• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ذاتی طور پر ہمیں امریکا میں نسل پرستانہ رویوں کا سامنا شاید ہی کبھی ہوا ہو۔ سفید فام نسل کی برتری کی باتیں کرنے والے تو یقیناً یہاں بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں، اور ٹرمپ صاحب کی سیاست نے ان عناصر کو تقویت بھی دی ہے مگر جن بڑے بڑے امریکی شہروں میں عام طور پر ہمارا جانا ہوتا ہے وہاں پر تارکین وطن کی بڑی تعداد آباد ہوتی ہے، تو ان شہروں میں سفید فام نسلی برتری کا مظاہرہ کم کم ہی دیکھنے میں آتاہے۔ گہرائی میں جھانکیں تو نسل پرستی کی بہت سی صورتیں پرت در پرت موجود ہیں، مگر یہاں فقط سطح کی بات ہو رہی ہے جس کا تجربہ کچھ دن کیلئے آنے والوں کو ہوتا ہے۔ خیر، اب اس ضمن میں ہمارے پہلے تجربے کا ذکر گوش گزار کیا جاتا ہے۔

ڈیٹرائٹ سے ہیوسٹن کی پرواز تھی، ہم جہاز کے آخری حصے میں اپنی سیٹ تک پہنچے، ساتھ والی سیٹ پر ایک لحیم شحیم سُرخ گردن والے (سفید فام) صاحب تشریف فرما تھے، ہماری سیٹ کھڑکی کی طرف تھی سو انہیں اٹھنا پڑا (ان کا قد قریباً ساڑھے چھ فٹ تھا) ہم ہیڈ کیبن میں دستی سامان رکھنے لگے، پانچ سیکنڈ ہی گزرے ہوں گے کہ وہ کچھ بڑبڑائے، لگا کہ وہ فون پر بات کر رہے ہیں، دو تین سیکنڈ ہی اور گزرے کہ انکی پھنکار سنائی دی، انکی طرف دیکھا تو وہ شعلہ بار نظروں سے میری ہی طرف دیکھ رہے تھے۔ سمجھ نہ آئی کہ وہ کس بات پر خفا ہیں، شاید انکی دانست میں ہمیں سامان رکھنے میں غیر ضروری تاخیر ہوئی تھی۔ انکی برہمی اس لیے بھی باعثِ حیرت تھی کہ عموماً لوگ یہاں ایسے مواقع پر مسکراتے رہتے ہیں اور خوش گوار جملوں کا تبادلہ کرتے ہیں۔ جب جہاز ایپرن سے ہٹنا شروع ہوا تو ہم نے سیٹ بیلٹ باندھی، سرخ گردن والے صاحب اس’’تاخیر‘‘پر بھی بڑبڑائے، ہم صرف انکےصرف دو لفظCamel jaocky سن سکے۔ پاس سے گزرتی ہوئی ایئر ہوسٹس سے نشست بدلنے کی درخواست کی جسے فوری رد کر دیا گیا کہ جہاز لبالب بھرا ہوا تھا۔دو نشستوں کے درمیان بازو ہلکا سا اڑانے کی کوشش کی تو ساڑھے چھ فُٹے نے زور سے کہنی مار کر ہمیں یک سر بے دخل کر دیا اور ساتھ ہی زیرِ لب کچھ کہنے لگے، ہم صرف "go back to your country" سن سکے۔ جہاز کی کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے ہم انسانی تعصبات کی جڑوں پر غور کرنے لگے۔ ردِ عمل کے فقدان کے سبب وہ صاحب بھی جلد ہی ہم سے بور ہو کرکوئی کامیڈی فلم دیکھنے لگے، اور کچھ ہی دیر میں بلند آہنگ قہقہے لگانے لگے۔ اس تین گھنٹے کی پرواز کے علاوہ امریکا کا قیام بہت خوش گوار ثابت ہو رہا ہے۔ ہیوسٹن پہنچ کر ہم نے ایک صاحب کو اپنے سرخ گردن ہم سفر کی شکایت کی تو کہنے لگے کوئی MAGA ہو گا۔ امریکا میں یہ اصطلاح ٹرمپ کے مریدین کیلئے استعمال ہوتی ہے۔ہیوسٹن میں ہمیں مشاعرے اور دوسری ادبی تقریبات کی دعوت عدیل زیدی صاحب نے دے رکھی تھی۔ عدیل بھائی سے ہماری پہلے صرف ایک ملاقات تھی، مجلس ترقی ادب کے ایک مشاعرے میں، جسکے فوراً بعد انہوں نے ہمیں ہیوسٹن آنے کی دعوت دے دی تھی۔ عدیل بھائی شاعر ہیں، جنکے چار مجموعے چھپ چکے ہیں، پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں، ادب پرور ہیں، جوش ملیح آبادی کی دو کتابیں، اور جون ایلیا و عبیداللہ علیم کا ایک ایک مجموعہ پاکستان اور ہندوستان سے چھاپ چکے ہیں۔ اس ادب پروری میں ان کا ذاتی مفاد کیا ہے؟ کم از کم ہم تو اس کا سراغ نہیں لگا سکے۔ ہیوسٹن میں جتنی تقریبات منعقد ہوئیں ان میں عدیل بھائی کی مسلسل یہ کوشش رہی کہ وہ پس منظر میں رہیں۔ آج کل ایسا آدمی دیکھ کر حیرت ہوتی ہے، جس نے ہیوسٹن میں ایک اردو نگر آباد کر رکھا ہے، ایک اپنی ہی تہذیبی جنت، ایک اپنی ہی بے غرض دنیا۔ ہیوسٹن میں عقیل اشرف مرحوم کی یاد میں ایک تقریب منعقد ہوئی۔ عباس تابش اور دوسرے اصحاب نے ان کا ذکر کچھ اس محبت سے کیا کہ ہم بھی دل گرفتہ ہو گئے۔ عقیل اشرف کی شخصیت کا کچھ کچھ اندازہ انکے بھائی عنایت صاحب المعروف عیش بھائی کو دیکھ کر ہوتا ہے، جو ہیوسٹن میں کوچہ کوچہ بے سروسامان پاکستانیوں کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ اب اس میں کیا حیرت کے ان کا گھر یہاں سرائے کی شہرت رکھتا ہے۔اس تقریب کی بس ایک بات سُن لیجیے۔ ایک مغنی جنہوں نے عقیل اشرف مرحوم کی کچھ غزلوں کی دُھن ترتیب دے رکھی ہے، انہوں نے اپنی گفتگو میں راگ جونپوری اور درباری کا کچھ فرق بتایا جو سراسر محمل تھا۔ انہوں نے گفتگو ختم کی تو ہم ضبطِ نفس کا مظاہرہ نہ کر سکے۔ مائیک تھام کر عرض کیا کہ دونوں سمپورن راگ ہیں، ہو بہ ہو ایک اسکیل، مِن و عن ایک ہی سُر اور پھر بھی کئی فرق ہیں، وادی سُر فرق ہے، مزاج فرق ہے، جونپوری اونچے اور درباری نچلے سپتک میں گایا جاتاہے، مگر دو بہت ہی بنیادی فرق ہیں، جونپوری کی آروہی امروہی سیدھی جبکہ درباری وکر راگ ہے، اور درباری کا گندھار اور دھیوت جُھلا کے لگائے جاتے ہیں۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا پھر خدا جانے جی میں کیا آئی کہ ہم نے ان راگوں کو گنگنا کر وضاحت بھی فرمائی۔ وطن سے دور شاید کچھ نفسیاتی بند ڈھیلے پڑ جاتے ہیں، آدمی وہ بے سُری حرکتیں بھی کر لیتا ہے جن سے عام حالات میں حذر ہی مستحسن ہے۔ اس دیدہ دلیری کا فوری نتیجہ یہ نکلا کہ اگلے ہی روز امریکن اردو نیوز ٹی وی پر مجید اختر صاحب نے ہمارا انٹرویو کرتے ہوئے تکرار سے فرمائش کی کہ اپنے اشعار ترنم سے سنائیں۔ ہم نے لا حول ولا پڑھا، تکرار سے انکار کیا، اور صِدقِ دل سے گائیکی سے توبہ کر لی، یعنی ہم بھی ان غنچوں میں شامل ہو گئے جو بِن کھلے مرجھا گئے۔

تقریب کے بعد عیش بھائی کے گھر محفل لگی تو ایک صاحب کہیں سے وارد ہوئے جن کا تعلق گلگت سے بتایا گیا پاکستانی سیاست پر تبصرہ فرمانے لگے، اور پھر فرماتے ہی چلے گئے، انکے حقائق، اعداد و شمار، اور رائے کچھ مخصوص وی لوگرز سے کشیدہ تھی۔ آخرِ کار، ہم نے ان سے دست بستہ عرض کی کیا ہی اچھا ہوتا اگر آپ اپنے طویل خطاب سے پہلے ہم سے پوچھ لیتے کہ ہم کہاں سے آئے ہیں، کون ہیں، پچھلے پینتیس سال سے کیا کام کرتے ہیں؟ وہ صاحب اسکے بعد دس منٹ چپ چاپ بیٹھے رہے پھر نہ جانے کیوں یک دم اٹھے اور رخصت ہو گئے۔

تازہ ترین