السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
سچ، جھوٹ کی تمیز ختم
اس بار ’’بی گرمی‘‘ تو کچھ زیادہ ہی جاہ و جلال کے ساتھ تشریف لائی ہیں۔ گھر سے باہر منہ نکالنا مشکل ہوگیا ہے۔ چلیں خیر، جریدے کی بات کریں، تو سب سے پہلے’’آپ کا صفحہ‘‘ کھولا۔ ماشاءاللہ کافی معیاری اور سنجیدہ تحریریں پڑھنےکو ملیں۔ تمام خطوط نگاروں کا شکریہ۔ سرِورق کی ماڈل بہت بھلی بھلی سی تھی۔ منیر احمد خلیلی کی تحریر، رؤف ظفر، سیّدہ تحسین عابدی کی نگارشات سب لائقِ مطالعہ ٹھہریں۔ منور راجپوت کا ’’فیچر‘‘ پڑھ کے اندازہ ہوا کہ دنیا میں کہیں بھی حالات خُوش کن نہیں۔
’’فیک نیوز‘‘ واقعی اس قدربڑھ گئی ہیں کہ جھوٹ، سچ کی تمیز ہی ختم ہوگئی ہے۔ پتا ہی نہیں چلتا، کون سی خبر جھوٹی، کون سی سچّی ہے۔ ذوالفقار احمد چیمہ کی سرگزشت تو انتہائی ذوق وشوق سے پڑھی گئی۔ ویسے ہم بھی اِسی دشت کے مسافر ہیں کہ ہمارے شوہرِ نام دار بھی ریٹائرڈ ڈی۔ ایس۔ پی ہیں۔ ’’اسٹائل‘‘ کی تحریر تو ہمیشہ ہی لاجواب ہوتی ہے، خُوب صُورت اشعار سے مرصّع،نثر پر بھی نظم کا گمان ہوتا ہے۔
وہ کیا لکھا ؎ مَیں سراپا ہوں دُعا، تُو مِرا مقصودِ دُعا… بات یوں کر کہ مِری بات مُکمل ہوجائے… ابرآنکھوں سے اُٹھے ہیں، تِرا دامن مل جائے…حُکم ہو تیرا تو برسات مکمل ہو جائے۔ کیابات ہے، واہ واہ!! مزید کچھ خط طویل ہوا، توآپ بُرامان جائیں گی اور یہ منظور نہیں، سو، اجازت۔ (نرجس مختار، خیرپور میرس، سندھ)
ج: آپ سوشل میڈیا کے بجائے روایتی پرنٹ میڈیا اور الیٹرانک میڈیا پر(وہ بھی تمام چینلز پہ نہیں) بھروسا کرسکتی ہیں۔ خصوصاً پرنٹ میڈیا آج بھی محدود تر وسائل کے باوجود، سچ اور جھوٹ کی تمیز، کسی بھی خبر کی مکمل تحقیق و تصدیق ہی کے کلیے پرعمل پیرا ہے۔
کشتیاں چلائی جاسکتی ہیں!!
مَیں 2023ء سے روزنامہ جنگ کا قاری ہوں، تو آج سوچا، کیوں نہ ایک خط مَیں بھی لکھ ہی ڈالوں۔ پہلے مَیں یہ اخبار اپنے دادا جی کے گھر پڑھتا تھا، تب میری دل چسپی صرف کہانیوں وغیرہ تک محدود تھی۔ اب تو خیر پورا اخبار، سارا جریدہ ہی کھنگال ڈالتا ہوں۔
اپنے محلے کے ایک دیرینہ مسئلے سے بھی آپ کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ جب بارشیں ہوتی ہیں، تو گلی میں اتنا پانی کھڑا ہو جاتا ہے کہ باقاعدہ کشتیاں چلائی جاسکتی ہیں۔ بچّےگلی کو سوئمنگ پُول کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ یقین کریں، ہمارے لیے تو یہ پاک، بھارت جنگ سے بھی بڑا مسئلہ ہے۔ خدارا! اس مسئلے پر حکم رانوں کی توجّہ مبذول کروائیں۔ (عبداللہ ملک، شاہ نواز کالونی، چنیوٹ)
ج: گرچہ یہ صفحہ جریدے کے مندرجات پر اظہارِ خیال کے لیے مختص ہے، لیکن چوں کہ آپ کا پہلا خط ہے، تو آپ کو کچھ مارجن دیتے ہوئے آپ کے مسئلے کو بھی اجاگر کر دیا ہے۔ ویسے پنجاب میں تو مریم نواز شریف خاصا کام کررہی ہیں۔
ایسے مسائل کے حل کے لیے باقاعدہ مستعد ہیلپ لائنز موجود ہیں اور کئی لوگوں سے فوری ایکشن لیے جانے کی باتیں بھی سُنتے رہتے ہیں، تو بہتر ہے کہ آپ متعلقہ پلیٹ فارم پر شکایت درج کروائیں اور کراچی والوں کو تو ایسے مسائل کے ضمن میں کوئی نہ ہی چھیڑے، تو بہتر ہے۔ وہ کیا ہے کہ ؎ پُرہوں مَیں شکوے سے یوں، راگ سے جیسے باجا… اِک ذرا چھیڑیئے، پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے۔
اندر ہی اندر جوار بھاٹا
کافی عرصے بعد آپ کی محفل میں شرکت ہو رہی ہے، اُمید ہے، مایوس نہیں کریں گی۔ یہ جو کسی میں لکھنے لکھانے، محسوس کرنے اور اظہار کی عادت یا خداداد صلاحیت ہوتی ہے ناں، وہ کبھی نہ کبھی، خوشی یا غم کے موقعے پر کسی تحریر کے ذریعے بروئے کار آہی جاتی ہے۔ بظاہر صدمے سے ساکت و جامد بھی ہو جائیں، اندر ہی اندر جوار بھاٹے اُٹھتے رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہرایک کو ناگہانی آفات و صدمات سے محفوظ رکھے۔ کہنا صرف یہ تھا کہ آپ کا جو ’’اسٹائل رائٹ اَپ‘‘ ہوتا ہے ناں، اُس کا کوئی مول ہی نہیں۔ ہم اِس طرزِ تحریر کی مدّاح ہیں۔ بقیہ جریدے میں کچھ خاص تبدیلی محسوس نہیں ہوتی، سب اچھا، سب بہترین ہے۔ (حمیدہ گل، حمیرا گل، وحدت کالونی، بروری روڈ، کوئٹہ)
ج: آپ نے بالکل درست کہا۔ ہمیں آپ کے جذبات واحساسات کا بھی کسی حد تک اندازہ ہے کہ عموماً آپ کی طرف سے جو پیغامات موصول ہوتے ہیں۔ اُن سے والد کی ناگہانی وفات کا غم چھلک چھلک رہا ہوتا ہے۔ دُعا ہے کہ اللہ ربّ العزت آپ کو صبرِجمیل عطا فرمائے۔
مخلصانہ مشورہ
گزشتہ شمارے میں اپنا تفصیلی خط پڑھ کر اتنی خوشی ہوئی کہ بیان نہیں کرسکتا، اللہ پاک آپ سب کو سلامت رکھے۔ تازہ شمارہ دیکھا، بہت ہی اچھا لگا۔ یہ بےکار ملک جیسے چند ایک خطوط نگارون کو کچھ زیادہ سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں۔
اس بار کی ماڈل، ہیر علی سے سرِورق خُوب سج رہا تھا۔ اور آپ کے رائٹ اَپ کے تو کیا ہی کہنے۔ ’’دورانِ حج صحت کی حفاظت کیسےکریں؟‘‘ڈاکٹرمحب اللہ مصطفیٰ نے ایک معلوماتی تحریر قارئین کی نذرکی۔ جیّد عالمِ دین، جمہوری اقدار کےعلم بردار، حافظ حسین احمد سے متلعق محمد ارسلان فیاض نے خُوب لکھا۔
’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ کےحق دار رانا محمد شاہد ٹھہرائے گئے اور بجا طور پر ٹھہرائے گئے۔ نواب زادہ بےکار ملک کے لیے مشورہ ہے کہ وہ اب خطوط نگاری سے بالکل توبہ کرلیں، اس لیے کہ وہ دن بہ دن کچھ زیادہ ہی بہکی بہکی باتیں کرنے لگے ہیں، جن کاعموماً کوئی سر ہوتا ہے نہ پیر۔ یہ میرا اُن کو مخلصانہ مشورہ ہے، باقی اُن کی اپنی مرضی۔ (اسلم قریشی، آٹوبھان روڈ، ٹھنڈی سڑک، حیدرآباد)
ج: آپ تسلی رکھیں۔ اُن کی طرف سے آپ کے مخلصانہ مشورے کا بالکل ویسے ہی نوٹس لیا جائے گا، جیسے آج تک ہمارے تمام تر جوابات کا لیا جاتا ہے۔
چُپ سی سادھ لی
میڈم! آداب عرض ہے۔ مَیں کافی عرصے سے میگزین سے غیر حاضر ہوں۔ دراصل والدہ محترمہ اور چھوٹے بھائی کے اچانک انتقال کے بعد بس یوں سمجھیں، چُپ سی سادھ لی۔ کسی سے کچھ کہنے، سُننے کا دل ہی نہیں چاہتا۔ میڈم! مَیں ’’سنڈے میگزین‘‘ سے ایک عرصہ وابستہ رہا ہوں، مَیں نے اس میگزین سے بہت کچھ سیکھا ہے اور اب بھی سیکھتا ہوں۔
’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ ایک بہترین سلسلہ ہے، جو دینی معلومات کا گویا ایک خزانہ ہے۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ بھی قابلِ مطالعہ ہوتا ہے۔ میڈم! ایک درخواست ہے، کسی مضمون میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی تفصیل بھی شایع کی جائے۔ (حسن شیرازی، کراچی)
ج: آپ کی والدہ اور بھائی کی اچانک رحلت کا سُن کر دلی افسوس ہوا۔ اللہ ربّ العزت آپ کو صبروحوصلہ دے، مرحومین کی کامل مغفرت فرمائے۔ یہ سچ ہے کہ کبھی کبھی ناگہانی صدمات، سانحات کی کیفیت میں انسان بالکل خاموش ہوجاتا ہے، لیکن بہرکیف، جب تک زندگی ہو، جینا تو پڑتا ہے۔ کبھی دوسروں کے لیے، تو کبھی خُود اپنے لیے بھی۔
آپ نے خموشی کا قفل توڑا، بہت اچھا کیا۔ ایک بار پھر نئے سرے سے جینے کا حوصلہ پیدا کریں۔ ’’سنڈے میگزین‘‘ کے دروازے ہمیشہ کی طرح آج بھی آپ کے لیے کُھلے ہیں۔ ہاں، آپ کی فرمائش پر عمل درآمد بہرحال ناممکن ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی تفصیلات تو دُور، اُن کے ناموں سے بھی کم ازکم اس پوری دنیا میں تو کوئی واقف نہیں۔ اس سوال کے جواب کے لیے آپ کو بھی ہماری طرح روزِ حشر ہی کا انتظار کرنا ہوگا۔
بُہتوں کا بھلا
پیارے پیارے ’’سنڈے میگزین‘‘ کا پیارا سلسلہ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ سال میں تین مواقع پر شایع ہوتا ہے۔ اوّل نئے سال کے آغازپر، دوم عیدالفطر اور سوم عید الاضحیٰ کے موقعے پر۔ اس کے علاوہ سلسلہ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی، میرا پسندیدہ ترین سلسلہ ہے۔
ایک گزارش ہے کہ ایک نیا سلسلہ ’’آواز دے کہاں ہے تُو؟‘‘ کے عنوان سے بھی شروع کیا جائے، جس میں سفرِ زندگی میں بچھڑ جانے، کھو جانے والوں کی تلاش کی سعی ہو۔ جیسا کہ ہم اکثر اپنے بچپن و جوانی میں کئی قیمتی ساتھی، رشتے کھو دیتے ہیں، تو اس طرح اُن کی تلاش ممکن ہوسکے گی اور یوں بہتوں کا بھلا ہو جائے گا۔ براہِ کرم تجویز پر پوری سنجیدگی سے غور فرمائیے گا۔ (محمّد صفدر خان ساغر، نزد مکی مسجد، محلہ شریف فارم، راہوالی، گوجرانوالہ)
ج: اس ڈیجیٹل دَور میں، بچپن و جوانی میں بچھڑنے، کھوجانے والےجن افراد کی تلاش سوشل میڈیا کے ذریعے ممکن نہیں ہو سکی، وہ جریدے کے ایک نئے سلسلے سے مل پائیں گے، اس سے زیادہ بچکانہ بلکہ احمقانہ بات کوئی اور نہیں ہوسکتی، جب کہ اخبارات و جرائد کے پڑھنے والے اب آٹے میں نمک کے برابر رہ گئے ہیں اور سوشل میڈیا تک ہر ایرے غیرے، نتھو خیرے کی رسائی ہے۔ دنیا کہاں سے کہاں جاپہنچی ہے اورآپ ہمیں پوری سنجیدگی سے غور فرمانے کا مشورہ بھی دے رہے ہیں، تو کس بات پر؟ اورہاں، ’’ایک پیغام‘‘ سلسلہ ’’مدرز ڈے، فادرز ڈے‘‘ کے مواقع پر بھی شایع ہو رہا ہے۔
ماں کی میلی اوڑھنی اچھی لگی…
ماہِ مئی میں پاکستان نےایٹمی دھما کے کر کے عالمِ اسلام میں پاکستان کا سر فخر سے بلند کیا، تو ماہِ مئی ہی کے آپریشن ’’بنیان مرصوص‘‘ نے پاکستانی قوم کو ایک بار پھر یک جا کردیا۔ اسی ماہِ مئی میں دنیا بھر میں ماؤں کا عالمی یوم منایا جاتا ہے۔ ہمارے لیے تو یہ مادرِ وطن کے تحفّظ کے مہینے کے طور پر کچھ اور بھی محترم ومقدّم ہوگیاہے۔آپ کا ’’مدرزڈے ایڈیشن‘‘ لاجواب تھا۔
سیّدہ تحسین عابدی کی تحریر ’’ماں، اقوام کی معمار‘‘ لاجواب تھی۔ منور مرزا کے مضمون ’’بھارت خطّے میں امن کیوں نہیں چاہتا؟ میں اِک اِک پہلو کا بہت ہی عُمدگی سے تجزیہ کیا گیا۔ ’’آرٹیفیشل وومب، گھر گھروندا، ماں پنچھی، ماں اور ممتا‘‘ سب ہی مضامین ایک سے بڑھ کر ایک رہے۔ مگر آپ کی تحریر ’’ماں کا احساس چھاؤں جیسا ہے…‘‘ تو گویا اَن مول، بےمثل قرار پائی۔
مختصر یہ کہ ماں مٹّی کی حفاظت کے لیے اگر پاک فوج نے جان لڑادی، تو میڈیا نے بھی اپنا کردار نہایت عُمدگی سے ادا کیا۔ جوں کہ راقم الحروف کا تعلق بھی پاک فضائیہ سے رہا ہے، تو فتحِ مبیں نے بہت جذباتی سا کردیا ہے۔ دلی احساسات کی سو فی صد درست ترجمانی ممکن ہی نہیں۔ بس، اتنا ہی کہوں گا کہ ؎ تیرے دامن میں ستارے ہیں، تو ہوں گے اے فلک… مجھ کو اپنی ماں کی میلی اوڑھنی اچھی لگی۔ (نام و مقام نہیں لکھا)
ج : آپ کا غالباً یہ جریدے میں پہلا خط ہے۔ مگر آپ خط کے ساتھ نام لکھنا بھول گئے۔ آپ کے طویل خط میں آپریشن بنیان مرصوص، پر زیادہ روشنی ڈالی گئی، جریدے کے مندرجات پر کم بات تھی، خاصا ایڈٹ کرنا پڑگیا، آئندہ فارمیٹ کے فالو کریں اور تحریر کے ساتھ نام و پتا لازماً تحریر کریں۔
فی امان اللہ
’’عیدالفطر ایڈیشن‘‘ عیدایونٹ کا مکمل احاطہ کر رہا تھا۔ ٹائٹل پر خواتین سویّاں/شیر خُرما کھاتی نظر آئیں۔ سارا رمضان یہ خواتین سحرو افطار کا انتظام کرتی ہیں، تو عید کےدن تو کھانا بنتا ہے۔ ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی نے’’اسلام اور دیگر مذاہب میں عید کا تصوّر اور حقیقت‘‘ کے موضوع پر تاریخ کی کھوج سے ایک معلوماتی تحریر فراہم کی۔ ہر مہینے کے اہم دنوں پر ثانیہ انور دل چسپ انداز سے لکھ رہی ہیں۔
اِس دفعہ اپریل کے اہم عالمی ایّام ہمارے سامنے تھے۔ رؤف ظفر نے عید کے موقعے پر ایک ایسے طبقے کی ترجمانی کی، جس کی محرومی کا ازالہ ممکن نہیں۔ بندہ دوسرے شہر میں ہو تو عید پر آبائی شہر، علاقے کی طرف دوڑتا ہے، مگر وطن سے باہر ہو، تو کیا کرے اور پھر عید ایام جس تنہائی، اداسی، اپنوں سے دُوری کا احساس دلاتے ہیں، اُس تکلیف کا ادراک یقیناً تارکینِ وطن ہی کر سکتے ہیں۔
رابعہ فاطمہ کا موضوع،’’عید یا آن لائن ایونٹ‘‘ بہت اہم تھا، واقعتاً ٹیکنالوجی نے انسان کو حقیقی خوشیوں سے دُور کر کے مصنوعی زندگی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بےرُوح پوسٹس اور ایموجیز کے ساتھ انسان مطمئن بھی ہے۔’’سینٹر اسپریڈ‘‘ بھی خُوب تھا۔ سچ ہے، عید ہوتی ہی لڑکیوں بالیوں اور بچّوں کی ہے کہ حقیقی خوشی کا تعلق بےفکری سے ہوتا ہے۔
کنول بہزاد نے لکھاری خواتین کے ساتھ بابا بلھے شاہ کی نگری، قصور کے دورے کی رُوداد دل چسپ پیرائے میں لکھی۔ سب سے مزے دار چیز ’’قصوری فالودہ، اندر سے اور توا فرائی مچھلی‘‘تھی۔ اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘میں تمام خُوب صُورت رشتوں کو احساسات و جذبات کے رنگوں سے گوندھا گیا۔ مَیں پچھلے 25سال سے جریدے کا مستقل قاری ہوں، تاہم یہ درست ہے، ابتدائی طور پر صرف پسندیدہ سلسلے ہی پڑھ پاتا ہوں۔
کوئی اہم تحریررہ جائے، تو پھر کسی قاری کے توجّہ مبذول کروانے پر گزشتہ شمارہ بھی پڑھ ڈالتا ہوں۔ اور یہ توجّہ یقیناً ’’آپ کا صفحہ‘‘ ہی کی مرہونِ منّت ہے۔ وگرنہ آج کل رسائل و جرائد میں خطوط کے صفحات بھلا کہاں پڑھے جاتے ہیں۔ عید بعد کا شمارہ ملا۔ پیلےسوٹ میں ملبوس ماڈل دیکھی، تو یقین آگیا کہ آپ لوگ رنگوں کا انتخاب بھی موسم کی مناسبت سے کرتے ہیں، کبھی اس خطے میں بسنتی موسم بھی ہوا کرتا تھا۔
مولانا زبیر احمد صدیقی ’’وراثت کی منصفانہ تقسیم‘‘ جیسے اہم موضوع پر تحریر لائے۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ دین دار لوگ بھی وراثت کی تقسیم میں دین کو نہیں دیکھتے۔ منیر احمد خلیلی نے سلطنتِ عثمانیہ اور یہودیوں کی تاریخ کے بعد حماس اور غزہ پر بھی عمدہ لکھا۔ ڈاکٹر قمر عباس جون ایلیا کے نئے مجموعہ کلام ’’کیوں‘‘ سے متعلق اہم ادبی کاوش لائے۔ ’’خود نوشت‘‘ بہت دل چسپ رہی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں کرن عباس کرن نے کمال افسانہ لکھا۔ عمدہ اندازِ بیاں اور منظرکشی۔’’اداس نسلیں‘‘کے عبداللہ حسین کا اختتامی سفر یاد آگیا، بلاشبہ تنہائی سے بڑا عذاب کوئی نہیں۔ (رانا محمد شاہد، گلستان کالونی، بورے والا)
’’ای میل آف دی ویک‘‘
* آداب عرض! اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے…شاید کہ اُتر جائے، تِرے دل میں مِری بات۔ جو دل پر گزرتی ہے، آج رقم کرنے کا ارادہ کر ہی لیا ہے، تو ذرا پاسبانِ عقل کو’’سائیڈ لائن‘‘ (فقط تھوڑی دیرکو) کر کے یہ معرکہ سر کر ہی لوں۔ پہلی دفعہ کب ’’سنڈے میگزین‘‘ پڑھا، یاد نہیں۔ ہاں، ہوش سنبھالا، تو اتوار کے اتوار ایک پیارا سا جریدہ معمول کے اخبار کے ساتھ دیکھا کرتی، جس کے ساتھ میرا ناتا پیکرِ تصویر کے کاغذی پیرہن پلٹنے ہی تک محدود تھا۔
یہ ناتا عمیق مطالعے کے اس مضبوط رشتے تک، کہ جس میں، مَیں ریٹائرڈ سرکاری افسران کی طرح چائے کی چسکیوں کے ساتھ عالمی اُفق سے شروع ہو کر معاشرے کے انگور، کیکر ماپ جاتی، کب طے ہوا، پتاہی نہیں چلا۔ بوجھل اصطلاحات کے بغیر اسلامی اقدار وتاریخ کا بیان ہو یا گرگٹ کی مانند رنگ بدلتی دنیا کا گیان، ہاشم ندیم کے دل موہ لینے والے ناول ہوں یا عرفان جاوید کے گہرے پانیوں کےسیپ جیسے مضامین، شخصیات کا تعارف، سیکھ کی ابتدا یہیں سے کی اور اب تک جاری ہے۔
’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ؎ ’’کس قیامت کےیہ نامے مِرے نام آتے ہیں‘‘ اور … کس نفاست سے ’’ایک پیج‘‘ کر دیئے جاتے ہیں، یہ فن ہے، توآپ فن کار۔ کہنے کو بہت کچھ ہے، مگر صفحے کی تنگی(کہ وقت گرچہ اِن رُوپہلے اوراق کو کُندن کرگیا، مگر ضخامت کو’’سلم اینڈ اسمارٹ‘‘بھی) فی الوقت، ایک امر پر توجّہ دلانا مقصود ہے، جس نے پہلی بار بزم میں لب کشائی پہ مجبورکیا۔
ذوالفقار چیمہ کی ’’خُودنوشت‘‘ میں غالباً کمپوزنگ کی غلطی کے سبب پوری آیت ٹھیک طور پر نہ لکھی جا سکی۔ سورۃ البقرۃ کی آیت 283 کا جو حصّہ شائع ہوا، وہ دراصل یوں ہے۔ ولاتکتموا الشھادۃ ومن یکتمھا فانہ اثم قلبہ، واللہ بما تعملون علیم۔ اور (دیکھنا) شہادت کو مت چُھپانا، جو اِس کو چُھپائےگا، وہ دل کا گناہ گار ہوگا۔ (طاؤس، ملتان)
ج:اصلاح و رہنمائی کا بےحد شکریہ۔ دراصل، یہ اُردواِن پیج کا بڑا مسئلہ ہے۔ قرآنی آیات پر جب اعراب لگانے کی کوشش کی جاتی ہے، تو اکثر یا تو الفاظ آگے پیچھے ہوجاتے ہیں، یا پھر کچھ الفاظ کی صُورت ہی بگڑجاتی ہے، جیسا کہ آپ کی ای میل میں بھی آیت، بغیراعراب ہی کے شایع کی جا رہی ہے۔ بہرحال، آئندہ مزید خیال رکھا جائے گا۔ اورآپ اب پلیز آتی جاتی ہی رہیے گا۔
قارئینِ کرام کے نام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk