• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سب سےپہلے اصل حقیقت سے آپ کو آگاہ کردوں۔یہ جو مکالمہ آپ پڑھنے لگے ہیں، عام پبلک کےلئے نہیں ہے۔ در حقیقت یہ ایک پرائیویٹ گفتگو ہے ۔ دو لوگ آپس میں گفتگو کررہے ہیں۔ ایک شخص ایک دبنگ ملک کا دبنگ سربراہ ہے۔ دوسرا شخص سر پھرا اناڑی ہے۔ اسے بولڈجرنلسٹ بننے کا شوق ہے۔ بغیر کسی رکھ رکھائو کے آپ کے گوش گزار کردوں کہ یہ گفتگو دیدہ دانستہ چرائی ہوئی ہے۔ چوری میں نے کی ہے۔ یہی میرا اعتراف ہے۔ کسی بھی چھوٹی بڑی عدالت میں اپنی چوری کا اعتراف کر سکتا ہوں۔ میرے پاپ کی سزا کسی اور کودینے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اپنے جرم کا اعتراف کرچکا ہوں۔ ایک جرم کی آپ مجھے کتنی بار سزا دے سکتے ہیں؟ مجھے سزا دیجیے۔ یہ گفتگو میں نے چرائی ہے۔ میں اس جرم کا مرتکب ہوں۔ یہ جرم میری عادت ہے۔ میں اپنی عادت سے باز نہیں آسکتا۔ جس ملک میں ہم اچکوں کو سربراہ بناکر اپنے سروں پر سوار کرسکتے ہیں، اس ملک میں کسی کی گفتگوچرانا بڑا جر م نہیں ہے۔ میں برسوں سے یہ جرم کرتا آیا ہں۔ اچکوں کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے میں میرا اپنا بہت بڑا حصہ ہے۔ میں اپنے حصے سے انکار نہیں کرتا۔ میں ایک جمہوری ملک کا باسی ہوں۔ جمہوریت میرا مقدر ہے۔ میں کسی کوبھی اقتدار کے ایوان تک پہنچنے میں مدد کرتا ہوں۔ اس سلسلے میں کوئی جمہوریت کا دشمن مجھ سے کسی قسم کا کوئی سوال نہیں پوچھ سکتا ۔ سابق پریذیڈنٹ اور سابق وزیراعظم پھر سے اسمبلی میں رواجی ایم این اے اور ایم پی اے بن بیٹھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ جمہوریت کی خوش بو آپ سے کچھ بھی کرا سکتی ہے۔ اس میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ جمہوریت کا ہم دیوانے کسی کو بھی ملک کا سربراہ بنا سکتے ہیں۔ ہم ان کی اولاد کو ملک کا سربراہ بنا سکتے ہیں۔ ہم ان کی آنے والی نسلوںکو ملک کا سربراہ بنا سکتے ہیں۔ اسی میں جمہوریت کی خوبصورتی ہے۔ جمہوریت کی چھوٹی موٹی خطائوں کو خاطر میں مت لایا کریں ۔ کیا یہ چھوٹی بات ہے کہ ایک من موجی جتنی مرتبہ چاہے ملک کا سربراہ لگ سکتا ہے ؟ ایسا کمال جمہوریت میں ہے، کسی دوسرے نظام حکومت میں نہیں ہے۔

جیب کاٹنا ہنر ہے۔ میں جیب کاٹنے کے علاوہ کسی کاسر کاٹنے کا بھی ہنر رکھتا ہوں۔ پچھلے دنوں ایک نیک اور پارسا شخص نے ایک ایسے نابکار پاپی کا پچاس لاکھ روپے کے عوض سر قلم کرنے کی مجھے سپاری دی تھی۔ وہ نابکار اکثر اللہ سائیں سے باتیں کرتا تھا اور صوفی کہلوانے میں آتا تھا۔ کمال کاریگری سے میں نے اس نابکار کافر کا سرمہارت سے قلم کردیا تھا۔ میں اپنی وارداتوں کے ثبوت نہیں چھوڑتا۔ پولیس اور تفتیشی ادارے آج تک نابکار کافر کے قاتل کوتلاش کررہے ہیں۔

ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں مجھے پچھاڑنا بہت مشکل کام ہے۔ لوگوں کی Electronicگفتگو چرانا میرے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ آپ گفتگو کا کورا انک سن لیجیے کورے انک کا مطلب ہے Abstractخلاصہ۔

میں: ایک دبنگ ملک کادبنگ سربراہ ہونے کے ناطے آپ نے مجھ کیڑے مکوڑے کو انٹرویو دینے کی حامی کیسے بھر لی؟

دبنگ: میں ہوں تو دبنگ ملک کا دبنگ سربراہ، مگر مجھے کیڑے مکوڑے اچھے لگتے ہیں۔

میں : کوئی خاص وجہ ؟

دبنگ: کیڑے مکوڑوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ آپ دس لاکھ کیڑے مکوڑے مار ڈالیں ۔ کوئی آپ سے کچھ نہیں پوچھے گا۔ کیڑے مکوڑے مار ڈالنے کے لئے ہوتے ہیں۔ تم آ تو گئے ہو ، مگر یہاں سے جائو گے میری مرضی سے۔ بہتر ہے کہ تم اپنے کام سے کام رکھو۔ پوچھو۔ کیا پوچھنا چاہتے ہو۔

میں : سرآپ کس کروٹ سونا پسند کرتے ہیں؟ دائیں یا بائیں؟

دبنگ: میں نہ دائیں طرف سوتا ہوں اور نہ بائیں طرف سوتا ہوں۔ میں سیدھا سوتا ہوں۔ جب میرا جی چاہتا ہے تب میں کبھی دائیں طرف اورکبھی بائیں طرف کروٹ بدلتا ہوں۔ اور کیڑےمکوڑوں کی مت مار دیتا ہوں۔

میں : سر ، آپ چاہتے ہیں کہ ساری دنیا آپ کی طرح سوئے؟

دبنگ: میں بنیادی طور پر ڈیموکریٹ ہوں۔ ڈکٹیٹر نہیں ہوں۔ دنیا بھر کے لوگ جس طرف سونا چاہیں، سو سکتے ہیں۔ میری طرف سے کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔

میں : سر، آپ چاہیں گے کہ لوگ آپ کی طرح برگر، پیزا اور اسٹیک کھائیں۔

دبنگ: ان کے جو جی میں آئے ، کھائیں، پئیں اورموج کریں۔

میں:سر ، آپ چاہیں گے کہ دنیا بھر کے لوگ آپ کی طرح سوٹ، جیکٹ اور جینز پہنیں؟

دبنگ: میں کسی ہوائی دبنگ ملک کا دبنگ سربراہ نہیںہوں۔ میں جانتا ہوں کہ اگلا احمقانہ سوال تم کیا پوچھو گے۔

میں ہکا بکا رہ گیا۔ دبنگ نے کہا: میں نہیں چاہتا کہ بندرکے ہاتھ میں استرا آجائے۔

ڈرتے ڈرتے میں نے کہا : ’’سر، دبنگ ملک کے دبنگ سربراہ کو بندر اور آدمی میں فرق محسوس کرنا چاہئے۔

دبنگ: میں نہیں چاہتا کہ ایرے غیرے نتھو خیرے کے ہاتھ میں ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم آجائے۔

چونکہ وہاں سے مجھے زندہ واپس لوٹ جانا تھا، اس لئے میں نے دبنگ ملک کے دبنگ سربراہ سے مزید کچھ پوچھنے کی گستاخی نہیں کی۔

تازہ ترین