قیدی نمبر 804کے ہمراہی سر عام ہرزہ سرائی کر رہے تھے کہ تمہارا زور صرف ہم پر چلتا ہے شاباش ذرا بھارت سے بھی لڑ کر دکھاؤ، ان یوتھیوں سمیت امریکہ تک کی توقعات کے برخلاف خدا کے فضل سے پاکستان کا جوابی حملہ اس قدر مربوط اور زور دار رہا کہ بھارت کے سامنے کے سارے دانت ہی ٹوٹ گئے، جس ٹرمپ نے بھارت کے حملے کے بعد یہ اعلان کروایا تھا کہ ہمارا پاک بھارت جنگ سے کوئی لینا دینا نہیں، اسی ٹرمپ نے ایسا یوٹرن مارا کہ پاکستانی فوج تو کیا پورے پاکستان کو اسمارٹ قرار دیدیا، یہ ہوتا بہادری کا صلہ، کمزوروں کو کیڑے مکوڑے کہہ کر کچل دیا جاتا ہے جبکہ بہادروں کو لازمی خراج دینا پڑتا ہے، یہ کرشمہ وزیر اعظم شہباز شریف، فیلڈ مارشل عاصم منیر کی دلیرانہ قیادت، ائیر فورس اور بری فوج کی مکمل فنی مہارت، تمام سیاسی قیادت اور عوامی حمایت کے طفیل ممکن ہوا،10 مئی برپا ہوئے 22روز گزر گئے لیکن پاک فوج و ائیر فورس کے قصیدوں ، تھنڈر طیاروں کی شہرت اور شیئر مارکیٹ میں اسکا مقام عروج کی جانب رواں دواں ہے، دوسری جانب رافیل کمپنی کو اپنی عزت بچانے کیلئے حکمت عملی ترتیب دینے میں سخت مشکل پیش آرہی ہے۔
10 مئی برپا کرنے سے پہلے اور اسکے بعد پاکستان کی جانب سے کی گئی کامیابی سفارت کاری بھی تاریخ کا حصہ بن گئی ہے۔ چین، ترکیہ، بنگلہ دیش سمیت دنیا بھر کے ممالک میں پاک فوج کی برتری اور سیاسی قیادت کے فیصلوں کو وہ عزت ملی ہے جو تامرگ مودی اور پاکستان مخالفوں کے سینوں پر سانپ کی طرح لوٹتی رہےگی، مودی تادم سیاسی مرگ یہ دہراتا رہےگا کہ اے بھگوان میں نے پاکستان پر حملہ کرنیکی حماقت کیوں کی؟ شرمناک شکست کے بعد بھی سرنڈر مودی ہرزہ سرائی سے باز نہیں آرہا ہے، مودی جتنا مرضی جھوٹ بول لے اب اسکے ہمو طن بھی اس پر یقین نہیں کرینگے، جوابی حملے کے بعد بھی پاکستان نے جس طرح سے دنیا بھر کو اعتماد میں لیا اس سے مطالعہ پاکستان کا مذاق اڑانے والوں کی سٹی گم ہوگئی ہے، وزیراعظم شہباز شریف کے ترکیہ، آذربائیجان اور ایران کے دوروں میں اقتصادی تعاون، توانائی منصوبوں، دفاعی شراکت داری اور علاقائی سلامتی کے موضوعات پر پیش رفت سے واضح ہو گیا ہے کہ پاکستانی موقف کو دنیا تسلیم کر رہی ہے۔
پاکستان، ترکیہ اور آذربائیجان پر مشتمل سہ فریقی سنجیدہ اتحاد نہ صرف باہمی مفادات کو تقویت دئیگا بلکہ جنوبی ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے درمیان ایک مربوط پل کا کردار ادا کرے گا، امید ہے کہ ان تینوں ممالک میں دفاع، تجارت، ٹرانسپورٹ اور کلچر کے شعبوں میں ترقی کے نئے باب رقم ہونگے، ایک اہم اور چونکا دینے والی پیش رفت افغانستان سے سامنے آئی ،جہاں طالبان حکومت نے پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے گروہ ’’فتنہ الخوارج‘‘ کیخلاف سخت موقف اپنا لیا ہے، یہ موقف محض الفاظ تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کے دیرینہ مطالبے کی تائید ہے کہ سرحد پار دہشت گرد عناصر کی پشت پناہی بند کی جائے۔ یہ سفارتی کامیابی بغیر کسی زمینی کوشش کے ممکن نہ تھی، پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا افغانستان ، چین کا دورہ اور افغان حکام سے براہ راست گفتگو، اسی نتیجے کی کڑی ہے، ان مذاکرات نے یہ باور کرایا ہے کہ پاکستان خطے میں امن کا خواہاں ہے اور اب وہ اپنی سر زمین پر دہشت گردی کو برداشت نہیں کرے گا۔
یہ تمام اقدامات اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ پاکستان ایک پرعزم، متحرک اور فعال خارجہ پالیسی کی راہ پر گامزن ہے، یہ کامیابیاں وقتی نہیں بلکہ ایک بڑی سفارتی حکمت عملی کا حصہ ہیں جو آنیوالے دنوں میں پاکستان کو خطے میں ایک مؤثر اور بااعتماد ریاست کے طور پر مزید مستحکم کریں گی۔
وقت آ گیا ہے کہ ہم داخلی انتشار سے نکل کر بین الاقوامی سطح پر اپنی شناخت ایک ذمہ دار، باوقار اور امن پسند ملک کے طور پر منوائیں۔10 مئی کے بعد صرف دو فریق ایسے ہیں جو بار بار اسلام آباد پر چڑھائی کی بات کررہے ہیں۔ایک ہے سرنڈر مودی اور دوسرا قیدی نمبر 804اور اسکے ہمنوا، ان دونوں نے آئی ایم ایف سے پاکستان کو قرض نہ دینے کی درخواست کی جو رد کردی گئی، انھوں نے ہی ہماری فوجی تنصیبات پر حملہ کیا بھارت نے ہتھیاروں سے جبکہ پی ٹی آئی نے پرتشدد ہجوم کے ذریعے، انھوں نے ہی امریکہ سے پاکستان پر پابندیاں لگوانے کی کوشش کی، انھوں نے ہی سوشل میڈیا کے ذریعے قوم کو مایوسی اور تقسیم کا شکار کیا اور مسلسل کر رہے ہیں، انھوں نے ہی فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے خلاف عالمی سطح پر بدنامی کی مہم چلائی۔
یہ وہ رحجان ہےجس کو جڑ سے اکھاڑنا بہت ضروری ہے، سرنڈر مودی سمیت بھارتی فوج کی طبیعت تو بہت حد تک صاف ہوگئی ہے اور مزید بھی ہوگی لیکن قیدی نمبر 804اور اسکے مقلدین کو ٹھکانے لگانا ابھی باقی ہے اگر انھیں ایسے ہی چھوڑ دیا گیا تو یہ انتشار پھیلاتے ہی رہیں گے۔