قارئین! ایک طرف بین الاقوامی برادری کی طرف سے ایران اسرائیل جنگ کو رکوانے کیلئے کوششیں کی جارہی تھیں تو دوسری جانب امریکا ایران کی تین جوہری تنصیبات پر حملے کرتے ہوئے اس جنگ میں کود پڑا ۔ حملوں کے بعدامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹیلی ویژن پر امریکی عوام سے مختصر خطاب کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ بہت سے اہداف باقی ہیں۔ آج کی رات اب تک کی سب سے مشکل اور شاید سب سے مہلک رات تھی۔ اگر امن جلد نہ قائم ہوا تو ہم درستی، رفتار اور مہارت کے ساتھ دوسرے اہداف تک جائیں گے۔ اسی طرح، صدر ٹرمپ نے سماجی رابطے کے ذریعے ٹرتھ سوشل پر جاری بیان میں کہا کہ ہم نے ایران کے فردو، نطنز اوراصفہان میں موجود جوہری تنصیبات پر حملہ کیا اور امریکی طیارے ایرانی فضائی حدود سے باہر آچکے ہیں۔ اسرائیلی حکام کہتے ہیں کہ ایران پرحملے کے دوران اسرائیل امریکا سے مکمل رابطے میں تھا۔پاکستان سمیت کئی ممالک نے ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکا کے حملوں کی مذمت کی ۔ پاکستان نے ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکی حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسے خدشہ ہے کہ اس سے خطے میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ حملے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے تحت ایران کو اپنے دفاع کا جائز حق حاصل ہے۔ پاکستان نے فریقین سے بین الاقوامی قوانین بالخصوص بین الاقوامی انسانی قوانین کی پابندی کی اپیل کی ۔ دفترِ خارجہ کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کے مطابق مذاکرات اور سفارت کاری ہی خطے کے بحرانوں کو حل کرنے کا واحد قابل عمل راستہ ہے۔اس سلسلے میں برطانیہ کی طرف سے جو ردعمل سامنے آیا اس سے امریکی اقدام کی تائید وحمایت واضح ہوئی۔ برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے اپنے ردعمل میں کہاکہ ایران کو کبھی جوہری ہتھیار تیار کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، امریکا نے اس خطرے کو کم کرنے کیلئے کارروائی کی ، ایران کا جوہری پروگرام بین الاقوامی سلامتی کیلئے سنگین خطرہ ہے۔ امریکا کی طرف سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں سے قبل ہونے والے اسلامی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل کے خصوصی اجلاس میں ترکیہ کے صدر طیب ایردوان نے کہا کہ نیتن یاہو ہٹلر ہے جو پورے خطے کو تباہی کی طرف دھکیلنا چاہتا ہے، لہٰذا مسلمانوں کا اتحاد وقت کی ضرورت ہے اور یہ وقت ہے کہ اپنے اختلافات کو ختم کرکے ایک ہو جائیں۔ متحد ہو کر اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز بلند کریں۔
موجودہ تناظر میں دیکھا جائے تو اقوامِ متحدہ کی حالت لیگ آف نیشنز سے بھی بری ہو چکی ہے، لہٰذا اس ادارے کو ختم کر دینا ہی بہتر ہے کیونکہ یہ اپنے مقاصد کو پورا کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے اور اسکی وجہ سے دنیا میں طاقت کا توازن اس حد تک بگاڑ کا شکار ہوگیا ہے کہ طاقت کے نشے میں بد مست کوئی بھی ملک کسی بھی ڈر خوف کے بغیر دوسرے پر چڑھ دوڑتا ہے۔ پون صدی سے زائد عرصے سے اس ادارے کے ایجنڈے پر موجود کشمیر اور فلسطین کے حل طلب مسائل بھی اسی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ اس ادارے کی دنیا کو کوئی ضرورت نہیں ہے۔ مزید یہ کہ اس ادارے کی موجودگی میں جس طرح تیسری جنگِ عظیم کیلئے راہ ہموار ہو رہی ہے اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ ادارہ صرف طاقتور ملکوں اور ان کے حواریوں کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنا رہا ہے۔جہاں تک امریکا کے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر مبنی ہونے کی بات ہے تو اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے لیکن یہ بات محض مذمتی بیانات کی حد تک نہیں رہنی چاہیے۔ آخر کب تک بین الاقوامی برادری امریکا اور اس کے حواریوں کے ہاتھوں یرغمال بنی رہے گی؟ امریکا اسرائیل جیسے دہشت گرد ملک کی حمایت کرتے ہوئے ہر حد سے گزر رہا ہے اور ہر گزرتا دن یہ ثابت کر رہا ہے کہ اسرائیل اور اس کی پشت پناہی کرنے والے عالمی امن کو شدید خطرات سے دو چار کر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں چین اور روس سمیت ایسے ممالک کو آگے آنے کی ضرورت ہے جو دنیا میں تیزی سے بگڑتے ہوئے طاقت کے توازن کو سنبھالنےکیلئے ٹھوس کردار ادا کرسکتے ہیں۔
دوسری جانب ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا اعلان خوش آئند ہے۔اس فیصلے سے نہ صرف خطے کو ایک بڑی تباہی سے بچایا گیا بلکہ عالمی سطح پر کشیدگی کے خاتمے کی امید بھی پیدا ہوئی ۔دونوں ممالک کا جنگ بندی پر آمادہ ہونا دانشمندی ہے۔تاہم اس پیش رفت کے شور میں اصل مسئلے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور وہ ہے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت اور منظم نسل کشی ۔ایران نے ایک خودمختار ریاست کے طور پر جواب دیا تھا ۔غزہ میں تباہی ،شہادتیں اور انسانی حقوق کی پامالی بھی عالمی برادری کے ایجنڈے پر ہونی چاہیے۔اگر صرف طاقتور ریاست کو جنگ سے روکا جائے اور ایک مظلوم اور کمزور قوم کو اسرائیلی بمباری کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے ،تو یہ انصاف نہیں ، بلکہ کھلی منافقت ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی قابل ذکر سہی ،مگر انہیں امن کا علمبردار تب ہی سمجھا جاسکتا ہے جب وہ اسرائیل کو غزہ میں انسانیت کے قتل عام سے روکیں اور اسے بین الاقوامی قوانین کا پابند کریں اور عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ نافذ کریں ۔حالیہ جنگ بندی مکمل امن کی طرف پہلا قدم تب ہی مانا جاسکتا ہے جب غزہ میں بھی بمباری رکے،اسرائیلی قبضہ ختم ہواور فلسطینیوں کو جینے کا حق دیا جائے۔ورنہ یہ سارا عمل صرف سیاسی مفاد کا کھیل ہوگا ،جسے تاریخ انصاف کا نام نہیں دے گی۔