• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیر و تفریح کرتا خاندان ایک جگہ پھنس گیا۔ موت اسے کھینچ کر یہاں لائی تھی ورنہ ان کا ارادہ سوات آنےکا تھا ہی نہیں۔ کوئی کچھ نہ کر سکا۔جی بہلانے آئے تھے، ناگہاں مر گئے۔

ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمہ ء گل

یہی ہے فصلِ بہاری ، یہی ہے بادِ مراد؟

یہ وڈیو دیکھتے ہوئے پورا ملک سوگوار ہے ۔ ایسے میں ہر انسان بے اختیار ہو کر سوچتا ہے کہ اگر اسکی جگہ میرا خاندان ہوتا؟ 2019ء میں تین بچوں کے سامنے گاڑی میں بیٹھے ماں باپ کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا تھا ۔ ایک بچی نے ہاتھ میں فیڈر پکڑا ہوا تھا ۔ وہ وڈیو اس سے زیادہ وائرل ہوئی تھی ۔وجہ اسکی بھی یہی تھی ۔ ایسے میں ہر انسان بے اختیار اپنی اولاد کے بارے میں سوچتا ہے کہ اگر اسے ایسے سانحے سے گزرنا پڑتا ؟ دل موم ہو جاتا ہے ۔اس وقت مگر ہم سب ایک بہت بڑی حقیقت سے نظریں چرا رہے ہوتے ہیں،وہ حقیقت یہ ہے کہ خواہ ہم حادثات سے بچتے بھی رہیں تو ایک دن ہم میں سے ہر ایک کو لازماً مرنا ہے ۔ نجات کی صورت کوئی نہیں ۔ اب صورتیں دو ہیں ۔ پہلی یہ کہ ہمیں اپنے پیاروں کے سامنے موت آجائے ۔ دوسری یہ کہ ہمارے پیاروں کو ہمارے سامنے موت آجائے ۔ دونوں صورتیں خوفناک !

کسی عالی دماغ نے کہا تھا :دو ہی صورتیں ہیں ۔ یا تو ہم اس کائنات میں اکیلے ہیں یا اس کائنات میں ہمارے سوا بھی کوئی موجود ہے ۔ دونوں صورتیں خوفناک!یعنی اگر ہم اکیلے ہیں تو خوف کی با ت یہ ہے کہ ہم کہاں سے آگئے ۔ اگر کوئی اور بھی ہے تو ایک دن وہ ہمیں ڈھونڈتا ہوا آئے گا ۔ سٹیفن ہاکنگ کے الفاظ میں جس طرح یورپی اقوام کوئی نئی زمین ڈھونڈتی ہوئیں امریکہ پہنچی تھیں تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ساڑھے پانچ کروڑ ریڈ انڈین قتل کر دیے گئے ۔تکلیفیں اس طرح انسان بلکہ مخلوقات کا پیچھا کر رہی ہیں کہ بچا جا ہی نہیں سکتا۔ ہماری مثال ایسی ہے ، جیسے کوئی شیشے کے گھر میں بیٹھا ہو اوراس گھر کے چاروں طرف پتھر برس رہے ہوں ۔ایک بڑا پتھر زمین پہ آکر گرتاہے اور ڈائنا سار سمیت ستر فیصد جاندار ختم ہو جاتے ہیں ۔اسرائیل کی مثال لیجیے ۔ اس کی آبادی 97لاکھ ہے ۔مسلمانوں کی آبادی ہے 2 ارب ۔ اسرائیل کو عیسائیوں اور سب سے بڑھ کر امریکہ کی مدد حاصل ہے ۔ٹیکنالوجی میں وہ سب سے آگے ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقلیت اکثریت پہ کتنے دن غالب رہے گی ۔ اب موجودہ جنگ میں جس طرح سے ایرانی میزائلوں نے اندر تک ہٹ کیا ہے اور جو تباہی و بربادی کا یہودیوں کا ماضی ہے، وہ کیسے سکون کی نیند سو سکتے ہیں ۔ ڈر انہیں ایٹمی پاکستان کا بھی ہے ، جو اس وقت ان کیلئے کوئی جارحانہ عزائم نہیں رکھتا لیکن اس کے پاسپورٹ پر درج عبارت انہیں یاد ہے ۔ شاہین تھری کی پہنچ انہیں معلوم ہے۔ پاکستان کی اشرافیہ تو خیر لیکن عوامی اکثریت اسرائیل سے نفرت کرتی ہے ۔بات لمبی ہو گئی ۔

زندگی بڑی نازک ہے ۔ جو شخص کامیابی اور مسرت کے کوہ ہمالیہ پہ کھڑا ہو ، ذرا اسے کریدو تو زخم خوردہ نکلتا ہے ۔ چند روز قبل سلمان خان نے بتایا کہ وہ تین اذیت ناک بیماریوں کا شکار ہیں ۔ بالی ووڈ کے تین خانز (سلمان خان، عامر خان اور شاہ رخ خان) کو کبھی کوئی فلم ساز اکٹھا نہ کر سکا تھا۔ مکیش امبانی نے اپنے بیٹے کی شادی پر ان تینوں سے اکٹھا ڈانس کروایا۔ ادھرجس فرزند اننت امبانی کی شادی پر پیسے کی طاقت نے تینوں خانز کو ایک ساتھ ناچنے پر مجبور کیا، وہ خود لا علاج بیماری کا شکار ہے۔ آرام سے چل بھی نہیں سکتا۔یہ وہ دنیا ہے ، جس میں محمد علی جیسے باکسر کو پارکنسن کی بیماری لاحق ہو جاتی ہے ۔ یہ وہ دنیا ہے ، جس میں دنیا کا سب سے نامور تن ساز رونی کولمین اپنی ریڑھ کی ہڈی اور کولہوں میں لوہے کی پلیٹیں ڈلواکر بیساکھیوں کے سہارے چلتا نظر آتا ہے ۔ یہ وہ دنیا ہے ، جس میں رسالت مآبﷺ اور خلفائے راشدینؓ جیسی مقدس ہستیوں کی قائم کردہ خلافت پر یزید جیسا ملعون آبیٹھتا ہے۔

بہت سی لڑکیوں کا یہ خواب ہے کہ وہ کسی مارننگ شو کی میزبان بنیں ۔ ادھر ایک مارننگ شو کی میزبان مائیگرین کے ہاتھوں مرنے کی حد تک تنگ ہے ۔یہ وہ دنیا ہے ، جس میں ہارون الرشید جیسا بادشاہ اس بے بسی کے عالم میں دنیا سے رخصت ہوتاہے کہ اولاد کے لڑمرنے کا خطرہ سونگھ رہا ہوتاہے ۔ یہ وہ دنیا ہے ، جس میں کرہ ء ارض فتح کرنے والا ایلون مسک مریخ فتح کرنے کے خواب دیکھتا ہے۔ دوسری طرف اسی ایلون مسک کی بیٹی نما بیٹا سوشل میڈیا پہ اس کی مٹی پلید کرتا پایا جاتا ہے ۔

یہ سوشل میڈیا بہت سے طاقتوروں کیلئے سب سے بڑا عذاب ہے ۔ وہ اسے اگل سکتے ہیں ، نہ نگل سکتے ہیں ۔اس دنیا میں بہت سے امیر لوگ ذہنی سکون سے محروم ہیں۔ شریف خاندانوں کی اس دنیا میں خدا عمرا ن خان پیدا کر دیتاہے ۔ پکنک کو امتحان میں بدل دیتاہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے امتحان گاہ میں مستقل کوئی کیسے آسودہ رہ سکتاہے ؟اس دنیامیں تو انسان اپنی مرضی آتا ہے ، نہ اپنی مرضی جاتا ہے

لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے

اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے

ہاں کوئی آسودہ ہو سکتاہے تو وہ جو علم والا ہے ۔ علم سب سے بڑا مرہم ہے ۔

تازہ ترین