اب ایک اور حیران کن قصہ جسکی جانب ملک کے سارے ادیب دانشور اور پڑھے لکھے لوگ یہ سن کر حیران ہیں کہ محکموں کو کم کرنے والی ذہین کمیٹی نے کہا ہے کہ یہ جو ادب، کتاب وغیرہ کے نام پر ادارے ہیں، ان کو کسی یونیورسٹی میں ضم کر دیا جائے۔ ان میں اکیڈمی آف لیٹرز ،مقتدرہ، اقبال اکیڈمی، قائد اعظم اکیڈمی، اردو سائنس بورڈ وغیرہ کو کسی یونیورسٹی کے ذمے ڈال کر، ان کی بڑی عمارتوں اور ان میں کام کرنےوالےادیبوں کو، اخراجات کم کرنے کے منصوبے میں ڈال کر جان چھڑائی جائے۔
اکیڈمی آف لیٹرز جیسے سنجیدہ عملی ادارے ساری دنیا میں پہچانے جاتےہیں۔ سنجیدہ کام کرنے والےادارے ، کسی ملک کی ادبی، ذہنی شناخت ہوتے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ بھٹو صاحب نے پچاس برس پہلے ان اداروں کی بنیاد رکھی تھی۔ فیض صاحب کو وہ خود بلا کر لائے تھے اور سربراہ مقرر کیا تھا۔ ساری دنیا کے ملکوں میں ادبی مراکز یعنی اکیڈمی آف لیٹرز کو بہت عزت والا ادارہ مانا جاتا ہے۔ پاکستان میں ادب و ثقافت کے فروغ کیلئے اکیڈمی کے تو ذیلی دفاتر بھی ہیں جہاں علاقائی زبانوں کے ادیبوں کی مالی مدد کے علاوہ ان کے تخلیقی ادب کو فروغ دینے کیلئے کانفرنسیں، ادیبوں کی ایک دوسرے صوبے میں ملاقات اور مسائل کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ ہم لوگ تو بڑے ادیبوں کی کتابیں چوری کرکےترجمہ کر کے فروخت کرتے ہیں اورپبلشرز خوب کماتے ہیں۔ یہ صرف اکیڈمی ہی ادیبوں کے حقوق کی قانونی نگہداشت کرتی ہے۔ جو ادیب بزرگ اور معذور ہوتے ہیں۔ان کی امدادبھی اکیڈمی ہی کرتی ہے۔ ساری دنیا میں عالمی ادبی کانفرنسیں ہوتی ہیں۔ وہاں پر ملک کے سینئر ادیبوں کو بلایا جاتا ہے ۔ ان کے ساتھ کتابوں پر دستخط کرنے کی شامیں پھر ان کے ادبی مخطوطات پر تراجم اور ہر ملک سے رابطے کے معاملات طے کیا جاتے ہیں۔ موضوع ادب تو اپنی بنیاد اور ملکی ذہنی تعمیر کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ یہ کونسی کمیٹی ہے جو اعلیٰ ادب اور ادیبوں کی ہمت افزائی کو نامعقول سمجھ رہی ہے۔ ان کو غالب، اقبال اور خود قائد اعظم کی تقاریر پڑھائی جائیں۔ بتایا جائے مولانا ابوالکلام آزاد، انڈیا کے وزیر تعلیم تھے۔
حذیفہ رحمان، پڑھے لکھے شخص ہیں۔ اپنے شعور کو ان کمیٹیوں کی زد سے محفوظ کریں۔ ان کو واضح کریں کہ جہالت تو ہمارے ملک میں پہلےہی کم نہیں ہےایسے غیر مناسب اقدامات سےتوارسطو اور افلاطون تک الماریوں میں بند کر دیئے جائینگے۔ رہا تعلیم ، صحت، موسمیات یہ تو سب صوبائی ذمہ داری ہیں۔ صوبے جانیں وہ بھی بھیک مانگنے ملکوں ملکوں جا کے منت مراد پوری کر کے آئیں۔
گزشتہ دنوں مظفر گڑھ کی ضلعی خاتون سربراہ نے کمال ہنر دکھایا۔ موقع تھا بے نظیر پروگرام کی سہ ماہی تقسیم کا، وہ خاتون برقع پہن کر گئی اوراس بے شمار مجمع میں ایک شلوار قمیص پہنے شخص سے کہا ’’ میں بھی بہت دیر سے کھڑی ہوں۔ مجھے یہ پیسے دلوا دیں۔ اس نے کہا مجھے پانچ ہزار دیجئے گا‘‘۔ برقعہ پوش خاتون نے وعدہ کیا۔ تھوڑی دیر بعد آکر کہا اس لسٹ میں آپ کا نام نہیں تھا۔ میں آپ کا نام درج کروا آیا ہوں۔ اگلی دفعہ آپ کو پیسے مل جائیں گے۔ وہ اس کو باتوں میں لگا کر گاڑی کے پاس آئی ، ڈرائیور کو کہا ’’انہیں اپنے ساتھ لے جائیں۔ پانی وانی پلائیں‘‘۔ بعد ازاں یہ کھلا کہ ایسے ٹا ئوٹ پندرہ تھے اور معصوم جاہل عورتوں کو ورغلا کر پیسے بٹور لیتے تھے۔ ممکن ہے ہر جگہ ہوں مگر مظفر گڑھ کی خاتون سربراہ کی ہمت اور ذہانت کی داد دینی چاہیے۔ ویسے تو بلوچستان کے پی کے بہت سے افسران کے گھروں سے تھیلوں میں بھرے کروڑوں کے نوٹ ملے ہیں۔
’’ممکن ہے ہم اسرائیل ، ایران جنگ میں شامل ہو جائیں‘‘۔ یہ دانشورانہ اعلانات ٹرمپ صاحب کے ہیں۔ گویا وہ اب تک معصوم دہی کھا رہے ہیں اور اور اس ’’ممکن‘‘ کو بتانا چاہتے ہیں کہ وہ پاکستان ، ہندوستان کی ثالثی کرنے کو تیار ہیں۔ یہ ثالثی پہلے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان کرنے کا وعدہ کر کے، نیتن یاہو کو کھلی چھٹی دے دی کہ جو کچھ مزاجِ یار میں آئے ، کیے جائو‘‘۔ ہمارے سامنے یہ سارے اسلامی ممالک جو تعداد میں 32تھے، وہ کچھ نہیں سوائے گیدڑ بھبکیوں کے۔ وہ خاص رشتہ خاص خریداروں کے ساتھ یہ پوچھنے کو رکھ رہے ہیں کہ ہمیں کتنا سرمایہ دوگے ، ورنہ مسلمان ملکوں کا حشرتمہارے سامنے ہے۔ آگئے بڑھنے کیلئے جیسے مغلوں کے زمانے میں اپنی اور تغلق ، کیا اور بتائوں، انگریز تک سرمایہ لے کر بدلے میں کچھ بیگھے زمین دے دیا کرتے تھے۔ ان میں جو جو تیل اور دیگر معدنیات کو چھپائے گاوہ پھر دو اسلامی سلطنتوں کا حشر دیکھ لے۔
یہ بہت اہم موضوع نہیں کہ بکرےکی ماں کب تک خیر منائے گی۔ ساری اسلامی حکومتیں دل کی کمزور ہیں۔ شہنشاہیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ ہم واپس اپنے ملک کے بجٹ کی بات کریں۔ بہت مختصر لفظوں میں 17کھرب کا بجٹ، آدھا تو قرضوں میں اور باقی دو تہائی دفاع کو مضبوط کرنے پر صرف ہو گا۔ جو بچا وہ ہمارے وزیروں اور پارلیمانی نمائندوں کو دے دیا جائے گا۔ اب ہر کوئی ایاز صادق کی طرح حج کر کے آیا ہو گا تواللہ کے حضور اپنی جیب نذر کرے گا۔ ورنہ ہو تو یہ رہا ہے کہ بارہ ممبران پر مشتمل کارواں ہر اس ملک میں تین ہفتے کا چکر لگا کر کشمیر کیلئے ہائو ہی کر آیا۔سیر بھی اور جو ملک نہیں دیکھے تھےوہ بھی یادوں میںشامل ہو گئے۔
ایران کی بپتا کو بڑھنے نہ دیں۔ اسلامی ملک جاگ جائیں۔