• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

‎نیتن یاہو کا امریکی دورہ اور غزہ کا بحران؟‎

امریکی پریذیڈنٹ ڈونلڈ ٹرمپ کام چاہے دھیلے کا کریں،بڑھک بازی میں ہمارے سابق کھلاڑی کی طرح کسی نوع کی کمی نہیں آنے دیتے۔ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں اپنا بنیادی سلوگن ہی اس نعرے کو بنائے رکھا کہ وہ امریکی وسائل بیرونی جنگوں میں بھسم نہیں ہونے دینگے،اپنی تجارتی، سفارتی و سیاسی اسٹرٹیجی سے عالمی سیاست میں امریکا کو مقامِ عظمت دلوائیں گے اور نئی جنگیں تو دور کی بات، پرانی جنگوں سے بھی دست کش ہوجائیں گے۔‎ ٹرمپ کسی پلیٹ فارم پر بھی یہ کہنا نہیں بھولتےکہ انہوں نے دو ایٹمی ممالک پاکستان اور انڈیا کے درمیان شروع ہونے والی بڑی جنگ کو روکا اور پھر ایران اسرائیل جنگ کو بھی برسوں پر محیط ہونے سے روکتے ہوئے محض بارہ دنوں تک محدود کردیا۔ اس حوالے سے انہوں نے کیا اسٹرٹیجی اپنائی اس پر وہ اظہارِ خیال کرتے رہتے ہیں۔‎پچھلے دنوں صدر ٹرمپ نے بیان جاری کیا کہ مڈل ایسٹ میں جاری غزہ جنگ کو روکنے کیلئے انکی اسرائیلی پرائم منسٹر بنجمن نیتن یاہو سے بات چیت ہورہی ہے،اس حوالے سے وہ جلد دنیا کو اچھی خبردیں گے جس پر اس سلسلے میں ایک امید بندھی کہ شاید دوحہ مذاکرات کے پانچویں دور میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا کوئی معاہدہ ہوجائیگا ‎اسکے ساتھ ہی 7جولائی کو اسرائیلی پرائم منسٹر وائٹ ہاؤس پہنچ گئے نیتن یاہو واحد عالمی لیڈر ہیں جو چھ ماہ سے بھی کم مدت میں تیسری مرتبہ امریکی دورے پر واشنگٹن گئے، جہاں انکے مذاکرات بشمول پریذیڈنٹ ٹرمپ، قریباً ہر اہم سطح پر ہوئے،لیکن حاصل وصول کچھ نہ ہوا ۔ ٹرمپ جہاں یاہو سے یہ چاہتے تھے کہ وہ غزہ جنگ بندی کو قبول کرلیں وہیںیاہوکا ایجنڈا ایران کو مزید سبق سکھانے کیلئے مزید امریکی تعاون کے حصول کا تھا تاکہ ایران میں رجیم چینج کا ادھورا مشن پورا کیاجاسکے۔ ظاہر ہے دونوں ہی اپنے مقاصد یا مطالبات منوانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔‎اب اصل سوال پر آتے ہیں کہ پریذیڈنٹ ٹرمپ غزہ کی فوری جنگ بندی میں تاحال کیوں کامیاب نہیں ہوپارہے؟ اس کی بنیادی وجہ تو اسرائیل اور حماس دونوں کی ستم ظریفی ہے دونوںمیں سے کوئی بھی پیچھے ہٹنے یا اپنےمؤقف میں نرمی یا لچک دکھانےپر آمادہ و تیار نہیں۔ ‎ نیتن یاہو نے اپنے حالیہ دورہ امریکا میں بار بار کہا کہ ہم اپنے دروازے پر ٹیررازم کو کسی صورت قبول نہیں کرسکتے۔ اسی دوران اسرائیلی عسکری ہلاکتوں کی خبریں بھی پہنچیں تو انھوں نے کہا حماس کو غیر مسلح ہونا پڑے گا اور ہمارے یرغمالی چھوڑنا ہونگے جبکہ دوسری طرف حماس ہنوز کسی بھی صورت غیر مسلح ہونےکیلئے تیار نہیں اور نہ ہی یکبارگی اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے پر آمادہ ہے حماس کو ساٹھ روزہ جنگ بندی پر بھی اعتراض ہے اس کا مؤقف ہے کہ مضبوط عالمی گارنٹیوں کے ساتھ اسرائیل مستقل جنگ بندی کا معاہدہ کرتے ہوئے اپنی فورسز کو غزہ کی حدود سے باہر لے جائے۔‎ایسی صورت میں جہاں ویسٹ بنک میں ایک طرف فلسطینی اتھارٹی کی حکومت ہے اور دوسری طرف غزہ میں حماس کی مسلح طاقت کا پوری طرح خاتمہ نہیں ہوسکا وہیں ھیبرون کے عرب قبائلی شیوخ کی ایک تیسری فلسطینی طاقت بھی ابھرتی اور اپنا بہتر متوازن رول ادا کرنے کی پیشکش کرتی دکھائی دےرہی ہے۔ ان عرب قبائل کے سربراہ الشیخ الجابری نے کہا ہے کہ اگر ہماری خودمختار امارت قائم کروادی جائے تو ہم ابراہم کارڈ کے تحت اسرائیل کے ساتھ وہی تعاون کریںگے جو ابراہیمی معاہدے میں شامل ہونے والے دیگر عرب کررہے ہیں۔‎پرائم منسٹر نیتن یاہو پر اسرائیل میں اندرونی طور پر اپنے ان یرغمالیوں کی رہائی کے حوالے سے شدید دباؤ ہے جنہیں حماس نے 7اکتوبر 2023ء کو اسرائیل میں گھس کر گرفتار کیا اور اپنے ساتھ غزہ کے مخصوص زیرِزمین ٹھکانوں میں لے گئے ۔شنید ہے کہ ان میں بہت سےیرغمالی مرچکے ہیں جنکی لاشوں کے بدلے، سودا کرتے ہوئے، حماس والے اسرائیلی قید سے اپنے جنگجوؤں کو رہا کرواتے ہیں اس وقت بھی پچیس کے قریب زندہ اور کچھ اتنے ہی مردہ اسرائیلی حماس کے قبضے میں ہیں۔ اسرائیل اور حماس کے ایک تو وہ معاملات ہیں جو لوگوں کو دکھائی دیتے ہیں دوسری اندر خانے کی اسکیمیں ہیں کہ ایک دوسرے کا خاتمہ کیسے کیاجاسکتا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ حماس اور اسرائیل آمنے سامنے ہیں ،کوئی بھی اپنی ضد سے باز نہیں آرہا نتیجتاً غزہ کے عام لوگ بشمول بچے اور خواتین چکی کے ان دو پاٹوں میں پس رہے ہیں،غزہ کے عوام کو اس مصیبت سے چھٹکارا دلانا ہی آج کا اصل اور فوری تقاضا ہے۔

تازہ ترین