اسسٹنٹ نیوز ایڈیٹر نے مجھے بلایا اور کہا، بجو باورا بجٹ اسپیچ سننے کے بعد بے ہوش ہوگیا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ بجو باورا بہت لمبے عرصہ تک بے ہوش رہے گا۔ اس کی جگہ تم جاکر بجٹ کے بارے میں لوگوں کی آرا لے آؤ۔ لوگوں سے پوچھو کہ بجٹ کے بارے میں وہ کیا کہتے ہیں۔میں نے موٹے اسسٹنٹ نیوز ایڈیٹر کو سیلوٹ مارا اور کہا، ’’ یس سر‘‘۔ جھک کر میں کمرے سے باہر نکلنے والا ہی تھا کہ موٹے اسسٹنٹ نیوز ایڈیٹر نے مجھے روکا اور ٹوکا، ’’ دیکھو ڈبو، اپنے پھٹیچروں کے انٹرویو اور آرا مت لے آنا‘‘۔ ایک مرتبہ پھر میں نے موٹے اسسٹنٹ نیوز ایڈیٹر کو سیلوٹ مارا اور جھک کر اس کے کمرے سے نکل گیا۔ کراچی کے ہم پرانے باسی خرانٹ قسم کے اصحاب سے سلام دعا نہیں کرتے۔ہم خرانٹ قسم کے لوگوں کو سیلوٹ مارتے ہیں۔ اس میں عافیت رہتی ہے۔ اسسٹنٹ نیوز ایڈیٹر کے کمرے سے باہر آنے کے بعد میں نے مائیکل کو تلاش کیا۔ مائیکل عرف سائیکل ہمارے نیوز چینل کا نامور کیمرامین ہے۔ وہ مانیٹرنگ کے کمرے میں ایک سیٹ پر جدید ترین کشتی کا پروگرام انہماک سے دیکھ رہا تھا۔ جدید ترین کشتی کے جدید ترین جمہوریت کی طرح سر پیر نہیں ہوتے۔ جدید کشتی میں آپ اپنے حریف کو گھونسے لاتیں، مکے، ٹھڈے،دھکے دے سکتے ہو۔ آپ چاہیں تو اپنے حریف کوکاٹ کھا سکتے ہو۔ جدید ترین کشتی کے نامور کھلاڑیوں کے ناک اور کان نہیں ہوتے۔
مائیکل کواپنی جگہ سے اٹھاتے ہوئے میں نے کہا ۔’’ چل اٹھ جارے مائیکل کہ اب یہ دیس ہوا بیگانہ۔ حیرت انگیز بجٹ کے بارے میں حیرت انگیز تاثرات ریکارڈ کرنے کے لیے چل‘‘۔
اپنا کیمرا سنبھال کر مائیکل میرے پیچھے موٹر سائیکل پر بیٹھ گیا۔ میں نے مائیکل سے کہا۔’’ مجھے ٹوکنا اگر میں اپنے سے زیادہ پھٹیچر شخص سے بجٹ کے بارے میں کچھ پوچھوں‘‘۔
’’ تو فکر مت کر استاد‘‘۔ مائیکل نے کہا۔’’ اس بیگانے شہر میں تجھ سے زیادہ پھٹیچر لوگوں کی ایک دنیا آباد ہے‘‘۔
ایک چوراہے پر سگنل سرخ تھا۔ ٹریفک بے چینی کے عالم میں ٹھہری ہوئی تھی۔ ہمارے قریب ایک پرانی ٹیکسی میں ایک پرانا شخص سوچ میں ڈوبا ہوا بیٹھا تھا۔ کراچی میں پانی کی قلت ہے، اس لیے لوگ اکثر سوچ میں ڈوبے ہوئے ملتے ہیں۔ میں نے بزرگ سے پوچھا ، ’’ سر جی، بجٹ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘۔ بزرگ نے ٹیکسی کی کھڑکی سے بایاں ہاتھ باہر نکالا۔ ہاتھ کی پانچوں انگلیاں کھول کرمجھے کھلا دکھایا۔گھبرا کر میں نے منہ پھیرلیا۔ سگنل گرین ہوا۔ میں نے موٹر سائیکل بھگاتے ہوئے مائیکل عرف سائیکل سے پوچھا، ’’ بوڑھا مجھ سے زیادہ پھٹیچر تھا؟‘‘۔
مائیکل نے کہا۔’’ تیرے ہم پلہ پھٹیچر تھا‘‘۔
میں نے پوچھا۔’’ پھر اس نے مجھے کھلا کیوں دکھایا؟‘‘
مائیکل نے کہا۔’’ اس نے کھلا تجھےنہیں، بجٹ کو کھلا دکھایا تھا‘‘۔
پھر کچھ دیر آگے جانے کے بعد میں نےموٹر سائیکل جاکر پھول والی گلی میں روکی۔پھول والی گلی میں اب پھول نہیں، کانٹے بکتے ہیں۔ میں نے ایک اجڑی ہوئی دکان میں بیٹھے ہوئے شخص سے پوچھا۔’’ بجٹ آپ کو کیسا لگا؟‘‘
بیزار لہجے میں اس نے کہا۔’’ اگر میری دکان پھر سے آباد ہوگئی تو سمجھوں گا بجٹ میں کچھ دم ہے۔ ورنہ معاملہ پھس ہے‘‘۔
دکاندار نے بھی دایاں ہاتھ آگے بڑھا کر انگلیاں کھول دیں۔ہاتھ کی اس نوعیت کو دیسی زبانوں میں، کھلا اور بھونڈو کہتے ہیں۔ دکاندار نے چاروں اور کھلا ہوا ہاتھ یعنی بھونڈو دکھانے کے بعد کہا۔’’ جب میں پھر سے کانٹوں کی بجائے پھول بیچنا شروع کروں گا تب سمجھوں گا کہ بجٹ اچھا ہے‘‘۔
پھول والی گلی سے باہر نکلتے ہوئے میں نے مائیکل سے پوچھا۔ ’’ دکاندار مجھ سے کچھ کم یا کچھ زیادہ پھٹیچر تھا؟
مائیکل نے مسکراتے ہوئے کہا۔’’ دکاندار سے زیادہ تم پھٹیچر لگ رہے تھے‘‘۔
ایک سبزی بیچنے والے سے میں نے پوچھا۔’’ بجٹ کے بارے میں آپ کیا کہو گے؟‘‘۔
سبزی فروش نے کہا۔ ’’ جس نے بجٹ بنایا ہے، اس سے جاکر پوچھو۔ سنا ہے کہ بجٹ بنانے والے نے اپنی مراعات بڑھا دی ہیں‘‘۔
ٹھیلے پر ردی بیچنے اور خریدنے والے سے میں نے پوچھا۔’’ بجٹ کیسا لگا تمہیں؟‘‘
ردی بیچنے اور خریدنے والےنے کہا ۔’’ بھتہ خوروں نے دیہاڑی ،ہفتہ وار اور ماہوار بھتوں کے ریٹ بڑھا دیے ہیں‘‘۔
تب ایک عمر رسیدہ عورت نے مجھے آواز دی اورکہا۔’’ مجھ سے توتم کچھ پوچھتے نہیں‘‘۔
میں نے پلٹ کر بڑھیا کی طرف دیکھا۔’’ جی ماں جی۔‘‘ میں نے پوچھا۔’’ بجٹ کے بارے میں کچھ کہنا چاہتی ہیں آپ ؟
بڑھیا نے پوچھا۔’’ بجٹ بنانے والوں نے ایم بی بی ایس کی سالانہ فیس اٹھارہ لاکھ روپے کیوں رکھی ہے؟ اتنے پیسوں میں تو بنا بنایا ڈاکٹر مل جاتا ہے‘‘۔