ایک شخص کو لندن میں نوکری ملی، وہ ہنسی خوشی اپنی بیوی اور تین بچوں کے ہمراہ احمد آباد میں جہاز پر سوار ہوا کہ اب اگلی زندگی لندن میں گزرے گی، سارے دلِدَّر دور ہو جائیں گے مگر جہاز اڑان بھرتے ہی گر کر تباہ ہو گیا۔ میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں کچھ طلبا کھانا کھانے بیٹھے تھے کہ اچانک ہاسٹل کی چھت پر جہاز آن گرا اور وہ بیچارے وہیں عمارت کے ملبے تلے دفن ہو گئے۔ ایک خاندان سوات میں چھٹیاں منانے گیا، بچے، عورتیں، مرد، سب دریا کے کنارے کھڑے ہو کر تصویریں بناتے ہیں کہ اچانک دریا میں طغیانی آ جاتی ہے اور وہ لوگ جو پندرہ منٹ پہلے تک ہنس کھیل رہے ہوتے ہیں، دیکھتے ہی دیکھتے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ مسافر ٹرین کوئٹہ سے نکلتی ہے، راستے میں اسے یرغمال بنا لیا جاتا ہے، دہشت گرد شناختی کارڈ دیکھتے ہیں اور کھڑے کھڑے بے گناہ لوگوں کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیتے ہیں۔ یعنی وہ لوگ جو اپنے پیاروں سے ملنے جا رہے تھے اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں۔
جب بھی ہم اِس قسم کی خبریں دیکھتے ہیں تو ہمارے ذہن میں اندیکھا خوف جنم لے لیتا ہے، ہمیں لگتا ہے کہ زندگی میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے، جو کہ درست بات ہے مگر اِس بات سے یوں تاثر ملتا ہے جیسے گھر سے باہر قدم نکالنا بھی رِسک ہے حالانکہ موت تو اپنے ہاسٹل میں بیٹھے بیٹھے بھی آ سکتی ہے۔ دراصل ہمارے دماغ میں حادثات کی تصاویر چونکہ محفوظ ہو جاتی ہیں اِس لیے مستقبل کے غیر یقینی ہونے کا خوف ذہن میں بیٹھ جاتا ہے، اِس میں کوئی شک نہیں کہ زندگی غیر متوقع واقعات کا مجموعہ ہے مگر غیر متوقع کے مقابلے میں اسے بے ترتیب کہنا زیادہ موزوں ہوگا، یہ اور بات ہے کہ کسی حادثے میں ہلاک ہونے والے کیلئے دونوں الفاظ بے معنیٰ ہیں، مرنے والے کو زندگی کی اِس بحث سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن جب تک ہم زندہ ہیں تو اِس بحث کے تین پہلو ایسے ہیں جنہیں سمجھنا ضروری ہے۔
پہلا، زندگی اتنی خطرناک نہیں جتنا ہمارا دماغ ہمیں بتاتا ہے۔ جن وجوہات کی بنا پر ہمارے جیسے ممالک میں راہ چلتے لوگ مر جاتے ہیں، ترقی یافتہ ممالک میں اُس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، نہ صرف ریاست اپنے شہریوں کی جان و مال کا تحفظ کرتی ہے بلکہ شہری بھی ایسی حرکت نہیں کرتے جس سے اُن کے بچوں کی جان کو خطرہ پہنچے۔ دنیا میں ایسے نہیں ہوتا کہ آپ بچوں کو موٹر سائیکل پر بٹھا کر تیزی سے اشارے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گزر جائیں، یا دریا کی موجوں کے بیچ و بیچ کھڑے ہو کر سیلفیاں بنائیں۔ جب ہمارا کوئی پیارا گھر سے باہر نکلتا ہے تو ہمیں اِس لیے خوف نہیں گھیر لیتا کہ زندگی غیر متوقع ہے بلکہ ہم اِس لیے اُس کی خیریت سے واپسی کی دعا مانگتے ہیں کہ ہمیں پتا ہے کہ باہر قدم قدم پر اصول و قانون کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ نہ کوئی ہیلمٹ پہننے کا تکلف کرتا ہے، نہ ون وے کی پروا کرتا ہے، ہم میں سے کوئی بھی انتظامیہ کے لگائے ہوئے تنبیہی نشانات اور پیغامات کو پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا اور جب اِن باتوں کا نتیجہ کسی حادثے کی صورت میں نکلتا ہے تو ہم ماتم کناں ہو جاتے ہیں۔
دوسرا پہلو اِس بحث کا Randomness ہے جسے ہم زندگی کی بے ترتیبی کہہ سکتے ہیں۔ ایسا عین ممکن ہے کہ کوئی شخص تمام حفاظتی اقدامات اختیار کرے اور پھر بھی کسی حادثے کا شکار ہو جائے یا کسی ترقی یافتہ ریاست میں جہاں انسانی جان کو قیمتی سمجھا جاتا ہے، وہاں تمام اصولوں اور قوانین کی پاسداری کے باوجود کوئی حادثہ ہو جائے۔ یہ عمل Randomness کہلائے گا، اسے یوں سمجھیے کہ ایک نظام کو ہر طریقے سے دیکھ بھال کر وضع کرنے کے باوجود اُس میں کسی نہ کسی خامی کا امکان موجود رہے گا، اور وہ خامی کسی بے ترتیب انداز میں ظاہر ہو سکتی ہے، اور ضروری نہیں کہ حادثہ کسی خامی کی وجہ سے ہی ہو، یہ کسی بے ترتیب عمل کے نتیجے میں بھی ہو سکتا ہے، جیسے جہاز کا ہاسٹل کی عمارت پر گر جانا۔ لیکن یہ باریک نکتہ سمجھنا ضروری ہے کہ بے ترتیبی کا یہ اصول اور اِس اصول کے تحت کسی حادثے کے وقوع پذیر ہونے کے امکانات وہاں بہت کم ہوتے ہیں جہاں حفاظتی تدابیر پر عمل کیا جاتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہر سال پاکستان کے شمالی علاقوں میں لینڈ سلائڈنگ، دریا میں ڈوبنے اور گاڑیوں کے کھائی میں گرنے سے مرنے والوں کی تعداد اتنی ہی ہو جتنی سوئٹزرلینڈ میں ہوتی ہے۔ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ سوئٹزرلینڈ سے کبھی خبر آئی ہو کہ وہاں ویگن تیز رفتاری کی وجہ سے بے قابو ہو کر پھسل گئی، پچاس باراتی مارے گئے۔
اِس بحث کا تیسرا پہلو زندگی کی پیش گوئی سے متعلق ہے، ہم زندگی میں کوئی حتمی پیش گوئی نہیں کر سکتے، اور زندگی کے بارے میں ہماری یہ ’نااہلی‘ مستقل خوف کا سبب بنتی ہے۔ ہمارا دماغ مسلسل ماضی یا مستقبل کے بارے میں سوچتا ہے، ہم یا تو ماضی کی غلطیوں کے بارے میں سوچ سوچ کر پچھتاتے رہتے ہیں یا غیر یقینی مستقبل کو محفوظ بنانے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں، حالانکہ دونوں باتوں پر ہمارا کوئی بس نہیں۔ ہم اِس بے ترتیب، لایعنی اور غیریقینی زندگی کا نہ کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ اِس کے بارے میں کوئی پیش گوئی کر سکتے ہیں، بعض اوقات تو معمول کے واقعات کے بارے میں بھی ہمارا اندازہ غلط ثابت ہوتا ہے، اِس معمے کا کوئی ایک حل یا فارمولا نہیں کہ جس پر بندہ عمل کر لے اور پھر مطمئن ہو کر سو جائے، سوائے اِس کے کہ دستیاب حقائق کی روشنی میں فیصلے کرے اور اُس کے بعد زندگی کی Randomness کیلئے تیار رہے۔ اگر حقائق یہ کہتے ہیں کہ دریا میں اترنا خطرناک ہے یا ون وے کی اندھا دھند خلاف ورزی جان لیوا ہو سکتی ہے تو عین ممکن ہے کہ دس میں سے نو مرتبہ کوئی حادثہ پیش نہ آئے مگر Theory of Probability کے مطابق اِس قسم کی حرکتوں کے نتیجے میں حادثے کا امکان کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ ہم کہتے تو یہی ہیں ’جیہڑی رات قبر وچ آنی اے، اوہنوں کوئی نئیں ٹال سکدا‘ مگر جب وہ رات آتی ہے تو پچھتاوا ہوتا ہے کہ کاش ہم ایسا کام نہ کرتے کہ جس کی وجہ سے یہ رات پہلے آ گئی۔