوں پر استعمار مسلسل جنگ نافذ کر رہا ہے جو ان معروضی حالات کو مدنظر رکھ کر تجزیہ نہیں کرے گا وہ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر سامراجی غلبے کی حمایت کرے گا۔ ان کی حالت ایران سے جلا وطن ان مسخروں جیسی ہو جائے گی جو واشنگٹن اور اسرائیل سے ایران میں عورتوں کے حقوق کے لئے مدد مانگتے ہیں۔ نیتن یاہو، مودی اور ٹرمپ جیسے اقتدار کے بھوکوں کے لئے کسی کے حقوق اہم نہیں ہیں مگر یہ انا پرست نفرت میں اپنے ہی ملک کے خلاف بیرونی طاقت کے استعمال کے حمایتی بن چکے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کی بعض ریاستوں نے پہلے ہی استعماری کیمپ کو جوائن کیا ہوا ہے۔ مغربی کیمپ کو چھوڑے بغیر پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے لئے پائیدار ترقی ناممکن ہے۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ ایران نے جوابی حملے شروع کر دیئے ہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ اس لڑائی کا نتیجہ کیا ہو گا۔ لیکن یہ جنگ ایران پر فلسطین کی حمایت کرنے کی وجہ سے مسلط کی گئی ہے۔ 20ماہ سے جاری بے رحمانہ نسل کشی کے بعد پہلی بار بڑے پیمانے پر اسرائیل پر حملہ ہوا ہے۔ ایران نے صہیونی جارحیت کا جواب Ballistic اور Supersonic Missiles کے ساتھ دیا جو امریکہ اور اسرائیلی Iron Dome کو چیرتا ہوا اسرائیل میں داخل ہوا۔ سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ اسرائلی فوج کے ہیڈکوارٹر، Hakirya، جو مشرق وسطی میں بربریت کا مرکز ہے، پر بھی مزائیل گرے۔ یہ مناظر دیکھ کر غزہ سمیت دنیا بھر میں فلسطین کے حمایتیوں میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔

ایران نے وہ کردکھایا ہے جو اقوام متحدہ کو کرنا چاہئے تھا۔ اور یہ سب اقتصادی پابندیوں اور اسرائیلی، امریکی اور شرق اوسط کی بعض ریاستوں کے گٹھ جوڑ کے باوجود کیا ہے۔ خدارا اس مسئلے کو نہ فرقہ وارانہ معاملہ بنائیں اور نہ ہی ایران میں انسانی حقوق کا رونا ڈالیں۔ یہ دونوں پہلو اس وقت صہیونی ریاست اور استعماری میڈیا اچھال رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہزاروں لاکھوں نہتے بچوں اور عورتوں کا قتل کیا ہے لیکن ایران پر نسل کش ریاست کی جارحیت کے وقت انہیں خواتین کی آزادی اور جمہوریت کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے سامراج نے ہمارے ملکوں میں ایسے گروہ پیدا کئے ہیں جو لبرل اور لیفٹ کے نام پر مغربی استعمار کے ساتھ مل جاتے ہیں، خصوصی طور پر جب بھی کوئی بیرونی حملہ کیا جاتا ہے۔ بحران کی خصوصیت ہی یہ ہوتی ہے کہ چہروں سے نقاب اٹھ جاتا ہے۔ واشنگٹن یا دہلی یا اسرائیل سے آزادی کی بھیک مانگنے والے نہ کبھی ہمارے ساتھی تھے، نہ کبھی ہمارے ساتھی ہو سکتے ہیں۔ آج دنیا ایران کا حوصلہ دیکھ کر جشن منارہی ہے۔ لیکن ابھی آگے ایک لمبی رات ہے۔ ایک بات طے ہو گئی کہ اسرائیل کو دنیا بھر کے عوام نے نہ کبھی قبول کیا ہے نہ کریں گے۔ ہم اس دنیا کے لئے لڑ رہے ہیں جس میں صرف ایران نہیں، تمام دنیا کے ممالک اپنی عسکری قوت استعمال کر کے صہیونی قوتوں کو شکست دیں تاکہ نسل کش اسرائیلی ریاست کی جگہ دریائے اردن سے بحرہ روم تک ایک ایسی ریاست قائم ہو سکے جس میں تمام انسان برابر کے شہری ہوں۔ اس ریاست کا نام فلسطین ہو گا۔ اِن شاءالله بلاشبہ شہداءکی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی اور ایک دن مشرق وسطیٰ اسرائیلی بلا سے ضرور نجات حاصل کرے گا۔

تازہ ترین