• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(یہ مکالمہ سراسر فرضی ہے البتہ کسی کو اس میں حقیقت کا شائبہ نظر آئے تو اسے اس خیال کو جھٹک دینا چاہئے)

نواز شریف:شہباز! لگتا ہے کہ پہلی بار مقتدرہ کی مکمل حمایت سے ہماری حکومت مستحکم بھی ہوئی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ حکومت پانچ سال پورے بھی کریگی۔

شہباز شریف:آپ درست فرماتے ہیں بھارت سے جنگ میں فتح اور پھر ہماری طرف سے جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کا اعزاز دینے پر مقتدرہ سے ہمارا بندھن بہت مضبوط ہوا ہے دوسری طرف عمران خان اور ان کے ساتھی بے وقوفی پر بےوقوفی کر رہے ہیں جس کا ہمیں بالواسطہ فائدہ پہنچ رہا ہے۔

نواز شریف، شہباز! تمہارے مقتدرہ سے تعلقات کارمثالی ہیں اس میں تمہاری ذہانت اور لچک کا بہت دخل ہے مگر ہمیں یہ خیال رکھنا ہو گا کہ ہمیں منتخب اراکین اور کابینہ کو زیادہ اہمیت دینا ہو گی جب تک ہم سیاستدانوں کو کھلا میدان نہیں دیں گے ہم اپنے سیاسی مخالفوں کا مقابلہ کیسے کریں گے؟

شہباز شریف:میں اپنی مقدور بھر کوشش کر رہا ہوں مقتدرہ اور بالخصوص جنرل عاصم منیر کی طرف سے مدد اور تعاون بھی مل رہا ہے مگر مدعا بہت مشکل ہے مقتدرہ اوراہل سیاست کو اکٹھے لے کر چلنا بہت محال ہے آئے روز پل صراط سے گزرنا پڑتا ہے۔

نواز شریف:تم درست کہتے ہو میرا تجربہ بھی یہی کہتا ہے لیکن ہمیں گورننس کے ساتھ ساتھ پارٹی کی سیاست پر بھی برابر توجہ دینی چاہیے ہماری اصل بنیاد تو ہماری پارٹی اور سیاست ہے اگر یہ بنیاد ہی کمزور ہوتی گئی تو پھر ہماری اہمیت اور ضرورت بھی کم ہوتی جائے گی۔

شہبازشریف:ہمیں ہرروزقدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا ہے عمران خان کے زمانے میں سویلین دائرہ کو بالکل ہی ختم کر دیا گیا تھا اس لیے یہ مشکل کام ہمارے ذمے پڑ گیا ہے مگر جب تک ہم اپنی کارکردگی کو مثالی نہیں بناتے اس وقت تک سویلین دائرےمیں اضافہ ممکن نہیں۔

نواز شریف:خیر مقتدرہ سے ڈیلنگ کے معاملات کو تم بہتر طور پر سمجھتے ہو لیکن تمہارے کئی وزراء مجھ سے کہتے ہیں کہ تم افسر شاہی کو وزیروں سے زیادہ اہمیت بھی دیتے ہو اور بجائے اپنے سیاسی ساتھیوں پر انحصار کے، تمہارا مکمل انحصار اس افسر شاہی پر ہے۔ چلو توقیر شاہ اور احد چیمہ تو مشکل وقت میں ہمارے ساتھ کھڑے رہے مگر پالیسی کے طور پر افسر شاہی کو سامنے والی قطار میں کھڑا کرنا بالکل مناسب نہیں ۔ افسر پس منظر میں رہنے چاہئیں اور سیاست دان اگلی قطار میں نظر آنے چاہئیں تاکہ سیاسی حکومت کا منہ متھا بھی سیاسی ہی نظر آئے۔

شہباز شریف:آپ کی تمام باتوں سے مجھے مکمل اتفاق ہے لیکن فی الحال معاشی بہتری تک کا دور بڑا ہی بحرانی ہے اس لیے قابل افسروں کی سیاسی فیصلوں کی چھان پھٹک ضروری ہے تاکہ کل کو کوئی قانونی سقم نظر آئے اور نہ ہی کسی فیصلے میں سیاسی سفارش ۔ مقتدرہ اور ہماری پہلی کوشش یہ ہے کہ اپنی ساری توجہ معاشی بہتری کی طرف دی جائے۔

نواز شریف:بالکل درست، ہمارا سیاسی بیانیہ بہتر معیشت پر ہی مبنی ہونا چاہیے اگر تمہاری حکومت نے معیشت میں کوئی نمایاں بہتری کر لی تو یہی ہمارا سیاسی بیانیہ ہو گا۔ معیشت کے حوالے سے فیصلے کیوں نہیں لئےجا رہے؟ بیرونی سرمایہ کاری کیوں نہیں آرہی؟ مسئلہ کہاں ہے؟

شہباز شریف: عمران خان معیشت کو ڈیفالٹ تک لےگیا تھا ۔ ڈیفالٹ سے بچنے کے لئے آئی ایم ایف کی مدد لینا پڑی ہے اور اب آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت چلنا پڑتا ہے کوئی ریلیف دینے سے پہلے آئی ایم ایف سے اجازت لینی پڑتی ہے۔ بیرونی سرمایہ کار تیار ہیں لیکن ہمیں آئینی تحفظ کے لئے ترامیم کرنا ہونگی۔ ایس آئی ایف سی کو انویسٹر فرینڈلی بنانا ہو گا اور جب تک بیرونی سرمایہ کاروں کو منافع بیرون ملک پہنچانے کا تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا اس وقت تک سرمایہ کاروں کیلئے ہمارا ملک پرکشش نہیں ہو سکتا۔

نواز شریف:میرا خیال ہے کہ تم مقتدرہ سے اس حوالے سے فوری میٹنگ کرو اور معیشت کو بہتر بنانے میں جو جو انتظامی رکاوٹیں ہیں ان کو فوراً دور کیا جائے اگر معیشت بہتر نہ ہوئی تو اپوزیشن کا ووٹ بینک بڑھے گا اور آپ کی مقبولیت کم ہوتی جائے گی۔

شہباز شریف: آپ کی باتیں سو فیصد درست ہیں ہمیں اس طرف فوری توجہ دینا ہو گی۔

نواز شریف: اور ہاں شہباز ! مبارک ہو مخصوص نشستوں کا فیصلہ ہماری حکومت کے حق میں آگیا اب تو تمہیں دو تہائی اکثریت مل گئی ہے اب عوام کی بھلائی کیلئے دن رات قانون سازی کرنی چاہیے انصاف کی سستی فراہمی اور شہریوں کیلئے ڈیجیٹل سہولتوں کو آئین میں ترامیم کے ذریعے یقینی بنانا ہو گا۔

شہباز شریف:جی انشاء اللہ۔ اب ہمیں اکثریت ملی ہے تو ہمیں تیزی سے قانون سازی کرنی ہو گی۔ تاکہ ہم سماجی و معاشی تبدیلیوں کو یقینی بنا سکیں۔ آپ سے میری گزارش ہے کہ پنجاب کو اس سال 1200 سے 1400ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ ملا ہے جب کہ 17ویں ترمیم کے بعد مرکز کے پاس ترقیاتی بجٹ بہت کم رہ گیا ہے اب تو پنجاب کے بجٹ سے ایم این اے اور ایم پی ایز دونوں کے ترقیاتی پروگرام مکمل کرنے چاہئیں۔نواز شریف:مریم بہت اچھا کام کر رہی ہے 100سے زائد نئےمنصوبے شروع کر چکی ہے اس کا صوبے پر مکمل انتظامی کنٹرول ہے جلد ہی اس کے اقدامات کے اثرات سے سیاسی فضا میں نمایاں تبدیلی آئے گی تمہاری بات درست ہے کہ ہمیں اراکین اسمبلی کی ترجیحات کا خیال رکھنا چاہیے مگر فی الحال اجتماعی منصوبوں اور نئے اقدامات پر عمل ضروری ہے انفرادی کاموں پر آخری سال میں توجہ دینی چاہیے۔

شہبازشریف:میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں زیادہ قیام کیا کریں۔ پیپلز پارٹی اور آصف زرداری سے آپ کا مسلسل رابطہ ضروری ہے ۔ میں تو مسلسل رابطہ رکھتا ہوں لیکن آپ کےرابطے سے ہمارے تعلقات اور مضبوط ہو سکتےہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن بھی آپ کی باتوں پر زیادہ یقین کرتے ہیں۔

نواز شریف: شہباز! تم ٹھیک کہتے ہو مگر حکومت تم نے ہی چلانی ہے میں ہر وقت تمہاری مدد کے لئے موجود ہوں۔

شہباز شریف: یہ آپ کی ہی دی ہوئی حکومت ہے لوگ آپ ہی کے ساتھ ہیں ،میں تو آپ کے نمائندے کے طور پر حکومت چلا رہا ہوں۔ آپ جتنی زیادہ توجہ دینگے میں اتنا ہی زیادہ ڈیلیور کرونگا۔ آپ کا تجربہ اور آپ کی مقبولیت ہی ہماری اصل طاقت ہے۔

تازہ ترین