• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عجیب گھن چکر ہے۔ ملک میں موسلا دھار بارشیں ہو رہی ہیں، مون سون اپنے عروج پر ہے، شمالی علاقوں میں سیلاب آیا ہوا ہے مگر اِس سب کے باوجود پاکستان میں پانی کی قلت ہے۔ جی جی، معلوم ہے کہ ہم پانی ذخیرہ نہیں کرتے، لاکھوں کیوسک فٹ پانی بحیرہ عرب میں پھینک کر ضائع کر دیتے ہیں، ہمارا نہری نظام پرانا ہو چکا ہے، زراعت میں جِدّت لانے کی ضرورت ہے، زیر زمین پانی کی سطح دن بدن نیچے جا رہی ہے... یہ تمام باتیں اپنی جگہ درست ہوں گی مگر یہ حقیقت پھر بھی ہضم نہیں ہو پارہی کہ دنیا میں پانی کی قلت کے شکار ممالک میں پاکستان کا تیسرا نمبر کیسے ہے! یہ ایسا ہی گھن چکر ہے کہ زمین اپنے محور پر بھی گھوم رہی ہے اور سورج کے گرد بھی چکر لگا رہی ہے مگر ہمیں احساس نہیں ہو پاتا۔ سائنس دان سے پوچھو تو وہ بتاتا ہے کہ دراصل زمین کی گردش یکساں رفتار سے ہے اِس لیے ہمیں پتا نہیں چلتا۔ اوکے، مان لیا، مگر پھر ہمیں ہوائی جہاز میں اُڑ کر سفر کرنے کی کیا ضرورت ہے، کسی فضائی غبارے میں بیٹھ کر انتظار کیوں نہیں کرتے کہ جب زمین گھومے گی تو لاس اینجلس میں اتر جائیں گے۔ اِس کا جواب یہ ملتا ہے کہ نہیں، دراصل زمین کے ساتھ اُس کی فضا بھی اسی رفتار سے گھوم رہی ہے اِس لیے جہاز بھی زمین کے ساتھ ہی گھومنا شروع کر دیتا ہے۔ غالب نے اسی موقع کے لیے کہا تھا کہ’’ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے‘‘۔ اور سائنس دان ہمیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ کائنات ابھی نا تمام ہے، دن بدن یہ پھیل رہی ہے، اِس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری، زمین، سورج، چاند، ستارے، سیارے، اِن میں سے کچھ اجسام ساکت ہیں تو کچھ گھوم رہے ہیں مگر کائنات پوری پھیل رہی ہے۔ بندہ پوچھے کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ اِس کا جواب ملتا ہے کہ دراصل وہ پھیلاؤ کہکشاؤں کے درمیان ہوتا ہے اِس لیے زیادہ ’فیل‘ نہیں ہوتا، اور کہکشائیں چونکہ لاکھوں نوری سال کے فاصلے پر ہیں اور پھیلاؤ کی رفتار کافی کم ہے اِس لیے ہم تک کائنات کی کوئی ’حرکت‘ نہیں پہنچتی۔ کوئی ایک معمہ ہو تو بات بھی ہے، ہمیں تو آج تک ’پائی‘ کا معمہ بھی سمجھ میں نہیں آیا جو غالباً ساتویں جماعت میں پڑھایا گیا تھا کہ دائرے کے محیط کو اگر اُس کے قطر پر تقسیم کریں تو جو حاصل ہوگا اُسے پائی کہیں گے لیکن مصیبت یہ ہے کہ جو حاصل ہوتا ہے وہ ختم نہیں ہوتا، دنیا کا کوئی کمپیوٹر آج تک اِس پائی کا حساب نہیں رکھ سکا تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔ کسی ریاضی دان سے پوچھیں گے تو وہ بتائے گا کہ کیسے اِس نمبر میں دنیا جہان کے پاس ورڈ اور بینک اکاؤنٹ نمبر پوشیدہ ہیں اور کسی کاہن سے پوچھیں گے تو وہ دعوی کرے گا کہ یہ پُراسرار ہندسہ دراصل ترتیبِ الٰہی کو ظاہر کرتا ہے۔ ’زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب... موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا۔‘

یہ جتنے معمے میں نے بیان کیے ہیں دراصل اِن میں سے کوئی بھی معمہ نہیں۔ مجھ ایسا بندہ اِس لیے الجھ جاتا ہے کیونکہ وہ آبی امور کا ماہر نہیں جو پانی کو ذخیرہ کرنے پر عالمانہ رائے دے سکے، وہ ماہر طبیعات نہیں جو کائنات کے پھیلاؤ اور اجسام کی باہمی کشش کا تعلق سمجھا سکے اور وہ کوئی ریاضی دان نہیں جو یہ بتا سکے کہ پائی میں کیسا کیسا راز پوشیدہ ہے۔ لیکن اپنی کم مائیگی کا اظہار کرنے کی بجائے اکثر لوگ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ وہ ہر فن مولیٰ ہیں اور ہر معاملے پر ایک حتمی رائے رکھتے ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص ماہر معاشی امور، خارجہ پالیسی کا تجزیہ کار اور شہری منصوبہ بندی کا ایکسپرٹ بنا بیٹھا ہے۔ ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز سے لے کر سوشل میڈیا کی ٹائم لائنز اور چائے کے ڈھابوں سے لے کر اشرافیہ کے ڈرائنگ رومز تک، ہر کوئی ملکی مسائل کا سادہ اور فوری حل پیش کرتا نظر آتا ہے۔ ملک جب دیوالیہ ہونے کے قریب تھا تو کچھ سیانے کہتے تھے کہ ڈیفالٹ ہونے دو سب قرضے خود بخود ختم ہو جائیں گے۔ کرپشن اور بد انتظامی ختم کرنے کا فارمولا بھی اسی قسم کے صاحبان کے پاس ہوتا ہے جو کبھی ہٹلر کو آئیڈیل حکمران بتاتے ہیں اور کبھی سرعام پھانسیوں کو مسئلے کا بتا کر یوں مطمئن ہو جاتے ہیں جیسے یہ طے ہو کہ وہ خود پھانسی دینے والوں میں سے ہوں گے، لگنے والوں میں سے نہیں۔ ایک تجویز اکثر یہ بھی سننے میں آتی ہے کہ تمام سیاست دانوں کو دریا بُرد کر دو ملک از خود سویٹزرلینڈ بن جائیگا۔ یہ تمام تجاویز اتنی ہی سادہ اور گمراہ کُن ہیں جتنی یہ سوچ کہ فضائی غبارے میں بیٹھ کر زمین گھومنے کا انتظار کیا جائے تاکہ منزل خود قدموں کے نیچے آ جائے۔ انگریزی میں کہتے ہیں For every complex problem there is an answer that is clear, simple, and wrong۔ اصل المیہ یہیں سے جنم لیتا ہے۔ جب کسی بھی مسئلے کی پیچیدگی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جائے تو پھر ماہرین کی رائے بے وقعت ہو جاتی ہے۔ آبی امور کا ماہر جب یہ بتاتا ہے کہ صرف ایک ڈیم نہیں بلکہ ملک بھر میں چھوٹے بڑے ڈیموں کا جال، نہری نظام کی مکمل بحالی، زراعت کیلئے ڈرپ اریگیشن جیسی جدید ٹیکنالوجی کا فروغ اور پانی کے استعمال کے حوالے سے عوامی شعور بیدار کرنے کی مربوط پالیسی کی ضرورت ہے، تو اُس کی بات’’ہر فن مولیٰ‘‘ دانشوروں کے شور میں دب جاتی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ یہ حل پیچیدہ ہے، وقت طلب ہے اور اس میں فوری سیاسی فائدہ نظر نہیں آتا۔ ہم اُس ریاضی دان کی طرح ہیں جو’’پائی‘‘کے نہ ختم ہونے والے ہندسوں میں کائنات کے راز تلاش کر رہا ہے، جبکہ قوم کو ایسے شعبدہ بازوں کی تلاش ہے جو دو اور دو پانچ کر کے دکھا دیں۔

تو پھر اصل’’گھن چکر‘‘ کیا ہے؟ موسلادھار بارشوں کے باوجود پانی کی قلت؟ نہیں۔ اصل گھن چکر جہالت اور تکبر کا وہ اتحاد ہے جو پاپولزم کو جنم دیتا ہے جسکے بعد کسی بھی مسئلے کی تہہ تک پہنچنا قریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ ہم مسائل کو حل کرنے کی بجائے اُنکی سادہ تشریحات پر ایمان لے آتے ہیں اور پھر اُن غیر حقیقی تشریحات کی بنیاد پر حل تجویز کرتے ہیں جو کبھی کام نہیں کرتے۔ موت کے بعد اجزا کا پریشاں ہونا تو سمجھ آتا ہے مگر ہم نے زندگی میں ہی اپنے اجتماعی شعور کے اجزا کو پریشان کر رکھا ہے۔

تازہ ترین