• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

درویش کو بچپن سے ہی مجالس عزا میں شریک ہونے وہاں علماء و ذاکرین کو انہماک سے سننے کا گہرا شغف رہا ہے غلہ منڈی مریدکے میں آڑھتوں کے اوپر ہماری رہائش گاہ کچھ اس طرح تھی کہ عقبی جانب امام بارگاہ کی دیوار ہماری دیوار سے منسلک تھی جو زیادہ اونچی نہیں تھی سو جب مجلس شروع ہوتی تو ہم بچہ لوگ دیوار پھلانگ کر دوسری جانب امام بارگاہ میں چلے جاتے۔‎انہی دنوں کی بات ہے جب اس سوال پر شدت کی دلچسپی پیدا ہوگئی کہ سانحۂ کربلا آخر ہوا کیوں تھا؟ سیدناامام حسینؓ اور یزیدکی باہم لڑائی کیا تھی؟ اتنا بڑا جھگڑا آخر کس بات پر ہوا تھا؟ اور یہ کیسے کلمہ گو مسلمان تھے جنہوں نے اپنے پیغمبرؐ کی آل اولاد کو یوں بے دردی سےشہید کیا! سانحۂ کربلا میں آلِ محمدؐ اور اولادِ علیؑ کے گلوں کو کاٹا گیا۔ محض چھ ماہ کے فرزندِ حسین ؓ مولا علی اصغرؓ کے گلے میں تاک کر تیر مارا گیا جس سے تڑپ کر اس معصوم بچے نے جان دے دی۔ امام حسینؓ کی شہزادی کیلئے پانی لانے کے جرم میں سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے دراز قامت بیٹے عباس علمدار کے دونوں بازو کاٹ کر انہیں بے دردی سے قتل کرڈالا گیا۔ اے عمروابن سعد! حسینؓ پر دھاوا بولتے ہوئے تجھے کیوں یہ یاد نہ رہا کہ میں تو عشرہ مبشرہ صحابی رسولؐ حضرت سعد بن ابی وقاص کا بیٹا ہوں ، کیا اس سے کہیں بہتر نہیں تھا کہ تو ایسی سپہ سالاری پر تین حروف بھیجتے ہوئے جرنیلی عہدے کو ٹھوکرماردیتا یا عبیداللہ ابنِ زیاد سے جرح کرتا کہ حسین ؓ کی تینوں شرائط انتہائی معقول ہیں۔ ‎عزیز دوستو امامؓ کی وہ تین شرائط کیا تھیں؟اول یہ کہ میں جہاں سے آیا ہوں مجھے واپس وہیں چلے جانے دو۔ دوئم مجھے اس سلطنتِ اسلامیہ کی سرحد کی طرف کوچ کرنے دیا جائے تاکہ میں مسلم ایمپائر کی حدود سے باہر چلا جاؤں ۔سوئم اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک بات بھی منظور نہیں تو پھر مجھےیزید کے پاس دمشق لے چلو تاکہ ہم باہم مل بیٹھ کر معاملے کو حل کرلیں۔‎آج چودہ صدیوں بعد بھی انسانی شعور حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ اس وقت کی مسلم قیادت کس قدر سنگ دل تھی اور نہیں تو کم از کم اپنے پیغمبرؐ سےامام حسین ؓکی نسبتوں کا ہی کچھ لحاظ کرلیتی اپنے ہاتھوں کو آلِ رسولؐ کے خون سے آلودہ نہ کرتی، الٹے یہ لوگ اپنے لشکر یوں پر چلارہے تھے کہ حسین ؓ جلدی مارو ہماری نمازِ جمعہ قضا ہورہی ہے یعنی انہیں نماز کی تو فکر تھی مگر نواسہء رسول اورخاندانِ نبوت پر ظلم کی رتی بھر فکر نہ تھی۔امامؓ کے وعظ ونصیحت کا بھی ان سنگدلوں پر ذرہ برابر اثر نہ ہوا، حسین انہیں بتارہے تھے کہ مسلم بن عقیل کے ہاتھوں پر تم لوگوں نے میری بیعت کی تھی خطوط بھیجنے والوں کے نام لے لے کر پکاررہے تھے کہ تم لوگوں نے خود مجھے بلایا تھا۔یہاں عرض یہ ہے کہ کیا ہمیں سانحۂ کربلا کو محض اپنے جذباتی بیانیے کیلئے استعمال کرنا چاہیے یا شعوری و نظری طور پر اسکے پس منظر کا احاطہ و ادراک بھی کرنا چاہیے؟۔ کیا کہیں یہ بدروحنین اور احدو احزاب کا غصہ و لاوا تو نہیں تھا؟ تاریخِ انسانی میں جب کوئی بھی سانحہ وقوع پذیر ہوتا ہے تو اس کی کڑیاں سابقہ بہت سے واقعات و حوادث سے جڑی ملتی ہیں۔ ایسا کوئی بھی تاریخی سانحہ یونہی ہوا میں معلق نہیں ہوتا اس کا ایک پس منظر اور بدلتے حالات کا ایک تسلسل ہوتا ہے۔ اس سے پہلے ہمیں سیدنا عمرؓاور بالخصوص سیدنا عثمانؓ کی شہادتوں کا بھی جائزہ لینا پڑے گا جمل و صفین جیسی ہولناک و خوفناک باہمی جنگوں کو بھی سمجھنا ہوگا ۔ سیدنا عبداللہ ابن زبیر کی دردناک شہادت کیا کوئی معمولی سانحہ تھا؟ اور عشرہ مبشرہ صحابہ سیدنا طلحہ و زبیر کی شہادتیں بھی دل دہلادینے والی تھیں اور پھر سیدنا مولا علیؓ اور سیدنا امام حسنؓ جس طرح شہید ہوئے، یہ شہادتوں کا ایک تسلسل تھا ۔ سب سے تکلیف دہ اور اذیت ناک امر یہ تھا کہ سوائے سیدنا عمر کے یہ تمام کی تمام کربناک شہادتیںخود کلمہ گو مسلمانوں کے ہاتھوں وقوع پذیر ہوئیں،اسلئے ہمیں منافرت پھیلانے کی بجائے، جذبہء خود احتسابی کے تحت خود اپنی فکری تطہیر کرنی چاہئے۔

تازہ ترین