السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
مقابل نہیں ٹھہرسکتا
’’سنڈے میگزین‘‘ کے معیار کی بات کریں، تو کم ازکم مُلک کا تو کوئی جریدہ اس کے مقابل نہیں ٹھہرسکتا۔ ہر تازہ شمارہ، پچھلےسے کچھ بڑھ کرہی معلوم ہوتا ہےاوریہ بھی بڑے کریڈٹ کی بات ہے کہ اِس جریدے نےآغاز سے آج تک ایک بہترین معیارقائم رکھا ہوا ہے۔ اس ضمن میں آپ اورآپ کی ٹیم کی کاوشیں یقیناً لائق تحسین ہیں۔ دُعا ہے کہ جریدہ اِسی طرح دن دونی، رات چوگنی ترقی کرتا رہے۔ (شری مُرلی چند، گوپی چند گھوگھلیہ، پرانا صدر بازار، شکارپور)
پاک فوج کو خراجِ تحسین
آداب میڈم! آپ خیریت سے ہیں؟ عرض ہے کہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ (گوشہ برقی خطوط) میں ایک نامہ نگار قرات نقوی نے ٹیکساس، امریکا سے مجھے یاد کیا، اُن کا بہت بہت شکریہ۔ میڈم! مَیں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے توسط سے اپنے تمام فوجی بھائیوں، خصوصاً فیلڈ مارشل عاصم منیر، ائیرفورس، نیوی سے منسلک تمام جوانوں کو تہہ دل سے خراجِ تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں، اور بھارت کے خلاف ایسی شان دارفتح پر پورے مُلک کےعوام کومبارک بادپیش کرتا ہوں۔ نیز، اس تاریخ ساز فتح میں سنڈے میگزین کے اہم کردار (آپریشن کےحوالےسے شان دار تحریروں کی اشاعت کے سبب) کو بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ (حسن شیرازی، کراچی)
ج: بےشک، پاک افواج لائقِ صد تحسین و افتخار ہیں۔ اللہ رب العزت کا خاص کرم ہے کہ اُس نے قابل کیا کہ کئی گُنا طاقت وَر دشمن کو عبرت ناک شکست و ہزیمت سےدوچار کرکے آج ہم دنیا بَھر میں سر اُٹھا کے کھڑے ہونے کے قابل ہوئے۔ پروردگار ہمیں عاجزی وانکساری کی توفیق دے، اِس فتح کو دوام بخشے۔
ہاتھوں کے توتے اُڑ گئے!!
نوازش کرم، شکریہ، مہربانی کہ آپ نے چھاپ دی کہانی۔ جی ہاں کہانی، یعنی ہمارے وہ پیغامات، جو ہم نے ’’عید ایڈیشن‘‘ کے ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ سلسلے کے لیے بھیجے تھے۔ وگرنہ ہم تو سمجھتے تھے کہ آپ کے شاہی دربار میں صرف آپ کے وزیر، امیر و رئیس ہی شرکت کرسکتے ہیں، ہم جیسے متوسّط طبقے کی کوئی جگہ نہیں، لیکن عید کے دونوں ایڈیشنز میں ہمارے دونوں پیغامات چھاپ کر آپ نے تو ہمارے اندازے کو بالکل ہی غلط ثابت کر دیا۔ اور ہاں، ذوالفقار چیمہ کی ’’خُود نوشت‘‘ کی آخری قسط پڑھ کر تو جیسے ہاتھوں کے توتے ہی اُڑگئے، کیوں کہ ہمیں اتنی جلدی اُس کے اختتام کی توقع نہیں تھی۔ (صبورمشتاق حسن، رمضان گارڈن، کراچی)
ج: عمومی طور پر یہ محاورہ ایسی سیچوئشنز کے لیے استعمال نہیں ہوتا، لیکن ہمارے یہاں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے، جو دنیا میں کہیں نہیں ہوتا،توممکن ہے، آپ کےہاتھوں کے توتے واقعتاً اُڑگئے ہوں۔ ہاں، آپ کا اندازہ غلط ثابت ہونے پر ہمارے ہاتھوں کے کبوتر ضرور واپس آگئے ہیں۔
مانوس سی ’’خُودنوشت‘‘
اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے آس رکھتا ہوں کہ اہلِ بزم خوش وخرّم ہوں گے۔ ’’سورج نامہ‘‘ جب بھی چمکتا ہے، ہمارا چہرہ بھی خُوب دمکتا ہے اور ماتھا ہرگز نہیں ٹھنکتا، خصوصاً جب ہمارا خط شاملِ اشاعت ہوتا ہے۔ ’’خُود نوشت‘‘ کی 29ویں اور 30ویں اقساط پڑھیں اور قلم اُٹھالیا کہ یہ ایک مانوس سی’’ خُودنوشت‘‘ تھی۔ دراصل میرا ایک دوست اور ہم جماعت ہوتا تھا، اُس کو ’’ایس پی‘‘ یا ’’چیمہ‘‘ پکارا جاتا تھا، ایک دفعہ تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ عارف والا، پاک پتن کے علاقے میں ایک ایس پی چیمہ تعینات تھے، سڑک کنارے کھڑے لڑکوں کو دیکھ کر قینچی سےبال خُود تراش دیتےتھے۔
اُن کی گاڑی دیکھ کرلوگ کہتےکہ ’’ایس پی چیمہ آرہےہیں‘‘ تو کیا واقعی یہ وہی ذوالفقار چیمہ ہیں۔ بہرکیف، ساہی وال، پاک پتن والی اقساط مَیں نےبصد شوق پڑھیں کہ یہ میرا آبائی وطن ہے۔ ہم مرکز محمّد نگر کے اسکول میں پڑھتے تھے۔ سچ کہوں، تو یہ’’ خُود نوشت‘‘ نہ صرف دو دھاری تلوار تھی بلکہ ذوالفقار کے ہم معنی بھی تھی۔ اگرایسےآفیسر پیدا ہوتے رہے تو اِس ملک کا اِن شاءاللہ تعالیٰ کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اگلا ایڈیشن ’’مزدور نامہ‘‘ تھا۔
بلوچستان کی سڑکوں کا احوال پڑھ کرسخت افسوس ہوا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘، ’’سنڈے اسپیشل‘‘ یومِ مزدور کے ترجمان تھے۔ اےکاش! ہر مزدورکو پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری مل جایا کرے۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ سلسلہ شان دار ہے۔ ’’کالی کلوٹی‘‘میں ایک اہم موضوع اجاگرکیا گیا۔ پروفیسرسید منصور علی کا نامہ پڑھ کردل خوش ہوگیا۔ (ڈاکٹر محمد حمزہ خان ڈاھا، لاہور)
ج: چیمہ صاحب اِسی مُلک میں خدمات انجام دیتے رہے ہیں، تو یقیناً اُن کی ’’خُود نوشت‘‘ کچھ لوگوں کے لیے تو ضرور ہی مانوس سی ہوگی، اِس میں کیا عجب بات ہے۔
بھارت کو مزہ چکھایا جائے
آج کافی عرصے بعد حاضرِ خدمت ہو رہا ہوں اور اِس کی بڑی وجہ بھارت کا پاکستان پرحملہ ہے۔ مودی کو شاید ادراک نہیں تھا کہ یہ قوم کتنی بہادرہے اور پاک فوج ہر قسم کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مَیں نے ایک مارشل آرٹس کلب کھول رکھا ہے، اور ہمارا ارادہ تھا کہ بھارتی فوج کو خُوب مزہ چکھایا جائے گا۔ میڈم نور جہاں کا گایا ترانہ یاد آتا رہا کہ ’’اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے، توں لبھنی ایں وِچ بازار کڑے…ایہہ سودا نقد وی نئیں مِلدا، توں لبھدی پھریں اُدھار کڑے‘‘۔ انکل ٹرمپ تو کافی سمجھ دار نکلے۔
سیز فائر کروا کے ڈیڑھ ارب لوگوں کو جنگ کا ایندھن بننے سے بچا لیا۔ یہ بھارت کی بدقسمتی ہے کہ مودی جیسا احمق شخص سنگھاسن پر بیٹھا ہے، وہ تو گجرات کا قسائی ہے، اُس سےاور کیا اُمید رکھی جائے۔ ہاں، ایک خط میں ایک قاریہ کا لکھا شعر بہت ہی پسند آیا ؎ تیرے دامن میں ستارے ہیں، توہوں گے اے فلک … مجھ کو اپنی ماں کی میلی اوڑھنی اچھی لگی۔ (تجمل حسین مرزا، مسلم کالونی، ڈاک خانہ باغ بان پورہ، لاہور)
ج: جی بالکل، پاکستانی قوم صرف بہادرہی نہیں، اپنی طرز کی انوکھی قوم بھی ہے۔ جب ڈرون پر رائفل سے فائر کیا جاسکتا ہے، ناکارہ ڈرونز کو موٹر سائیکل پر رکھ کر بھاگا جاسکتا ہے، تو مارشل آرٹس کلب سے بھارتی فوج کو مزہ بھی چکھایا جاسکتا ہے۔ بھائی صاحب! پاک فوج جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس ہے، ساری دنیا کو حیران کر رہی ہے۔ ہمارا نہیں خیال کہ کبھی آپ کے کلب سے استفادے کی بھی نوبت آسکتی ہے۔
سندیسہ کہاں شائع ہوا؟؟
11؍مئی کا شمارہ ملا، یہ پڑھ کر ازحد حیرانی ہوئی کہ ’’سنڈے میگزین کے پلیٹ فارم سے ہم نے آپ کو ماؤں کے عالمی یوم کے موقعے پر پیغامات بھیجنے کا سندیسہ دیا۔‘‘ تو پوچھنا یہ ہے کہ آیا یہ سندیسہ کس شمارے میں، کب، کس صفحے پر شائع کیا گیا کہ ہمیں تو کہیں نظر ہی نہیں آیا۔ تمام پرانے شمارے اچھی طرح چھان پھٹک لیے، سندیسہ کہیں دکھائی نہیں دیا۔
کیا ہر صوبےکےلیےالگ الگ جریدے تیار کیے جاتے ہیں اور پھر 30پیغامات میں سے 19 کراچی کے لوگوں کے شائع ہوئے، پنجاب کے کسی ایک شہر، قصبے، دیہات سےکوئی پیغام نہیں تھا، تویہ کیا ماجرا ہے، لگتا ہے کہ میری طرح آپ کا مذکورہ سندیسہ پنجاب میں کسی اور نے بھی نہیں دیکھا۔ دوم، بقول آپ کے کسی بھی تحریر کواشاعت کے مرحلے تک پہنچنے میں دو سے ڈھائی ماہ لگ جاتے ہیں، جب کہ ہماری تو کچھ تحریروں اور خطوط کو چار ماہ سے بھی زائد عرصہ ہوچُکا ہے اور تاحال کوئی اتا پتا نہیں۔
اگلے شمارے کے ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں جو پہلا خط شائع ہوا، پڑھ کر دلی دُکھ ہوا کہ بقول اُن کے وہ بڑھاپے میں بےیارو مددگار سڑکوں، چوراہوں پر رہنے پہ مجبور ہیں۔ عرض یہ ہے کہ مُلک کے بڑے شہروں میں ایسے افراد کے لیے کئی اچھے مراکز موجود ہیں، ممکن ہو تو اُن صاحب کو میرا نمبردے دیں۔ مَیں اُن کی رہمنائی کردوں گا۔ (محمّد صفدر خان ساغر، نزد مکی مسجد، محلہ شریف فارم، راہوالی، گوجرانوالہ)
ج: مذکورہ اعلان (سندیسہ)27اپریل کے شمارے میں صفحہ ’’ڈائجسٹ‘‘ پر اور مُلک بھر کے تمام ایڈیشنز میں شائع ہوا۔ آپ کی نظر سے نہیں گزرا، تو یہ آپ کی نظر کا قصور ہے۔ رہی بزگوار کے خط کی بات، تو اُن کے خط کے ساتھ رابطے کے لیے کوئی نمبر موجود نہیں تھا۔
تصویر دیکھ کر نظم ہوئی
یہ بات بالکل سچ ہے کہ گورنر ہاؤس کی مشرقی دیوار کے اُدھر، جو زینب اسٹاپ ہے اور پریس کلب کا چوراہا کہلاتا ہے، وہاں آواری ٹاور کی پتھر جیسے رنگ کی عمارت کے ساتھ والی عمارت ک سامنے سے ایک صُبح پیپلز بس میں گزر ہوا، تو یک دَم نظر اٹھی، وہاں ایک جیتی جاگتی تصویر چسپاں تھی۔اور اُسی تصویر کو دیکھ کر نظم ’’رُوپ مَتی‘‘ کہی گئی۔ میری نظم لڑکیاں کے بعد ’’رُوپ متی‘‘ کو بھی شاملِ اشاعت دیکھ کرکتنی خوشی ہوئی، بتا نہیں سکتا کہ ممنونیت کے الفاظ ہی نہیں ہیں۔ (جمیل ادیب سید، کراچی)
ج: ماشااللہ، اللہ نظرِبد سے بچائے کہ اِس بزرگی میں بھی آپ خاصے جواں دل، رنگین مزاج ہیں۔
تہذیب کے دائرے میں…
’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹرسلطان نے امراضِ قلب کے علاج پر دل چسپ انداز میں معلومات فراہم کیں۔ پروفیسر ڈاکٹر سید امجد علی جعفری جِلد کے سرطان سے متعلق قلم آرا تھے۔ قدر پرواز کی تحریر پسند آئی۔ ایک بات کی وضاحت کردوں کہ مَیں ہمیشہ خط تہذیب کے دائرے ہی میں لکھتا ہوں، مَیں نے کبھی کسی سے کوئی بدتمیزی، بدتہذیبی نہیں کی اور نہ ہی مَیں کسی کی چاپلوسی کرتا ہوں۔ جو جی میں آتا ہے، بغیر لاگ لپٹ کے لکھ بھیجتا ہوں۔ (سید زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)
ج: خط تہذیب کے دائرے میں لکھتے ہیں، تب ہی آج تک اِس بزم کا حصّہ بھی ہیں۔ جس دن تہذیب واخلاق کا دامن چھوڑیں گے، ’’آپ کا صفحہ‘‘ پر بھی دکھائی نہیں دیں گے۔
بہت عُمدہ، خاص اہتمام
تازہ ’’سنڈے میگزین‘‘ میں سید خلیل الرحمٰن کی ’’رپورٹ‘‘، رؤف ظفر کا ’’اشاعتِ خصوصی‘‘، منور مرزا کا ’’حالات وواقعات‘‘ اور ڈاکٹر ناظر محمود کا ’’متفرق‘‘ پڑھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں ایم بانو کی اسپیشل بھائی پر تحریر بہت اچھی تھی۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں پروفیسر سید منصور علی خان کا خط پڑھ کر بےحد خوشی ہوئی۔
اگلے جریدے کے ’’حالات و واقعات‘‘ میں حسبِ روایت منور مرزا موجود تھے اور بہترین تجزیہ پیش کیا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں بابر سلیم کے جواہر پارے اور پرنس افضل شاہین کی اچھی باتیں پڑھنا بہت اچھا لگا۔
تیسرے جریدے کے پہلے ہی صفحے پرمنورمرزا ’’حالات وواقعات‘‘ کے ساتھ موجود تھے، اِس بار تفصیلی تجزیہ پیش کیا، پڑھ کر معلومات میں سیرحاصل اضافہ ہوا۔ ماؤں کے عالمی یوم کا خاص اہتمام بہت ہی عُمدہ تھا۔ سلسلہ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ اور ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ پڑھ کر دل خوش ہوگیا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
فی امان اللہ
تُو غزل بن کر اُتر، بات مکمل ہوجائے… سرورقی ماڈل کی دل فریبی پردل کی کلی کِھل سی گئی، مگر جب نازنین کے یک انچی Polisdhed Nails پر نظر پڑی، تو دل مسوس کر رہ گئے۔ لیکن دل آرا ٹائٹل کی دل کشی سے جگر کو سُکھ، جان کو جوش، رُوح کو آرام آیا۔ مدیرہ صاحبہ!دل جانتا ہےکہ دل شکن حالات میں ایک دل نواز میگزین باقاعدہ اشاعت سے آپ ہم جیسے دل جلوں کی دل جوئی کا احسن سامان کرتی ہیں۔ ’’دل بدست آورکہ حجِ اکبراست‘‘(کسی کی دل جوئی، حج اکبر کے برابر ہے) زیرِ نظر شمارے کا پہلا مضمون پُرالم تھا کہ ظالم دل اسرائیل کےدل شکستہ فلسطینیوں پرڈھائے گئے دِل سوز مظالم پڑھ کر دل گرفتہ ہوگئے۔
شہرِ پہلواناں کے شیردل بہن بھائی کا فلسطینی بچّوں کی دل داری واسطے خونِ دل سے احتجاجی مراسلہ لکھنا لائقِ تحسین بھی ہے اور قابلِ داد بھی۔ اگلے مضمون کے مطالعے سے دل دھک سے رہ گیا کہ ایک فیک نیوز یا ویڈیو کیا کیا قیامت ڈھا سکتی ہے۔ پنجاب کالج واقعے کی جعلی ویڈیو بدترین مثال ہے۔ چیمہ صاحب کی دل آویز ’’خُود نوشت‘‘ سے اُن کی حسِ مزاح کا بھی پتا چلا۔
وہ کیا ہے کہ ’’دل ہونا چاہیدا اے جوان، عُمراں وچ کی رکھیا۔‘‘ صفحاتِ اسٹائل، جہاں مدیرہ صاحبہ نے اِک پری پیکر کے جمال کے بیان میں قلم اٹھایا ہو، اُس طرف بھلا دلِ ناصبور کیسے نظر اُٹھا سکتا ہے، مگر دل دادۂ کلام، دلِ مشتاق نے بکھرے اشعار ایسی دل جمعی سےچُنے، جیسے چنیوٹی شیخوں کی بارات میں ڈھولچی ڈالرز سمیٹتے ہیں۔
معلمِ ہردل عزیز ڈاکٹر جمیل جالبی مرحوم کی درخشندہ علمی وادبی خدمات پرمبنی ارفع سطحی دل پذیر شہ پارہ نذرِ قارئین کیا گیا اور پرنس کریم آغا خان کی ’’دل دل پاکستان یادیں‘‘ تو گویا دل پرنقش ہوگئیں۔ کتاب کہانی میں رواں کمنٹیٹر نے فرمایا، شاعری دل لگی نہیں، بلکہ خونِ جگر کو پانی کرنے کا کام ہے۔ مگرخیالِ راجا ہے کہ شاعری کوئی ہنر نہیں، محض محبوب کے گھرپانی بھرنے کا کام ہے۔
ہاہاہا!! افسانے کے پریم جوڑے کا Lovely فوٹوساڈا دل وَڈھ گیا، تے ایہہ ڈائیلاگ تاں جان ای کڈھ گیا۔’’تم میراسایۂ فانی ہو، تم مجھ میں لافانی ہو۔‘‘ غزل کے مطلع میں شاعر کا نام نامی دیکھ کردل دھکڑ پکڑ ہونے لگا، وگرنہ رِیت تو مقطع میں تخلّص استعمال کرنےکی ہے۔
آخر میں ذکر’’بڑے دربار‘‘کا، جہاں اسلم قریشی دل چھوٹا نہ کرنے کی تاکید کررہے تھے، تو مدیرہ، روبینہ ادریس سےعرضِ مہربانی فرمارہی تھیں۔ ’’چشمِ ماروشن دل ماشاد‘‘ بندہ تقریباً ڈھائی سال بزم یاراں سے pen off رہا۔ احباب گاہے گاہے یاد کرتے رہے، شکریہ، نوازش، مہربانی۔ (محمّد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)
ج: خوش آمدید۔ ویسے خیر ہے، اِس ڈھائی سال کی غیرحاضری میں نیا ’’دل‘‘ تو ٹرانس پلانٹ کروا کے نہیں آگئے۔ دل، دل کی تکرار سے پورا خط ’’دلدل‘‘ ہورہا ہے۔
* مَیں نے تین تحریریں بھیجی تھیں۔ کب تک شائع ہوجائیں گی؟ (سعد علی چھیپا، کراچی)
ج: قابلِ اشاعت ہوں گی، توشایع ہو ہی جائیں گی۔ نہیں تو ’’فہرست‘‘ زندہ باد۔
* میری دو تحاریر ناقابلِ اشاعت قرار دی گئیں، جن کا مجھے کافی افسوس ہے۔ مہربانی فرما کرآپ صرف یہ بتا دیجیے کہ یہ نگارشات کن وجوہ پرمسترد کی گئیں تاکہ مَیں آئندہ خیال رکھوں۔ (محمّد عمیر جمیل)
ج: اس فہرست کی تیاری ہی خاصا مشقّت طلب کام ہے، اب اگر ہم نےوجوہ بتانے کا سلسلہ بھی شروع کردیا تو بس پھر یہی کام رہ جائے گا، میگزین کی تیاری کے لیے ایک نیا ایڈیٹر اپوائنٹ کرنا پڑے گا۔
* منور مرزا کا آرٹیکل کافی حد تک جانب دارانہ ہوتا ہے، جس میں حقائق کے بجائےغالباً اُن کی خواہشات اور دل کی تسلی والا معاملہ زیادہ دیکھا جاتا ہے۔ مضمون ’’شام میں سحر‘‘ میں بہتر ہوتا کہ وہ گولان کی پہاڑیوں پر نیتن یاہو کی آمد، ترکیہ، امریکا اور اسرائیل کی حمایت کے مقاصد اور اسد حکومت کے خاتمے کے بعد شام پر اسرائیلی جارحیت سے متعلق بھی لکھتے۔
ایک ریگولر ریڈر کی حیثیت سے سخت مایوسی ہوئی، اللہ تمام رائٹرز کو حقیقت لکھنے کی توفیق دے۔ ہمارا پیغام اُن تک پہنچا دیں، تاکہ وہ سمجھ لیں کہ قارئین آنکھیں کھول کے پڑھتے ہیں۔ (محمّد تقی شاہ، سرگودھا)
ج: آپ کاپیغام تواُن تک پہنچ ہی گیا، لیکن ہمارا بھی ایک پیغام ہر ایک تک پہنچنا چاہیے کہ ایسی نگارشات پڑھنے کے لیے صرف آنکھوں ہی کا کُھلا ہوناضروری نہیں، ذہنِ رسا بھی بہت ضروری ہے۔
* مجھے ’’سنڈے میگزین‘‘ بہت بہت پسند ہے، اور مَیں آپ سے بھی بےحدمتاثر ہوں۔ (مشال فاطمہ)
ج: آپ کے اِن خُوب صُورت تاثرات کا بےحد شکریہ۔
قارئینِ کرام کے نام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk