• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس دنیا میں سورج کہتا تھا ’میں تنہاہوں اس انجمن میں ‘پھر سائنس دانوں نے خبر سنائی کہ ایک اور برابر کا سورج دریافت ہوگیا ہے۔ اب سورج پہ چاروں طرف سے سولر سسٹم کا وہ طوفان چڑھاہے کہ لاکھوں خرچ کر کے، امیر گھروں کی چھتیں، کالے رنگ کے فریم پہنے نظر آرہی ہیں ۔اس وقت ہمارے وزیر اعظم ، بجٹ میں طرح طرح کے لطیفے جمع کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ جو آپ لوگ 35 روپے ماہانہ ٹی وی فیس دے رہے تھے وہ معاف کی جاتی ہے۔ مگر گیس جو گھروں میں عورتیں مردوں کے لیے گرم گرم روٹیاں پکانے کے لئے، استعمال کرتی ہیں۔ اسکی قیمت دگنی کی جارہی ہے۔

البتہ میک اپ کے سامان پہ ٹیکس کم کیے جارہے ہیں وہ میک اپ کا سامان جو17 سالہ ثنا یوسف منہ پہ لگا کے دوسروں کے ساتھ ٹک ٹاک کرکے دوستوں سے باتیں کرکے، اپنی سالگرہ مناکر بہت خوش تھی۔ ہر چند وہ پہاڑی علاقوں کی رہنے والی تھی۔ چھٹیوں میں اسلام آباد آکر اپنا وہی شوق ٹک ٹاک کررہی تھی۔ اس کے گروپ میں ٹاک ٹاکر لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل تھے ۔لڑکیاں تو ابھی ذرا بالغ اور سنجیدہ سوچ کی جانب مائل ہیں مگر لڑکے تو فوراً ذاتی رشتہ رکھنے کے لئے ڈورے ڈالنا شروع کردیتے ہیں۔ انکو اپنی ذات پر ایسا بے ہودہ شائونسٹ اعتمادہےجو ’’ناں ‘‘سننے کے لیے تیار نہیں ہوتاہے۔ اس 17 سال کی لڑکی نے 22 سالہ نوجوان کوحرفِ انکار کہا تو اس نے اپنی انا کو پستول کی گولیوں کی شکل میں ثنا کے جسم میں اتار دیا۔ ایسے ہی واقعے میں ظاہر جعفر نے امریکی پلٹ ہونے کا زعم کیلئے نور مقدم کو گھسیٹا، مارا، اسکے سرکو فٹ بال بنا کے کھیلا۔ نور مقدم کو قبر میں اتارے 3 سال ہوگئے سرمائے پہ سرمایہ لگ رہا ہے سپریم کورٹ اسے سزائے موت دے چکی ہے عدالتی چکر اپیلوں پر اپیلیں آرہی ہیں۔ اچھے سے اچھا وکیل بڑی رقم دیکر پیش کیارہاہے۔ چونکہ وہ امریکی شہری ہے۔ امریکی کارندے آکر ملتے رہے۔ مگر وہ کوئی ریمنڈ ڈیوس نہیں کہ جسکے لئے امریکی حکومت خون بہا کے نام پر غریب خاندانوں کی جھولیاں بھردے۔ گزشتہ دو سال میں آئس پینے اور سوئےمزدوروں پر رولز رائس چڑھا دینا کچھ دن جیل ، عدالت چلا ۔ پھر دولت کے خزانوں کے منہ کھل گئے۔ بیٹی کے خون کو بھلا دیا گیا۔ اور اب تو آئے دن بڑی دولت والوں کے نوجوان شہزادے گاڑیاں فل اسپیڈ پر چلارہے ہیں ، کبھی بے قابو گاڑیاں دریاؤں میں ڈوب جاتی ہیں، درختوں سے ٹکراکر مشین اور انسان آگ بن کر ختم ہوجاتے ہیں اور اگر غریب بچے اپنی پسند کی شادی کرلیں تو خود باپ غیرت کے مارے کبھی گلا گھونٹ دیتے ہیں تو کبھی گولیاں مار دیتے ہیں کہ وہ تو بہت دستیاب ہیں۔ ہماری اسمبلیوں کے ممبران کوباقی تمام رعایتوں کے علاوہ اسلحہ کا لائسنس ملنے کا حق بھی دیا گیا ہے۔ تو پھر دیکھا کریں پرمٹ بنوانے والوں کا رش اور پھر بلا پرمٹ بھی ۔جائیداد کے قضیے میں تو بیٹے باپ کو مارکر ، جائیداد اور سرمایہ اونے پونے بیچ کر باہر چلے جاتے ہیں۔

ہمارے بہت سے سینئر افسران جو اپنے زمانے میں طرّم خان تھے۔ جائیدادیں بھی خوب بناتے ہیں جب وہ مرتے ہیں تو بیٹے ضد کرتے ہیں کہ اپنا گھر بیٹی کے نام نہ کریں ۔میری نامراد آنکھوں نے دیکھا مشہور مصور راہی کا بیٹا کیسے اسکی پینٹنگزکے فریم اتارکر لے گیا اور ماں کو بہن کے ساتھ زبردستی بھیج کر گھر اور کاٹیج جو مری میں تھے،ان سب پر قابض ہوگیا۔ پرانے ریٹائرڈ امیروںکے بیٹے ، ماں کو گھر سے نکال کر گھروں پر قبضے کو قانونی حق سمجھتے ہیں۔

یہ لکھتے ہوئے میرے کندھے پر سر رکھ کر عائشہ کھڑی ہوگئی اس نے اپنی جوانی میں ایک پولیس کے افسر اعلیٰ سے شادی کی۔ بیٹی ہوئی بیٹی کو اپنے پاس رکھا اور ماں نے ٹیلی ویژن میں اپنے آپکو گم کرلیا۔ بیٹی بڑی ہوکر خوبصورت ہونےکے باعث ماڈل بنی اور کامیاب ہوئی۔جس دن اس بیٹی کی شادی اصلی باپ نے کروانی تھی تو اصل ماں کو کہہ دیا تم شریک نہیں ہوسکتی۔ رخصتی کے بعد چند لمحوں کیلئےماں سے ملنے آئی ، بہت امیر لڑکے سے شادی کی تھی۔ دولت نے ماں کا پیار بھلادیا۔ ایک بیٹا بھی تھا۔ وہ بھی اوپری کلاس میں سوار ہوکر اور جو کچھ عائشہ نے کمایاتھا ، پھر بھی اسی اولاد کے نام کر کے،خود ایک فلیٹ میں آگئی۔ اب ساری پرانی اداکارائیں، مائوں کا کردا ر ادا کرنے پر راضی تھیں کہ روٹی کیلئے کچھ تو کمانا ہوتاہے۔ خورشید شاہد بھی اسی دکھ میں مرگئی کہ اسکو بوڑھی عورت کا کردار بھی نہیں ملتا تھا۔ حسینہ اپنے نئے ڈرامے کا اسکرپٹ لکھتے لکھتے سوئی رہ گئی۔ ہماری روشن آرا بیگم کی آواز کی طاقت بھی دولت والوں کی جھلملاہٹ کو راس نہ آئی وہ خاموشی سے قبرمیں اترگئی اور میڈم نور جہاں جسکو میں مرنے سے ایک ہفتہ قبل کراچی ہسپتال میں مل کر آئی تھی۔ اسکی بیٹیوں نے اسکو کراچی میںہی کردیا۔ میں نے شور مچایا تھا کہ جیسے مصر نے اپنی عظیم گلوکارہ ام کلثوم کو سرکاری اعزازات کیساتھ دفنایا تھا ۔ اسکا میوزیم بنایا جس میں اس کے لباس اور زیورات رکھے گئے۔ کاش ہم بھی ملکہ ترنم کے جنازے کو تکریم دیتے۔ میں نے تو یہ بھی کہا تھا کہ خوبصورت ٹولنٹن مارکیٹ کو نور میوزیم بنادیں۔ مگر کون ہے جو فن اور فنکاروں کو سمجھتا اور عزت دیتا ہے۔ ہماری اداکارہ رانی کو بھی جائیداد اور زیورات کی آگ میں راتوں رات سمیٹ دیا گیاتھا۔ اب آگے نہیںبتاؤنگی کہ اقبال بانو اور ریشماں کا کوئی یاد نامہ کہ اب تو کیسٹ بھی ختم ، سخن ور ختم ،لکھابھی ختم ۔ وعظ و خطاب سلامت ،یادیں کیوں رہ جاتی ہیں!

تازہ ترین