• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی کابینہ نے پانچ لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔ اسکی وجہ چینی کی قیمتوں میں استحکام رکھنا اور اسکی خریداری عام لوگوںکے دسترس میں رکھنا بتائی گئی ۔ ضروری اشیا ءکی بازار میں وافر مقدار میں موجودگی یقینی بنانا حکومتی ذمہ داری کا ایسا عنصر ہے جس سے صَرفِ نظر ممکن نہیں۔ اس باب میں قیام پاکستان کے وقت سے بلکہ اس سے بھی پہلے برٹش راج کے وقت سے ایسے انتظامات کئے گئے تھے جنکے تحت مختلف خاندانوں کے راشن کارڈ بنائے جاتے تھے۔ ان راشن کارڈوں کے ذریعے افراد خاندان کی تعداد کے مطابق راشن شاپ پرمتعین مقدار میں معینہ دنوں کیلئے حکومت کے مقرر کردہ نرخوں کے مطابق راشن ملتا تھا۔ اس راشن میں چینی اور آٹا بھی شامل ہوتا تھا۔ پاکستان میں جب آٹا مناسب نرخوں پر بازار میں عام دستیاب ہونے لگا تو راشننگ کا خاص آئٹم چینی ہی رہ گیا۔ بعد ازاں چینی کی راشننگ بھی ختم کر دی گئی۔ تو پسے ہوئے طبقات کے لوگوں کو بھی انہی نرخوں پر یہ چینی خریدنی پڑی جن نرخوں پر صاحبانِ حیثیت کو دستیاب تھی۔ وطن عزیز کے ابتدائی برسوں میں خواجہ ناظم الدین کی وزارت عظمیٰ کے دور میں ہونیوالی آٹے کی شدید قلت کے سوا کبھی خوراک کا قابل ذکر حقیقی بحران پیدا نہیں ہوا مگر ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی قلت کے دیگر ذرائع اختیار کر کے بلیک مارکیٹنگ کرنیوالے عناصر وقتاً فوقتاً مسائل پیدا کرتے رہے ہیں۔ ایک زمانے میں مشہور تھا کہ بعض ضروری اشیاء افغان سرحد پر بنے ہوئے گوداموں میں منتقل کر دی جاتی اور پھر اندون ملک انکی قلت پیدا ہونے پر وہاں سے واپس لا کر مہنگے داموں فروخت کی جاتی ہیں۔ اب حکومتی قواعد و ضوابط اور بعض دوسری رکاوٹوں کے باعث شاید ایسا ممکن نہیں رہا، مگر گَنّے سمیت کئی اشیا ءکی بمپر فصل ہونے کے باوجود اندرون ملک ضروری اشیا ء،خاص طور پر شوگر، عام لوگوں کو سستے داموں دستیاب نہیں۔ برسوں سے سننے میں آرہا ہے کہ بااثر افراد حکومت کی زرمبادلہ کی ضرورت کو آڑ بنا کر چینی برآمد کرنے کی اجازت حاصل کر لیتے ہیں اور بعد ازاں چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی روک تھام کیلئے درآمد کی ضرورت پیدا کر دی جاتی ہے جس پر خرچ ہونے والے ڈالر ملک کیلئے خسارے کا سودا بن جاتےہیں۔ رواں برس مارچ میں 5لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی وجہ متعلقہ وزارت کے بموجب، چینی کی وافر مقدار میں دستیابی تھی۔ اب چند ہفتوں بعد ہی پانچ لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی وجہ قیمتوں میں استحکام لانے کی ضرورت بتائی جا رہی ہے۔ پہلے جب چینی برآمد کرنی تھی تو سیکرٹری اور کین کمشنر کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا تھا۔ اب درآمد کرنی ہے تو کون ہٹے گا؟ ایسی کیفیت میں کہ برآمد ودرآمد کی یہ مشق کاشتکاروں ، عوام اور حکومت کیلئے فائدہ مند محسوس نہیں ہوئی جبکہ پنجاب حکومت کے اپنے بیان کے مطابق اُسے چینی کی ضرورت نہیں تو یہ سوال جائز طور پر سامنے آتا ہے کہ فائدہ اٹھانےوالے کون لوگ ہیں؟ اور چینی برآمد کرنے کے وقت مقامی قیمتیں 145سے 150روپے کے درمیان رکھنے کی یقین دہانی کرانیوالے حلقے چینی کی قیمت 180سے 200روپے تک پہنچ جانے کے حوالے سے کیا کر رہے ہیں۔ چند برس قبل عمران خان کے دور میں چینی کا بحران اتنا سنگین ہو گیا تھا کہ اس نے سیاسی اسکینڈل کی صورت اختیار کر لی تھی۔ اس وقت کی صورتحال میں اگر اندرون ملک چینی کی کمی محسوس ہو رہی ہے اور اسکی درآمد ضروری ہو گئی ہے تو یہ کام زیادہ تیزی سے ہونا چاہیے تاکہ تاخیر کے نتیجے میں زیادہ مہنگائی پیدا نہ ہو۔ علاوہ ازیں شوگر ملز میں ذخیرہ شدہ چینی کے حقیقی آڈٹ کرا کر حکومت کو نئے بحرانوں سے بچنے کی قابل عمل حکمت عملی بنانی چاہئے۔ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کو فعال بنانے کے علاوہ وقت کی ضرورت کے مطابق قانون سازی پر بھی توجہ دی جانی چاہئے۔

تازہ ترین