کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے ہم غلط وقت اور غلط جگہ پر پیدا ہو گئے، ہر وقت جنگ کا خطرہ اور موت کا خوف۔ خدا خدا کرکے پاک بھارت جنگ ٹَلی تھی کہ ایران اسرائیل جنگ شروع ہو گئی اور وہ بھی بالکل ہمارے بغل میں، اُس سے پہلے دو افغان جنگیں بھی ہم بھگتا چکے ہیں اور اپنے ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ ہم نے علیحدہ لڑی ہے۔ مگر اب تو دنیا کی بالکل ہی سمجھ نہیں آ رہی کہ کس طرف جا رہی ہے، جب پہلی جنگِ عظیم ختم ہوئی تو دنیا کو یہ امید بندھی تھی کہ اب جنگ نہیں ہوگی، اُس زمانے میں انگریزی مصنف ایچ جی ویلز کا یہ جملہ بہت مقبول ہوا کہ یہ وہ جنگ تھی جس نے تمام جنگوں کا خاتمہ کر دیا۔ نیویارک ٹائمز نے سُرخی جمائی تھی کہ دنیا اب جمہوریت کیلئے محفوظ جگہ ہے، اور ٹائمز آف لندن نے لیگ آف نیشنز کے بارے میں امید ظاہر کی تھی کہ یہ انسان کی پارلیمان ہوگی جس میں جنگ کا تصور نہیں ہوگا۔ لیکن یہ تمام تبصرے اور پیش گوئیاں غلط ثابت ہوئیں، محض اکیس برس بعد ہی دنیا دوسری جنگ عظیم میں کود پڑی، اُس کے بعد سے اب تک کوئی جنگ عظیم تو نہیں ہوئی مگر تمام چھوٹی، بڑی، علاقائی اور دو طرفہ جنگیں ملا کر حساب لگایا جائے تو اب تک چار سے پانچ کروڑ افراد اِن جنگوں میں مر چکے ہیں۔ اِس لحاظ سے دیکھا جائے تو دنیا کبھی جنگوں سے پاک نہیں رہی اور جب تک انسان اِس کرہ ارض پر موجود ہے یہ جنگ سے باز نہیں آئے گا۔
مجھے یوں لگتا ہے کہ زمانہ ہمیشہ سے ہی ایسا تھا اور آئندہ بھی ایسا ہی رہے گا، جنگیں ہوں یا نہ ہوں، کوئی نہ کوئی آفت یا بلا انسان کے گلے پڑتی رہے گی، اور کچھ نہ ہوا تو موسمیاتی تبدیلی ہی زمین کو تباہ کر دے گی۔ ہم انسانوں کو یہ خوش فہمی ہے کہ اخلاقی اور مادی اعتبار سے ہم نے ناقابل یقین ترقی کی ہے، خاص طور سے جتنی ترقی گزشتہ پانچ سو سال میں ہوئی اتنی پوری انسانی تاریخ میں نہیں ہوئی اور اب مصنوعی ذہانت اگلے دس بیس برس میںجو تہلکہ مچائے گی اُس کا موازنہ اِن پانچ سو برسوں سے بھی نہیں کیا جا سکے گا۔ یہ تمام باتیں درست ہیں مگر اِس مادی ترقی کی جو قیمت ہم چکا رہے ہیں وہ بے حد خوفناک ہے۔ یہ ترقی مستقبل کی جنگوں کا نقشہ بدل دے گی، طاقتور اقوام اپنے گھروں میں بیٹھ کر کمزور ممالک کو ملیا میٹ کر دیں گے اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا،اب بھی نہیںہے۔ مصنوعی ذہانت آپ کی پرائیویسی کا تصور ختم کر دے گی، اور نہ ہی آپ کے پاس کسی فیصلے کا اختیار رہے گا، الگوریتھم ایسے کام کرے گا کہ آپ کو لگے گا کہ آپ اپنی مرضی سے زندگی کے فیصلے کر رہے ہیں مگر حقیقت میں آپ مجبور محض ہوں گے کیونکہ آپ انہی حقائق کی بنیاد پر فیصلے کرنے پر مجبور ہوں گے جو آپ کے سامنے ایک خاص انداز میں پیش کیے جائیں گے۔
اخلاقی سطح پر تو حال اِس سے بھی برا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک خاتون ہے جس کا نام ایریکا جورڈن ہے، اِس قسم کے موضوعات پر اُس کا تبصرے بے حد عمدہ ہوتے ہیں، ویسے بھی خوش شکل خاتون ہے، سننے میں بوریت نہیں ہوتی (وہ بندہ ہی کیا جو کسی عورت کے بارے میں یہ بات کیے بغیر رہ سکے)۔ ایریکا کہتی ہے کہ ’’کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ آج کل تعلیم یافتہ ہونے کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور حقائق کی پڑتال کو سنسرشپ سمجھا جاتا ہے، مبارک ہو، آپ اپنی آنکھوں کے سامنے دانش کو زوال پذیر ہوتا دیکھ رہے ہیں، یہ راتوں رات نہیں ہوا، یہ کافی سوچے سمجھے طریقے سے کیا گیا ہے، اور یہ ایسے کام کرتا ہے۔ پہلا مرحلہ، لا علمی کو کامن سنس کہنا شروع کر دو، اگر حقائق سے لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہو تو اسے جعلی خبر کہہ دو، اگر تاریخ انہیں غلط ثابت کر دے تو واقعے کا سرے سے انکار ہی کر دو، اگر سائنس دان کسی بات کی تشریح کی کوشش کرے تو بلا کھٹکے کہہ دو کہ وہ تو فلاں کے ایجنڈے پہ کام کر رہا ہے۔ دوسرا مرحلہ، لوگوں کی مہارت اور تجربہ کاری کو نشانہ بناؤ، مثلاً یہ کہ ڈاکٹر محض پیسے بنانےکیلئے جھوٹ بولتے ہیں، پروفیسر آپ کے بچے کے دماغ میں گمراہ کُن خیالات ڈالتے ہیں اور صحافی اصل میں ڈیپ اسٹیٹ کے خفیہ کارندے ہیں۔ تیسرا مرحلہ، علم کی بجائے وفاداری کو ترجیح دو، کسی بات کو ثابت کرنے کیلئے اب ثبوت کی ضرورت نہیں فقط ہم خیال افراد کا گروہ ہونا چاہیے جو ایک دوسرے کی تائید کرتا رہے، علم اور تحقیق سے بات کرنے کی بجائے فقط جوش و جذبہ کافی ہے۔ سو یہ ہیں وہ تمام مراحل جنہیں طے کر کے آج ہم اُس جگہ کھڑے ہیں جہاں کتابوں پر پابندی لگانے کو آزادی کہا جاتا ہے اور سوال کرنے والے کو طعنہ دیا جاتا ہے اور علم کا حصول آپ کو دشمنوں کی صف میں کھڑا کر دیتا ہے کیونکہ لوگوں کو کنٹرول کرنا ہی کافی نہیں تھا بلکہ لوگوں کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ناکارہ بنانا بھی ضروری تھا۔‘‘
ایریکا کا تبصرہ سننے کے بعد ایسا لگا جیسے اُس نے پاکستان کی کہانی بیان کی ہو مگر دنیا بھر کی یہی کہانی ہے، کہنے کو ہم اشرف المخلوقات ہیں مگر اِس زمین کا حال ہم نے یہ کردیا ہے کہ اگلے سو پچاس سال میں یہ دنیا یہ محفل کسی کام کی نہیں رہے گی۔ مجھے اندازہ ہے کہ یہ بے حد قنوطی قسم کا تجزیہ ہے، مستقبل کے بارے میں پُر امید رہنا چاہیے کیونکہ اگر امید نہ ہو، انسان ایک دن بھی زندہ نہ رہ سکے۔ اِس لیے نہ جانے کیوں مجھے یقین ہے کہ اِن تمام اسباب کے باوجود انسان اِس دنیا میں جینے کا کوئی نہ سبب پیدا کر ہی لے گا، آخر یہ دھرتی کروڑوں سال سے ایسی ہی چلی آ رہی ہے، بے شک ہم نے اِس کا حال برا کر دیا ہے اور اپنے لیے خواہ مخواہ کا ایسا نظام بنا لیا ہے جس میں ہمیں زندہ رہنےکےلئے پیسے کمانے پڑتے ہیں، سوائے انسان کے زمین پر کوئی اور مخلوق ایسی نہیں جسے یہاں رہنے کےلئے پیمنٹ کرنی پڑتی ہو، ہم ایسے سیانے ہیں کہ اپنے لیے اسی زمین پر عذاب تیار کیے بیٹھے ہیں، اگلے جہاں میں کیا ہوگا، خدا جانے۔ بقول اقبال، کارِ جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر۔