شہباز حکومت کا کِلہ مضبوط ہے کہ حکومتوں، اہم تعیناتیوں کی سیکورٹی ’’مضبوط کِلہ‘‘ ہی کی مرہون منت ہے۔ یادش بخیر، جنرل ضیاء الحق کا طوطی بولتا تھا، نئے نویلے سیاستدان میاں محمد نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب، پرانے گھاگ سیاستدانوں کو نہ بھایا، پنجاب حکومت کا تختہ اُلٹنے کی ٹھانی تو جنرل ضیاء الحق کا کڑاکے دار بیان سامنے آیا، ’’نواز شریف کا کِلہ مضبوط ہے‘‘، سب کی خواہشات بِن کھلے مرجھا گئیں۔ شہباز حکومت کا بھی عمران خان کی مزاحمتی تحریک کی حد تک کِلہ مضبوط ہے جبکہ عمران خان کو کھڈے لائن لگانا، اداراتی فیصلہ ہے۔ برسبیل تذکرہ! شہباز حکومت کی پشت پر جو کِلہ ہے اُس پر اور بھی بہت کچھ بندھا ہے۔ مثلاً اسٹیبلشمنٹ کے اوپننگ بیٹسمین محسن نقوی کا کِلہ بھی یہی ہے۔ صوبوں پر نظر دوڑائیں تو KP میں علی امین گنڈاپور اور بلوچستان میں چھوٹے بھائی سرفراز بگٹی کا کِلہ بغیر کسی پس و پیش یہی اور مضبوط ہے۔ پنجاب میں مریم نواز صاحبہ کو جہاں آزادی وہاں پابہ گِل بھی کہ پنجاب بیوروکریسی، محکمہ پولیس کی اہم پوزیشن ، اہم جیلوں اور بڑے اداروں کی سربراہی وزیراعلیٰ کی بجائے مضبوط کِلہ سے بندھی ہیں۔
دو روز قبل عمران خان نے نئی احتجاجی تحریک کا اعلان کیا تو مہینوں بعد قومی میڈیا کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ کیا زمانہ تھا ، عمران خان کا کِلہ بھی شہباز حکومت کی طرح مضبوط تھا ۔ کم وبیش ( 2011 تا 2022 ) عمران خان کو مضبوط کِلہ کی سہولت میسر رہی ۔ مضبوط کِلہ کی برکات ہی کہ ابھی اقتدار نہیں تھا تو نواز حکومت کو متزلزل رکھا ، ہانپتی کانپتی دیکھی گئی ۔ کیا وقت تھا کہ 2014 میں انصافی کارکن پولیس کی پھینٹی لگارہے تھے ، چار سو عمران خان گویا کہ اسلام آباد عمران خان کے قبضہ میں تھا ، سب کچھ بوجوہ مضبوط کِلہ ہی تو تھا ۔ وقت کا وزیراعظم اپنے گھر میں مقید ، خواجہ سعد رفیق کی زبانی معلوم ہوا کہ کسی وقت سہ پہر جب خواجہ صاحب وزیراعظم ہاؤس پہنچے تو وزیراعظم نواز شریف مبہوت موجود ، اُلٹی گنتی شروع کر چکے تھے ۔ وزیراعظم ہاؤس باہر چند سو غنڈے ڈنڈوں سوٹوں سمیت دندنا رہے تھے ۔ عمران خان کا حکم کہ " نواز شریف کو وزیراعظم ہاؤس سے گھسیٹ کر نکالنا ہے " ۔ وطنی میڈیا 24/7عمران خان کو لائیو دکھانے کا پابند " کِلہ " ہی کے فیوض ( یہاں فیوض فیض کی جمع نہیں بلکہ یہاں ظہیرالسلام کی جمع ہے ) و برکات عمران خان کی پشت پر تھے ۔ دو وزراء اور میرے عزیز دوست پرویز رشید اور مشاہد اللہ خان مرحوم کی برخاستگی ہوئی جبکہ حکومت ن لیگ کی تھی۔
نومبر 2016 ءمیں عسکری قیادت تبدیل ضرور ، " کِلہ " عمران خان کی پشت پر اسی طاقت سے موجود رہا ۔ چشم فلک نے ایسے مناظر دیکھے کہ وزیراعظم نواز شریف گریڈ 19،20 افسران کے آگے سر جھکائے اپنی تذلیل کروانے پر مجبور ، بالآخر انجام کو پہنچے ۔ نواز شریف طاقت کے سامنے زیر ہوئے اور حقی سچی وزیراعظم کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا ۔ اسکے ساتھ ہی سیاست پر پابندی ، پابند سلاسل اور راندہ درگاہ بننا سب لف تھا ۔ 2018 تا 2021 نواز شریف اسکے خاندان اور مسلم لیگی رہنماؤں پر جو قیامت ٹوٹی عمران خان کو اسکا احساس شاید کبھی بھی نہ ہو ۔ درجنوں واقعات ، کلثوم نواز جان بلب ، مریم نواز اور نواز شریف کو فون پر بات نہ کروائی گئی ۔ کلثوم نواز کی بیماری کا مذاق اُڑایا گیا ، مریم نواز کو باپ کے سامنے جیل میں گرفتار کرنا ، نہ بھولنے والے واقعات ہی تو ہیں ۔اسی " کِلہ " کے بل بوتے پر عمران خان کی 18 اگست 2018 کو تاج پوشی ہوئی ۔ خاطر جمع ! 25 جولائی 2018 کے RTS الیکشن عمران خان نے کروائے نہ ہی 8 فروری 2024 کے فارم 47الیکشن نواز شریف نے کروائے، ہاں ! " کِلہ " کی نظرِ التفات 2018 میں عمران خان پر اور 2024 میںشہباز شریف پر کہ یہ تیرا کرم ہے کہ بات ہمیشہ وہی بنی ہے جو طاقت چاہتی ہے ۔ عمران خان کے بحران کی شروعات ہی کہ کِلہ کی سہولت واپس لے لی گئی ۔ بقول ( 27 اکتوبر 2022 پریس کانفرنس ) ! " ہم نے یہ فیصلہ مارچ 2021 میں کر لیا تھا " ۔ عمران خان سے " مضبوط کِلہ " تدریجی عمل سے چھینا گیا ۔ چنانچہ عمران خان کے فیصلوں میں کنفیوژن کا بحران اسی بنا آج بھی موجود ہے ۔ جنرل باجوہ کی ہوشیاری اور حرص توسیع ملازمت ، اپنے ادارہ کیلئے مشکلات اور پیچیدگیاں پیدا کیں ۔ جنرل باجوہ عمران خان کو ہٹا کر خود اقتدار ہتھیانا چاہتا تھا ۔ عمران خان اس حد تک خوش قسمت کہ جب اقتدار سے علیحدہ ہوا تو بصورت جنرل فیض حمید ادارے کی پشت پناہی میسر رہی ۔ جلسے جلوس ، ریلیاں ، انٹرویو ، میڈیا کی بھرپور سہولت تن من دھن فراہم رکھی گئیں ۔ اس سے پہلے ایسی مثال کسی کے تصور میں نہ تھی۔ عمران خان کی ادارے پر چڑھائی تاکہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کی ممکنہ تعیناتی رُکوائی جا سکے ایسا عمل جس پر خان صاحب نے اپنے تابوت میں خود کیل ٹھونکی ۔ خاطر جمع ، کوئی بھی نیا چیف بنتا عمران خان کیساتھ یہی سلوک روا رکھتا کہ عمران خان کو ٹھکانے لگانا ایک اداراتی فیصلہ تھا ۔ کسی کیلئے ممکن ہی نہ تھا کہ ادارہ کی ایسی بے حرمتی کو نظر انداز رکھے۔ عرصہ درازسے عمران خان یکے بعد دیگرے زمینی حقائق ، فہم و فراست عقل سے عاری فیصلوں میں مگن ، لامتناہی سلسلہ جاری ہے ۔ ا ب جبکہ پانی سر سے گزرنے کو ، مجھے افسوس رہیگا ! " ہم جو تاریک راتوں میں مارے گئے " ۔ بے شمار ناکام مزاحمتی تحریکوں کی موجودگی اور احمقانہ سیاسی حکمت عملی کا تسلسل ہی کہ بغیر سوچے سمجھے دو دن پہلے پھر سے نئی مزاحمتی تحریک کا اعلان کردیا ۔ یہ تحریک پچھلی تحریکوں سے کس قدر مختلف ہوگی اور کیونکر کامیاب ہوگی ؟ عقل کے کسی خانے میں فٹ نہیں بیٹھتی ۔ اب وہ کونسا منتر یا چھومنتر کہ تحریک نے کامیاب ہونا ہے ۔ بیٹوں کی کسی تحریک میں شمولیت اگرصیغہ راز میں رہتی اور گرم موسم سے گریز رہتا تو یہ نیا ہنر آزمایا جا سکتا تھا ، شاید کارگر بیٹھتا ۔ مت بھولیں کہ 25 مئی 2022 اسلام آباد لانگ مارچ اور 26 نومبر راولپنڈی لانگ مارچ بنفس نفیس عمران خان کی ولولہ انگیز قیادت میں ہی تو ہواتھا ۔ 25 مئی KP حکومت کروفر سے پشت پر جبکہ 26 نومبر کو دونوں صوبائی حکومتیں موجود ، درجنوں جلسے کئے ، حلف لیا ، 30 لاکھ بندے نکالنا تھے ، بمشکل چند ہزار بندے لا سکے ۔ ترسیلات زر ، جیل بھرو تحریک ، سول نافرمانی کوئی ایک مد جس پر ماننے چاہنے والوں نے کان دھرے ہوں ۔ اگر گیدڑ بھبکی ہے یا پھر پارٹی قیادت کو اُکسانا مقصود ہے تو بھی قوی امکان ایسا فیصلہ بیک فائر کریگا ۔ پاکستانی سیاسی تاریخ کا سبق ایک ہی ،" مضبوط کِلہ" پاکستانی سیاست کا محور ہے ۔ علاوہ ازیں کِلہ کی بنیاد پر اقتدار حاصل کرنیوالوں کو بطلِ حریت بننے سے گریز کرن چاہیے ۔ وطنی سیاستدان اگر مفادات سے بالاتر ہو کر متحد ہو جائیں اور کِلہ سے رسی تڑوانے کی کوشش کریں تو شاید… ، وگرنہ اسی کِلہ پر گزارا کرنا ہوگا۔