• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2025-26ء کے مایوس کُن بجٹ میں جہاں اور سیکڑوں خامیاں ہیں، وہاں اعلیٰ تعلیم کے ضمن میں بھی انتہائی افسوس ناک صورتِ حال سامنے آئی ہے۔ تعلیم، خصوصاً اعلیٰ تعلیم کے معاملے میں ہم پہلے ہی سخت تنزلی کا شکار ہیں، اس پر طرّہ یہ کہ حالیہ بجٹ نے تو تعلیم کے مستقبل کو بالکل ہی مخدوش کردیا ہے۔ 

ہمارا نظامِ تعلیم ہر سطح، بالخصوص سرکاری سطح پر شدید بدانتظامی، لاپروائی اور بےحسی کے نتیجے میں ویسے ہی قوم کو تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچا چکا ہے، جس کی اصلاح و بہتری کے لیے نہ کہیں کوئی مناسب و موثر کارروائی ہورہی ہے، نہ ہی اس کا کہیں احساس نظر آتا ہے۔ 

خواہ اربابِ اختیار ہوں یا ذمّے دار افراد اور ادارے، یہاں تک کہ اساتذہ تک، کوئی بھی نظام تعلیم کی بہتری، اصلاح وترقی کے لیے مخلصانہ اور مناسب و مؤثر انداز سے کچھ سوچتا، کرتا نظر نہیں آتا، حالاں کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تعلیم ہی وہ بنیاد ہے، جو کسی بھی مُلک و قوم کو ترقی و استحکام عطا کرتی ہے۔

ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے سیاست و معیشت کی بہتری ناگزیر عناصر سہی، لیکن درحقیقت سیاست و معیشت کی بہتری و بحالی بھی تعلیم ہی سے مشروط ہے۔ ایک اچھا نظامِ تعلیم ہی کسی بھی مُلک و قوم کو حقیقی معنوں میں ترقی و عروج کی راہ پر گام زن کرسکتا ہے۔ لیکن افسوس، ہمارے یہاں وزارتِ تعلیم پر بالعموم وہ فرد یا افراد براجمان نظر آتے ہیں، جن کی متعلقہ تعلیمی و انتظامی لیاقت اور امتیاز خود سوالیہ نشان ہیں، تو ایسے میں وہ تعلیمی نظام کی خرابیوں کو کہاں دیکھ سکتے ہیں اور بہتری کیوں کر لاسکتے ہیں۔

ہر طرف کم علمی و نااہلی اورذمّے داریوں کی ادائی سے بے نیازی ولاتعلقی عام ہے۔ پاکستان کے قیام کو پچھتر برس سے زائد کا عرصہ بیت چکا، سات دہائیوں میں تین نسلیں گزرگئیں، لیکن عوام، حصولِ علم کے اپنے بنیادی حقوق اور قومی و ملّی تقاضوں کے مطابق مناسب تعلیم و تربیت کے حصول سے بڑی حد تک محروم ہی رہے یا رکھے گئے اور بدقسمتی سے اُن کی محرومیوں کا سلسلہ مزید دراز ہورہا ہے۔ 

گرچہ پرائمری اسکولوں میں بچّے بطور طالب علم موجود ہیں، لیکن اُن کے بیٹھنے کے لیے کمرے اور فرنیچر تک موجود نہیں، نہ ہی مضامین پڑھانے کے لیے مناسب تعداد میں لائق و قابل اساتذہ دست یاب ہیں کہ جو اپنے فرائض عمدگی سے انجام دےسکیں۔ اساتذہ کی جو قلیل تعداد درس گاہوں میں متعین بھی ہے، اُس میں بیش تر، طلبہ کو کھیل کُود میں لگا کر اور اپنے اوقاتِ کار پورے کرکے محض تن خواہیں وصول کررہی ے، جب کہ سرکاری کالجز میں اساتذہ کی کمی تو بہت عام سی بات ہے۔ نشستیں موجود ہونے کے باوجود اساتذہ کا تقرر نہیں کیا جاتا، نہ ہی اُن کے مناسب تقرر کے لیےکوششیں اور موثر اقدامات کیے جاتے ہیں اور یہ صُورتِ حال اسکولز، کالجز ہی میں نہیں، یونی ورسٹیز میں بھی عام ہے۔

سرکاری یونی ورسٹیز کی بات کریں، تو وہاں زیادہ تر امور سفارشوں ہی پر چلتے یا چلائے جاتے ہیں، اہل،قابل اساتذہ چند ایک ہی نظر آتے ہیں۔ سفارش، اقربا پروری کی بنیاد پر نااہل افراد بطوراساتذہ مناصب حاصل کرلیتے ہیں اور کسی مطالعے، تحقیق اور قابلیت کے بغیر ہی ترقی پاکرپروفیسر، ڈین یا دیگر اعلیٰ مناصب تک پہنچ جاتے ہیں، جب کہ ایک اور افسوس ناک امر یہ ہے کہ ذمّے دار ادارے،حتیٰ کہ ایچ ای سی (ہائر ایجوکیشن کمیشن) بھی ان ناجائز ترقیوں سے بے نیاز ہے۔

بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ خود ایچ ای سی اپنا شان دارماضی یک سر فراموش کرچکا ہے۔ اس کے اکابر و اعلیٰ عہدےداران سے منسوب ماضی کی عالی شان علم و تحقیق کی روایات قصّہ پارینہ ہوئیں۔ اسی ضمن میں ایک تازہ سرگرمی یہ دیکھنے میں آئی کہ سینئر اساتذہ سے ’’پروفیسر ایمریطس‘‘ یا ’’تاحیات پروفیسر‘‘ کے عہدے کے لیے درخواستیں طلب کی گئیں، کئی اساتذہ نے درخواستیں دیں اور چند ایک نے ’’کام یابی‘‘ بھی حاصل کرلی،جن کے بارے میں سقّہ رائے ہے کہ وہ بمشکل پروفیسر کی اہلیت کے حامل ہیں، تو اس صُورتِ حال سے مُلک میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے ضمن میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کارکردگی اور خدمات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

اب آئیے، حالیہ بجٹ پرکہ جس میں کارپردازوں نے تعلیم کی مَد میں عوام اور دل چسپی رکھنے والے ہرفرد حد درجہ مایوس کیا۔ یاد رہے، پچھلے برس کے بجٹ میں تعلیم کے لیے 65ارب روپے مختص کیے گئے تھے، لیکن اس سال کے بجٹ میں کٹوتی کرکے اس مد میں محض 39ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

یہ تعلیم دشمن اقدام یقیناً اربابِ اقتدار کی تعلیم سے حد درجہ بےنیازی ہی ظاہر کرتا ہے۔ اس تشویش ناک بلکہ الم ناک صُورتِ حال میں یہ ضروری ہے کہ ہم قومی سطح پر ایسی مؤثر تدابیر اختیار کرنے کی بابت سوچیں کہ جن کے ذریعے مُلک میں نظامِ تعلیم قوم و مُلک کی بنیادی ضرورتوں اور عصری تقاضوں کے مطابق ڈھل سکے۔ 

موجودہ کم زوریاں اور کوتاہیوں دُور ہوں۔ نہ صرف نصابی ڈھانچا جدید رجحانات، معیارات کے مطابق ہو بلکہ پورے ملک کا ابتدائی نصاب یک ساں مرتّب کیا جائے۔ ذریعۂ تعلیم کی مد میں ایک حتمی ومستحکم نقطۂ نظر کے مطابق سختی سےعمل ہو اور ہر سطح پر اُردو زبان کو بطور ذریعۂ تعلیم اختیار کیا جائے۔ کیوں کہ بہر طور یہی وہ بنیادی عوامل ہیں، جو قوم کو یک جا کرنے، روزگار کے ذرائع پیدا کرنے، خواندگی عام کرنے، مُلک وقوم میں اتحاد و اتفاق کے احساسات و جذبات پیدا کرنے اور مُلک کو ترقی کی راہ پر گام زن کرنے کی ضمانت بن سکتے ہیں۔