• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خدا بھلا کرے سارتر کا، ایسا فلسفی تھا کہ جس کا فلسفہ وجودیت توسمجھ میں نہیں آتا تھا مگر یار لوگ ہر محفل میں اُس کا نام یوں لیتے تھے جیسے Being and Nothingness انہوں نے گھول کر پی ہوئی ہو۔ اُس زمانے میں ہم بالکل ہی بالکے تھے،ویسے تو اب بھی کوئی افلاطون نہیں مگر اُس وقت تو نِرے گاؤدی تھے، ہونقوں کی طرح اُن سب کی شکلیں دیکھتے اور سوچتے تھے کہ اِس قدر پڑھی لکھی دنیا میں ہمارا کیا بنے گا، وہ تو بعد آشکار ہوا کہ وہ سب ’میبل اور میں‘ تھے۔ ہوا یوں کہ ایسی ہی ایک محفل میں وجودیت پر گفتگو شروع ہو گئی، ایک صاحب نے بڑھ چڑھ کر ایسے ایسے وجودی وار کیے کہ مجھ ایسے تو پہلے ہلّے میں ہی ڈھیر ہو گئے۔ محفل برخواست ہوئی تو میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ کیا اُن کے پاس Being and Nothingness کی کاپی ہے، انہوں نے ہلکا سا قہقہہ لگایا جس کا بین السطور مطلب یہ تھا کہ بچے کیا بات کر دی، سارتر نے Cafe de Flore میں اپنے دستخطوں کے ساتھ وہ کتاب پیش کی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ موصوف نے کبھی چونا منڈی لاہور سے باہر قدم نہیں رکھا تھا۔ اُس کے بعد کمال شفقت سے انہوں نے اپنی الماری سے وہ کتاب نکال کر مجھے دی اور کہا کہ اِس کا فرانسیسی نام L'Être et le néant ہے، اور اِس سے پہلے کہ میں مزید مرعوبیت کا شکار ہو کر اُن کے ہاتھ چوم لیتا، انہوں نے خود ہی بتا دیا کہ فرانسیسی نسخہ اُن کے پاس نہیں۔ خیر، ایک روز جی کڑا کرکے کتاب کھولی، پہلا صفحہ پڑھنے کی کوشش کی، ککھ سمجھ نہیں آیا، اُس کے بعد صفحے پلٹتا چلا گیا اور یہ دیکھ کر حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہ کتاب شروع سے آخر تک اُس کنواری لڑکی کی طرح پَوِتّر تھی جسے کبھی کسی مرد نے چھوا نہ ہو، نہ کسی جملے پہ نشان نہ کسی صفحے پر شکن۔ دو ہفتے بعد میں نے شکریے کے ساتھ کتاب اُن صاحب کو واپس کر دی۔

اب زمانہ بدل گیا ہے، سارتر آؤٹ آف فیشن ہو چکا ہے، یہ پوسٹ ماڈرن اِزم کا دور ہے، آج کل مباحث میں بعد از جدیدیت کی اِس ترکیب کا استعمال اَکسیر سمجھا جاتا ہے، لہٰذا میں نے بھی سوچا کہ اِس پر طبع آزمائی کی جائے۔ ژاک دریدہ اور مائیکل فوکو کا نام تو سب نے سُن رکھا ہوگا، گزشتہ دنوں ایک اور صاحب کا فلسفہ نظر سے گزرا جن کا نام Jean-François Lyotard تھا، سارتر کی طرح یہ بھی فرانسیسی تھا، اِس کا نظریہ خاصا دلچسپ تھا/ہے جسے اُس نے Meta Narrative یعنی ’عظیم بیانیے‘ کا نام دیا۔ گزشتہ چند برس سے یہ لفظ بیانیہ ہمارے ہاں بہت مشہور ہے، میڈیا میں اکثر بحث ہوتی ہے کہ ریاست کا بیانیہ کیا ہونا چاہیے، دہشت گردوں کے بیانیے کو کیسے رد کرنا ہے، لبرل طبقے کا بیانیہ کیا ہے، خاکسار کی ایک کتاب کا نام بھی ’بیانیے کی جنگ‘ ہے لیکن خدا جانتا ہے کہ اُس وقت مجھے اِس فلسفے کا علم نہیں تھا۔ معافی چاہتا ہوں یہ کمپنی کی مشہوری یونہی بیچ میں آ گئی، ذکر ہو رہا تھا مسٹر فرانسوا لیوتار کا جس کا کہنا تھا کہ ہر معاشرے کا اپنا سچ اور اپنا بیانیہ ہوتا ہے، کوئی سچ آفاقی اور حتمی نہیں، معاشرے جب ایک عظیم بیانیے یا نظریے کو اپنا لیتے ہیں تو انہیں لگتا ہے کہ وہی سب سے بڑی سچائی ہے، اور یہ بات صرف معاشرے یا سماج تک ہی محدود نہیں رہتی بلکہ مقامی اور انفرادی سطح پر بھی ہم کسی نہ کسی بیانیے کے اسیر ہوتے ہیں اور اُس بیانیے کے تابع ہی سچ اور جھوٹ کا تعین کرتے ہیں، بعض اوقات انفرادی بیانیہ درست بھی ہو سکتا ہے مگر معاشرے کے عظیم بیانیے کے سامنے اُس کی آواز دب جاتی ہے یا دبا دی جاتی ہے۔ سماج کا عظیم بیانیہ بظاہر آفاقی اور متاثر کُن ہوتا ہے اور معاشرے کے ہر تصور کی تشریح کا دعویٰ رکھتا ہے، یوں کہیے کہ عظیم بیانیہ معاشرے کی تاریخ، اخلاقیات اور شناخت جیسے مسائل کا حل پیش کرتا ہے، ہر تان اُسی بیانیے پر آ کر ٹوٹتی ہے اور یوں وہ سماج کے سوچنے سمجھنے والے طبقات پر غالب آ جاتا ہے اور اکثریت اُس بیانیے کی روشنی میں ہی اپنے تصورات قائم کرتی اور پھر اُس پر کاربند رہتی ہے۔ مثال کے طور پر پاکستانی سماج کا عظیم بیانیہ نظریہ پاکستان ہے، مغربی دنیا کا عظیم بیانیہ یہ ہے کہ ترقی صرف عقلیت پسندی، روشن خیالی اور سائنس کے ذریعے ہی ممکن ہے، یہ عظیم بیانیہ علم کے روحانی اور الہامی ذرائع کو رد کرتا ہے، کارل مارکس کے چاہنے والے سمجھتے ہیں کہ اُن کے ’پیغمبر‘ نے جو عظیم بیانیہ دیا فقط وہی درست نظریہ ہے۔

عظیم بیانیے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں انفرادی اور مقامی سطح پر ذیلی بیانیہ بھی ہوتا ہے، لیکن ذیلی بیانیے میں اتنی سکت نہیں ہوتی کہ وہ عظیم بیانیے کا مقابلہ کر سکے جسکی وجہ سے سچائی کی موت واقع ہو جاتی ہے اور اسی کو ہم پوسٹ ماڈرن اِزم کہتے ہیں۔ برطانیہ کی مثال لیتے ہیں، وہاں غالب بیانیہ اور سرکاری سچ یہی ہے کہ نسل پرستانہ رویہ قابل قبول نہیں، ملازمت اور کام میرٹ اور قابلیت کی بنیاد پر ہوتا ہے نہ کہ گوری چمڑی دیکھ کر، جبکہ کسی غیر انگریز سے اگر پوچھا جائے تو اُس کا Mini Narrative یعنی ذیلی بیانیہ مختلف ہو گا، وہ آپ کو بتائے گا کہ برطانیہ میں جو لوگ بیرسٹر بنتے ہیں اُن میں سے ستّر فیصد سے زیادہ کا تعلق انگریز اشرافیہ اور آکسفورڈ اور کیمبرج جیسی جامعات سے ہوتا ہے جبکہ نظام بظاہر میرٹ پر کھڑا ہے۔ اِس سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ برطانیہ کا انگریز اپنے عظیم بیانیے کو ذاتی تجربے کی بنیاد پر سچ سمجھتا ہے جبکہ غیر انگریز کا ذیلی بیانیہ مختلف حقائق کو سچ مانتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں بھی اقلیتوں اور دیگر کمزور طبقات کے ذیلی بیانیے ہیں جہاں سچ کی مختلف جہتیں ہیں مگر اکثریت کا غالب بیانیہ اُس سچ کو سننے کی تاب نہیں رکھتا۔ اِس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ معاشروں میں ذیلی بیانیہ لازماً درست ہی ہوتا ہے، فرانسوا لیوتار کہتا ہے کہ بعد از جدیدیت کے دور میں ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ سچ کی کوئی ایک شکل نہیں ہو سکتی کہ ہم کہہ سکیں کہ فلاں جگہ سچ پڑا ہے جاؤ جا کر اٹھا لاؤ، سچ ہمیشہ بکھرا ہوا ہوگا، متنازع ہوگا اور سیاق و سباق سے مشروط ہوگا۔ جب ہم سچ کو کسی غالب بیانیے کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ فراموش کر دیتے ہیں کہ معاشرے کے وہ طبقات، جو اُس بیانیے کے معمار ہوتے ہیں، ہم انہیں طاقتور بنا دیتے ہیں کیونکہ اصل طاقت اُس کے پاس ہوتی ہے جو بیانیے کی تشکیل کرتا ہے۔ اِس کسوٹی پر آپ معاشرے کو پرکھ لیں کہ اصل طاقت کس کے پاس ہے، یہاں کس کا بیانیہ غالب ہے اور وہ بیانیہ کمزور طبقات کے ذیلی بیانیے سے کس حد تک متصادم ہے۔ اِن سوالوں کے جواب تلاش کریں، خدا نے چاہا تو اِفاقہ ہو گا۔

تازہ ترین