اسرائیلی حملے ”آپریشن رائزنگ لائن“ کے جواب میں ایران نے فوری طور پر ”آپریشن وعدۂ صادق تھری“ کا نہ صرف یہ کہ اعلان کیا بلکہ اسرائیل پر اپنے طاقتور میزائلوں کی بوچھاڑ بھی کر دی، اسرائیل کے ترقی یافتہ انفراسٹرکچر کی چکا چوند سے مالامال تل ابیب اور ماڈریٹ تاریخی پورٹ سٹی حیفا پر جو ہائپر سونک ”الفتح“ اور ”خیبر شکن“ میزائلوں سے اسرائیلی انفراسٹرکچر کی جو تباہی ہوئی ہے وہ انٹرنیٹ پر ملاحظہ کی جا سکتی ہے، اسرائیل کے حمایتی چھوڑ مخالف بھی اس کا تصور نہیں کر رہے تھے۔ اسرائیل نے غزہ میں جو تباہی ڈھائی تھی ایرانیوں نے اس کا بدلہ لے لیا۔ اسرائیل کا وہ مضبوط آئرن ڈوم سسٹم جس کے چرچے تھے، وہیں کہیں دھرا اپنا منہ چڑا رہا ہے۔ یہ حملے رکے نہیں تاحال اسی رفتار سے جاری ہیں کہ جنکی دہشت سے یورپ اور امریکا کی پریشانی اس حد تک بڑھ چکی ہے جیسے اب یہی میزائل امریکی اڈوں اور ٹھکانوں پر بھی گرنے جارہے ہیں بالخصوص عراق میں موجود امریکی فوجی اڈوں پر۔ اسی ریفرنس میں اسرائیلی پرائم منسٹر نیتن یاھو نے کہا ہے کہ اگر ایران جوہری طاقت کا حامل ملک بن چکا ہوتا جس کے وہ بہت قریب تھا اور آج جوہری اسلحہ سے لیس اسکے میزائل یہاں گر رہے ہوتے تو اسرائیل کا کیا حشر ہوتا، اس کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ اس سب کے باوجود سوال یہ ہے کہ اس تباہ کن جنگ کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ کون جیتے گا؟ کون ہارے گا؟ گروپ سیون سربراہی کانفرنس میں اگرچہ جنگ بندی پر زور دیتے ہوئے اسرائیل کیلئے اپنے وجود کے تحفظ کا حق مانتے ہوئے اسکی حمایت کا اعلان کیا گیا اور ایران پرزور دیا گیا کہ وہ مسئلے کو سفارتکاری سے حل کرنے کی طرف آئے لیکن امریکی صدر ٹرمپ نے اس علامیے پر دستخط کرنے کی بجائے واشنگٹن کی راہ لی اور اور کہا کہ محض فائر بندی کافی نہیں ہے ہم نے اب اس ایشو کا مستقل حل نکالنا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایران غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دے۔ ایرانی سپریم لیڈر خامنہ ای ہمارے لیے آسان ہدف ہیں ہمیں معلوم ہے کہ وہ کہاں ہیں فی الوقت ہم ایرانی لیڈر کو ٹارگٹ نہیں کرنے جا رہے حالانکہ ہم نے ایران کی فضائی حدود پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے لیکن ہم نہیں چاہتے کہ ایرانی میزائل ہمارے شہریوں یا فوجیوں کو نشانہ بنائیں بلکہ ہم ایرانی شہریوں کو بھی نشانہ بنتا نہیں دیکھنا چاہتے اس لیے انہیں تنبیہ کر رہے ہیں کہ وہ فوری طور پر تہران سے نکل جائیں۔ ٹرمپ نے کہا کہ اگر خطے میں امریکی مفادات کو نشانہ بنایا گیا تو وہ ایران پر ’’سخت وار‘‘ کریں گے۔ مصری صدر انور السادات نے کہا تھا کہ وہ اسرائیل سے تو لڑ سکتے ہیں امریکا کا مقابلہ نہیں کر سکتے اسی سوچ کے تحت انہوں نے اپنے ملک کو تحفظ دلوایا تھا۔ آج پھر حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں اسرائیلی پرائم منسٹر نیتن یاھو بہرصورت امریکا کو بھی اس جنگ میں گھسیٹنا چاہتے ہیں بالخصوص فردو میں ایران کی ایٹمی تنصیبات جو انتہائی گہرائی میں نوے میٹر زیرِ زمیں کے مضبوط بنکر زمیں ہیں انہیں ختم کرنے کیلئے جتنے ہیوی بم اور جیسے حملہ آور طیارے کی ضرورت ہے وہ صرف امریکا کے پاس ہے یوں لگ رہا ہے کہ اب امریکی صدر اس حد تک جانے کیلئے تیار ہو چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس جنگ میں امریکی شمولیت سے کیا چائینہ و رشیا بھی ایران کی سپورٹ میں براہِ راست پہنچیں گے؟ جیسے کہ حال ہی میں چینی قیادت نےکہا ہے کہ ایران اور اسرائیل کے تنازعے میں امریکی صدر آگ پر تیل ڈالنے کا کام کر رہے ہیں۔ صدر شی نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’دنیا امریکا کے بغیر بھی آگے بڑھ سکتی ہے‘‘۔ یہ امر بھی واضح رہے کہ ایران نے اب تک جو طاقت دکھائی ہے شاید یہ سب ان بڑی طاقتوں کی بالواسطہ معاونت کے بغیر ممکن نہ تھی۔ چائینہ کی اس وقت امریکا کے ساتھ جو کولڈ وار چل رہی ہے وہ تو سب پر واضح ہے رشیا کو بھی بشار الاسد کا تختہ الٹتے ہوئے جس طرح مڈل ایسٹ سے فارغ کیا گیا ہے اس تناظر میں اگر یہ جنگ زیادہ طول پکڑ گئی تو نتیجتاً صورتحال ورلڈ وار تھری کی طرف جا سکتی ہے۔ درویش کی نظر میں اس امکان کی موجودگی کے باوجود بہت سی الجھنیں ہیں، کوئی بھی خود کوپرائی آگ میں الجھانا نہیں چاہتا، امریکا اس سے پہلے ہی حالات کو اپنے حق میں سنبھال لے گا، رشیا ثالثی کی پیشکش کر رہا ہے۔ البتہ پہلے تو ٹارگٹ محض ایرانی جوہری طاقت تھی مگر اب یہ اس سے بھی آگے بڑھ کر رجیم چینج تک پہنچ چکا ہے غیر مشروط سرنڈر کا یہی مدعا ہے۔ چاہے ردِعمل میں آبنائے ہر مز بند ہوتی ہے یا امریکی فورسز یا اڈوں کو ٹارگٹ بننا پڑتا ہے، امریکا اس سے خود نمٹے گا، ایران نے بشمول یروشلم اسرائیلی ترقی یافتہ شہروں میں جو تباہی ڈھائی ہے اس سے درحقیقت ویسٹ ایران کے خلاف متحد ہو گیا ہے۔ ایران کی طاقتور ترین ولایت فقیہہ پر براجمان شخصیت نے اپنی ہلاکت کی صورت میں اپنے جو اختیارات پاسداران کو تفویض کیے ہیں بہتر ہوتا کہ وہ یہ اختیارات ایرانی منتخب مجلس اور منتخب صدر کو تفویض کرتے۔ حکومت پاکستان نے اپنی پالیسی میں اعتدال دکھایا اور ہمارے وزیر خارجہ نے پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا ایٹم بم محض ہماری اپنی حفاظت کیلئے ہے ایران یا کسی اور کیلئے استعمال کرنے کی خبر فیک اور شرانگیز ہے۔ خیر کسی امریکی پریذیڈنٹ نے ہماری قیادت یا ہمارے آرمی چیف سے ملاقات میں ہم پاکستانیوں کی جو عزت افزائی کی اور جو معاملات طے ہوئے ہیں ان سے نہ صرف ہماری خارجہ پالیسی میں کچھ سنجیدگی یا بہتری آئیگی بلکہ مڈل ایسٹ کے ایشو کو حل کرنے میں بھی معاونت ملے گی۔