• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل آپ نے ٹی وی چینلز پر اِس قسم کی تحریر ضرور دیکھی ہوگی کہ ’اس پروگرام میں پیش کیے جانے والے خیالات، آرا اور تجزیے مہمانوں اور شرکاء کی ذاتی رائے پر مبنی ہیں، جن سے چینل یا ادارہ ہذا کا متفق ہونا ضروری نہیں‘۔آج یہ تحریر لکھنے سے پہلے خیال آیا کہ ایسا ہی ایک اعلانِ دستبرداری یہاں بھی لکھ دیا جائے تاکہ سند رہے کہ یہ تحریر سیاسی نہیں، محض آئینی ہے، واقعات و کردار میں کسی بھی قسم کی مماثلت محض اتفاقیہ ہو گی، اِس کے باوجود اگر کسی کی دل آزاری ہو تو مصنف پیشگی معذرت خواہ ہے۔

ایک ملک میں انتخابات کا اعلان ہوتا ہے، تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں اُس میں حصہ لیتی ہیں، ایک سیاسی جماعت کے خلاف الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی جاتی ہے کہ اِس جماعت کے اندرونی انتخابات نہیں ہوئے لہٰذا قانون کے مطابق یہ سیاسی جماعت کی تعریف میں نہیں آتی، الیکشن کمیشن اِس درخواست کو تسلیم کرکے اُس جماعت کا انتخابی نشان ختم کر کے عملاً اُس جماعت کو عضوِ معطل بنا دیتا ہے۔ اِس فیصلے کے خلاف وہ جماعت ہائی کورٹ میں اپیل کرتی ہے، ہائی کورٹ بھی الیکشن کمیشن کے فیصلے کو درست قرار دیتی ہے۔ اِس دوران انتخابات منعقد ہو جاتے ہیں، وہ سیاسی جماعت چونکہ بغیر کسی نشان کے میدان میں ہوتی ہے لہٰذا اُس کے زیادہ تر امیدوار آزاد حیثیت میں انتخاب لڑتے ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ وہ سیاسی جماعت انتخابات سے پہلے الیکشن کمیشن کو مخصوص نشستوں کے امیدواروں کی فہرست بھی جمع نہیں کروا پاتی کیونکہ قانون کی رُو سے وہ جماعت ہی نہیں تھی۔ انتخابات کے نتائج آتے ہیں تو اُس جماعت کے تقریباً نصف امیدوار آزاد حیثیت میں اور باقی امیدوار ایک اور سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے منتخب ہو کر الیکشن کمیشن سے اپنے حصے کی مخصوص نشستوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اِس مطالبے میں سُقم یہ نکلتا ہے کہ اوّل تو اُس جماعت نے مخصوص نشستوں کی کوئی فہرست ہی جمع نہیں کروائی تھی، دوم، آزاد امیدواروں کے پاس آپشن تھا کہ وہ تین دن کے اندر اندر کسی سیاسی جماعت میں شامل ہو جاتے اور پھر وہ جماعت اُن کی تعداد جمع کرکے مخصوص نشستوں کا دعویٰ کرتی جو کہ نہیں ہوا، اور سوم، جس جماعت کے ساتھ باقی ماندہ امیدوار ضم ہوئے اُس جماعت کے سربراہ کی اسمبلی میں کوئی نشست نہیں تھی کیونکہ وہ خود آزاد حیثیت میں منتخب ہوا تھا اور اگر کسی جماعت کی اسمبلی میں نشست نہ ہو تو اُس جماعت کو مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی جاتیں، یہ الیکشن کمیشن کے قوانین کہتے ہیں۔

اِس تمام ’گھڑمس‘ کے بعد مقدمہ سپریم کورٹ میں جاتا ہے جہاں سے بالآخر اُس جماعت کے حق میں فیصلہ آ جاتا ہے جس کا نشان چھین لیا گیا تھا، آٹھ معزز جج اُس سیاسی جماعت کے حق میں فیصلہ دیتے ہیں اور پانچ صاحبان کی رائے مختلف ہوتی ہے۔ یہاں پہنچ کر بظاہر سب کچھ ٹھیک لگتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ آئین اور الیکشن کے قوانین عملاً دوبارہ لکھتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ جماعت جس کو انتخابات سے پہلے مخصوص نشستوں کی فہرستیں جمع کروانی تھیں وہ اب یہ کام کر لے اور یہی نہیں بلکہ وہ منتخب اراکین جو مقررہ مدت میں کسی جماعت کے ساتھ وابستگی ظاہر نہیں کر سکے وہ اگلے پندرہ دن میں یہ کام کر لیں۔ فیصلے میں لکھا جاتا ہے کہ اگر عدالت عظمیٰ کے اِس فیصلے سے متعلق الیکشن کمیشن کوئی وضاحت لینا چاہے تو وہ عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔ مزید آگے جانے سے پہلے، قانون کے ایک بنیادی اصول کو نوٹ کرنا ضروری ہے کہ ہر اچھے قانون میں قانون سے زیادہ دانا بننے کی ممانعت ہے، بہ الفاظ دیگر جو کچھ تحریری آئین میں لکھا ہو اُس پر من و عن عمل ہونا چاہیے بے شک آسمان گر پڑے۔ معزز عدالت کے فیصلے کے نتیجے میں الیکشن کمیشن کا آئینی کردار ختم ہو کر محض ایک ماتحت انتظامی دفتر کا رہ گیا حالانکہ آئین میں الیکشن کمیشن کی وہی حیثیت ہے جو اسلامی نظریاتی کونسل کی ہے، الیکشن کمیشن کو حکم دینا ایسا ہی تھا جیسے آپ اسلامی نظریاتی کونسل کو حکم دیں کہ وہ یہ فتویٰ جاری کرے کہ آج سے تمام عورتیں برقع اوڑھیں گی۔ آگے چلتے ہیں۔ پھر یوں ہوا کہ معاملہ نظرِ ثانی کیلئے دوبارہ سپریم کورٹ کے سامنے آیا، اِس مرتبہ عدالتِ عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کا موقف درست تسلیم کر لیا جسکے نتیجے میں یہ طے پایا کہ آزاد امیدواران کو مخصوص نشستیں نہیں دی جا سکتیں، یہ نشستیں صرف اُن جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی جنہوں نے انتخابات سے پہلے اِن کیلئے فہرستیں جمع کروائیں اور جنکی ایوان میں نمائندگی ہے۔

معاملہ کافی گمبھیر ہو گیا ہے اور بقول نطشے زندگی تو پہلے سے ہی پیچیدہ ہے (اگر نطشے نے یہ نہیں کہا تو اسے کہنا چاہیے تھا) لہٰذا اِس کو سادہ کرنے کیلئے کچھ سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس جماعت سے انتخابی نشان واپس لیا گیا، کیا اُس کے پاس یہ آپشن موجود تھا کہ وہ انتخابات سے پہلے مخصوص نشستوں کیلئے فہرستیں جمع کرواتی؟ آئینی جواب ہے نہیں، سیاسی جواب ہے ہاں۔ جس ملک کی ہم بات کر رہے ہیں اُس ملک میں سیاسی جماعتیں ایک سے زیادہ ناموں کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں اور یہ کام ایسی ہی کسی ناگہانی آفت کا مقابلہ کرنے کیلئے کیا جاتا ہے۔ کیا اضافی مخصوص نشستوں کو دیگر جماعتوں میں تقسیم کرنا درست فیصلہ ہے جبکہ اُن جماعتوں کو تناسب کے اعتبار سے پہلے ہی مخصوص نشستیں الاٹ کی جا چکیں؟ آئینی جواب ہے ہاں سیاسی جواب ہے نہیں۔ سیاسی معاملات کچھ لو اور دو کی بنیاد پر طے ہوتے ہیں، اگر اُس جماعت نے مذاکرات کیے ہوتے تو آج یہ نشستیں انہیں حاصل ہو جاتیں، ماضی سے نظیر بھی پیش خدمت ہے۔ غالباً جنوری 1977ءکی بات ہے، اُس وقت کے حکومت مخالف سیاسی اتحاد کو خود حکومت نے آرڈیننس کے ذریعے قانون میں ترمیم کرکے ایک انتخابی نشان کے تحت لڑنے کی اجازت دی تھی، اگر حکومت ایسا نہ چاہتی تو وہ سیاسی اتحاد کچھ بھی نہ کر سکتا کیونکہ اُس وقت کے الیکشن کمیشن نے بھی اُس اتحاد کو سیاسی جماعت تسلیم نہیں کیا تھا۔

’سیکشن 375‘ کمال کی فلم ہے، آئین اور قانون کے ہر طالب علم کو دیکھنی چاہیے۔ اِس فلم میں اکشے کھنہ بطور وکیل بتاتا ہے کہ قانون اور انصاف میں کیا فرق ہے، انصاف ایک آئیڈیل ہے جبکہ قانون اُس انصاف تک پہنچنے کا محض ایک ذریعہ، کبھی آپ انصاف حاصل کر پاتے ہیں اور کبھی نہیں، مگر کسی بھی حالت میں لکھے ہوئے آئین اور قانون کو انصاف کے کسی آئیڈیل کیلئے قربان نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ انصاف محض ایک خیال ہے جبکہ قانون حقائق کو پرکھتا ہے۔ یہی خلاصہ ہے آج کے تجزیے کا جس سے ادارہ ہذا بلکہ کسی کا بھی متفق ہونا ضروری نہیں، رائے اپنی اپنی!

تازہ ترین