ٹیکساس الاسکا کے بعد رقبے کے اعتبار سے امریکا کی سب سے بڑی ریاست ہے، اور بالحاظِ آبادی بھی کیلی فورنیا کے بعد دوسری سب سے بڑی ریاست ہے ۔ ٹیکساس کا رقبہ پاکستان سے کچھ کم ہے اور آبادی فقط تین کروڑ ہے، زمین کی اس فراوانی کا نتیجہ ہے کہ بلند وبالا عمارتوں کی کوئی خاص ضرورت ہی نہیں سمجھی گئی، سو شہر پھیلے ہوئے ہیں، کہیں بھی جانا ہو ایک دو گھنٹے لگ جانا معمول ہے۔ ڈرائیونگ ٹائم نکال دیں تو واقعی عمریں آدھی رہ جاتی ہیں۔صبح صبح کی فلائٹ بھی ایک الجھن ہی ہوتی ہے۔ صبح سات بجے کی فلائٹ کا مطلب ہے پانچ بجے ایئرپورٹ پہنچیں، جس کا مطلب ہے چار بجے گھر سے نکلیں، جس کیلئے تین بجے اٹھیں، خود بھی بے آرام ہوں اور شفیق میزبان کو بھی ایذا پہنچائیں، یہاں لکڑی سے گھر تعمیر ہوتے ہیں، سو فرش چوں چوں کرتے ہیں، آوازیں گونجتی ہیں، یعنی سب اہلِ خانہ بھی جاگ جاتے ہیں۔ سو میزبانوں سے اس اضافی زحمت کی اضافی معذرت۔ لگے ہاتھوں ہم سفروں کا بھی ایک خصوصی شکریہ واجب ہے۔ گردن کا ایک مہرہ کچھ دنوں سے گہری چال چل رہا ہے، طبیبوں نے وزن اٹھانے سے حذر تلقین کر رکھا ہے، دوستوں کو آگاہ کیا تو اس کے بعد تمام سفر انہوں نے ہمیں اپنے سامان کو ہاتھ بھی نہیں لگانے دیا۔ عاطف توقیر سے حضرتِ عباس تابش تک کئی دوستوں کی سپاس گزاری ہم پر لازم ہے۔
ہیوسٹن سے نیویارک تک ساڑھے تین گھنٹے کی پرواز انتہائی خوش گوار رہی، ساتھ والی نشست پر 28 سالہ جیک براجمان تھے، زہران ممدانی کے حامی تھے اور توقع رکھتے تھے کہ اگر وہ نیویارک کے میئر بن گئے تو عام نیویارکر کے مسائل کے حل کی مخلصانہ کوشش کریں گے۔ جیک کا خیال تھا کہ وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو ممدانی کی کامیابی کے محرکات بھی وہی ہیں جو ٹرمپ کے تھے، یعنی لوگ مروجہ نظام سے برگشتہ ہیں، اسٹیبلشڈ آرڈر میں شگاف ڈالنا چاہتے ہیں، روایتی سیاست کو مسائل کا حل نہیں بلکہ حصہ سمجھتے ہیں۔ اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے کو امریکی ریاست مختلف طرح دیکھتی ہے، اور امریکی عوام ایک اور طرح، بالخصوص نوجوان۔ بہ قول جیک اس حوالے سے ممدانی عوام کی اکثریت کی نمائندگی کر رہے ہیں، اور اگر وہ الیکشن میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ ایک نقطہء آغاز ہو سکتا ہے، یعنی عام یہودیوں اور اسرائیل کی سفاک ریاست میں امتیاز ہونے لگے، کیوں کہ فی الحال تو یہاں اسرائیل مخالف نقطہء نظر کو یہود دشمنی ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نیویارک میں ہمیں ایئرپورٹ پر لینے کیلئے حلقہء اربابِ ذوق نیویارک کے روحِ رواں ناصر گوندل صاحب موجود تھے۔ پہلا تاثر یہ تھا کہ گوندل صاحب مسکرانے کے قائل نہیں ہیں، بعد میں پتا چلا کہ صرف ہنسنے پہ یقین رکھتے ہیں۔ شفیق انسان، عمدہ میزبان اور اچھے شاعر، یہ گوندل صاحب کے کوائف کی نامکمل فہرست ہے۔ نیویارک مشاعرہ خوب رہا، ہمیں ہمارے حق سے زیادہ داد ملی۔ معروف شاعرہ حمیرا رحمان مشاعرے کے بعد از روئے محبت کہنے لگیں کہ ہم نے آپ کو اتنی داد دی کہ ہمارا گلا بیٹھ گیا ہے۔ یہ سراسر ان کا بڑا پن تھا۔ مشاعرے میں داد کے ضمن میں ایک بات حضرتِ عباس تابش کے حوالے سے، جب سامعین ہمیں خوب داد دے رہے تھے تو تابش صاحب پر نظر پڑی، ان کے چہرے پر ہم سے بھی زیادہ طمانیت تھی، ہم نے کسی شاعر کو کسی دوسرے شاعر کو داد ملنے پر اتنا مسرور نہیں دیکھا، صرف ہمارے ضمن میں نہیں،سب دوستوں کی طرف ہم نے ان کا یہی رویہ دیکھا۔ بلاشبہ یہ بہت بڑی انسانی خوبی ہے۔انسانی خوبی سے ایک مقامی مزاحیہ شاعر کا خیال آ گیا۔ کسی نے انکا تعارف کروایا اور انکی خوبیوں کی فہرست میں ’’وفاداری‘‘ کو خط کشیدہ کیا۔ ان صاحب نے بھی گفتگو میں ایک سے زیادہ مرتبہ کہا کہ زندگی میں جب موقع آئے گا تو آپ کو ہماری اس خوبی کا اندازہ ہو گا۔ بہرحال ہمیں اسی شام دوستوں کی محفل میں ان کی اس خوبی کا کچھ کچھ اندازہ ہو گیا۔ انہوں نے ایک غزل سنائی جس کی ردیف’’کُتا‘‘ تھی، ہم نے بھی خوب حوصلہ افزائی کی، جس پر انہوں نے انکساری سے بتایا کہ ان کی اگلی غزلوں کی ردیفیں ’’کتورا‘‘ اور’’کُتیا‘‘ ہیں۔ اب آپ ہی بتائیں، کوئی بے وفا انسان بھلا ایسی ردیفیں کیوں چُنے گا؟ نیویارک ایئرپورٹ کی طرف جاتے ہوئے احساس ہوا کہ اس شہر کی ٹریفک سارے امریکا سے بے ہنگم ہے،120جھنجھلائے ہوئے ڈرائیور، قطاریں بدلتے ہوئے، ہارن مارتے ہوئے، سڑکیں بھی نسبتاً غیر ہم وار، یعنی وطن یاد آنے لگا۔ مین ہٹن کی ایک سڑک سے گزرتے ہوئے ایک پوسٹر پر نظر پڑی، ایلون مسلک کی بڑی سی تصویر کے نیچے لکھا تھا I'm stealing from you، ہم نے اپنے سیاہ فام ڈرائیور سے اس پوسٹر پر رائے مانگی تو تلخی سے بولا کہ یہ سو فی صد درست بات ہے، یہ امریکی بلینئرز دنیا کے’’کرپٹ ترین‘‘ لوگ ہیں۔ ہمیں اس سیاہ فام کی’’کرپٹ ترین‘‘ کے حوالے سےکم علمی پر ہنسی آ گئی۔
’’ناز ہے گل کو نزاکت پہ چمن میں اےذوق
اس نے دیکھے ہی نہیں ناز و نزاکت والے۔‘‘