یہودیت ایک غیر تبلیغی، نسلی مذہب ہے، اِس لیے دنیا کے باقی مذاہب کے مقابلے میں بظاہر اِس کے پیروکاروں کی تعداد پچھلے دو ہزار سال میں ہمیشہ بہت محدود رہی ہے۔ اِس وقت پوری دنیا کی کُل یہودی آبادی لگ بھگ ایک کروڑ، ستاون لاکھ ہے۔ سب سے زیادہ، یعنی بہتّر لاکھ اسرائیل میں اور دوسرے نمبر پر تریسٹھ لاکھ امریکا میں مقیم ہیں۔ باقی بائیس لاکھ یہودی یورپ، ایشیا، افریقا اور دیگر ممالک میں بکھرے ہوئے ہیں۔
اِس کُل یہودی آبادی کے مقابلے میں دنیا میں اِن کے اثرات دیکھے جائیں، تو یہ اربوں افراد پر غالب نظر آتے ہیں۔ اُنہوں نے ایسی طاقت وَر، پُراسرار تنظیمیں بنا رکھی ہیں، جن کے ذریعے یہ دنیا کے سیاسی، سماجی، علمی، فکری، تحقیقی، نظریاتی، اقتصادی، صنعتی اور عسکری محاذوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔اِس وقت آئی ایم ایف (IMF) اور عالمی بینک(World Bank)جیسے ادارے بھی بالواسطہ طور پر ان ہی کے کنٹرول میں ہیں۔
امریکی کانگریس، سینیٹ اور برطانیہ سمیت یورپی پارلیمانی اداروں پر یہودیوں کی ایسی گرفت ہے کہ جس طرح کے قوانین چاہیں، بنوا لیتے ہیں۔ 10جنوری 1920ء کو مجلسِ اقوام’’ League of Nations‘‘اور24 اکتوبر 1945ء کو اقوامِ متحدہ’’ United Nations‘‘کی تشکیل ہوئی۔ یہ دونوں عالمی ادارے یہودیوں کی مرضی کے تابع قائم ہوئے، اِسی لیے اِن اداروں نے یہودیوں کی مرضی کے بڑے ظالمانہ فیصلے کیے اور اب بھی کیے جا رہے ہیں۔
اِلیومینیٹی (Illuminati)اور فری میسن (Freemasson) جیسی بہت پُراسرار، وسیع اور طاقت وَر حلقہ رکھنے والی تنظیموں میں اِس وقت’’فری میسن‘‘ہمارا موضوع ہے۔ اس نے اپنے چہرے پر اِتنے پردے ڈال رکھے ہیں کہ اصل چہرہ کُھل کر سامنے نہیں آتا۔ اِس تنظیم کی کئی علامتیں، نشانیاں، رسمیں اور روایات یہودیت سے ماخوذ ہیں، لیکن یہ کُھلا اعتراف نہیں کرتی کہ یہ یہودی شجر کا پھل ہے۔
1929 ء میں ایک فاضل محقّق، لیون ڈی پونسن(Leon de Poncin کی کتاب’’The Secret Powers Behind Revolution:Freemassonary and Judaism‘‘ کے نام سے شائع ہوئی، جس میں مصنف نے واضح کیا کہ انقلابِ فرانس اور اُس کے بعد رُونما ہونے والے انقلابات کے پیچھے یہودیت ہی کا ہاتھ رہا ہے۔ ایک عربی میں ترجمہ شدہ کتاب’’یہودیۃ ورا کلِ جریمۃ‘‘ کافی عرصہ پہلے نظر سے گزری تھی، اُس میں بھی انقلابِ فرانس، روس میں بالشویک انقلاب اور دیگر کئی بڑے واقعات کے پیچھے یہودی ہاتھ کا ذکر کیا گیا تھا۔یہ تنظیم قدیم تہذیبوں کے بڑھئیوں اور معماروں سے اپنی نسبت جوڑتی ہے اور اپنے آپ کو’’ masson ‘‘کہتی ہے۔
سولھویں صدی میں صنعتی انقلاب کا آغاز ہوا اور واضح قرائن نظر آ نے لگے تھے کہ برطانیہ ہی جدید مادہ پرست تہذیب کا امام و پیشوا بنے گا۔ پروٹسٹنٹ مذہب کی بنیاد تو جرمنی کے مارٹن لوتھر کنگ نے رکھی تھی، لیکن رومن کیتھولک مذہب سے سرکاری طور پر سب سے پہلے برطانیہ نے تعلق توڑا اور1530 ء کے عرصے میں ہنری ہشتم کے دَور میں برطانیہ میں مذہبی اصلاحات کے نام پر’’چرچ آف انگلینڈ‘‘ قائم ہوا۔
فری میسن تنظیم کا پہلا’’ گرینڈ لاج‘‘24 جون 1717عیسوی میں لندن کے سینٹ پال چرچ کے احاطے میں قائم ہوا تھا۔اِس طرح برطانیہ اِس تنظیم کا پہلا گھر اور پہلا پیروکار بنا۔ واضح رہے کہ سینٹ پال ہی نے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی تعلیمات کی شکل بگاڑ کر عیسائیت کو ’’پال ازم‘‘ میں ڈھالا تھا۔
برطانیہ کے بادشاہ جیمز ششم، جارج چہارم، ولیم چہارم، ایڈورڈ ہفتم اور جارج ششم اِس تنظیم کے باضابطہ رُکن تھے۔ جارج ششم نے اِس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ شاہی خاندان کی روایت قائم رکھتے ہوئے اُن کا داماد، شہزادہ فلپ، فری میسن کی سرپرستی جاری رکھے گا۔ فلپ نے1952ء میں نیوی کے لاج نمبر2612 کے’’عبادت گزار ماسٹر‘‘ کا حلف اُٹھایا تھا۔ اسکنڈے نیویا اور شمالی یورپ میں بھی اِس تنظیم سے تعلق رکھنے والے بادشاہ موجود تھے۔
موجودہ شاہ چارلس ثالث سے متعلق تصدیق نہیں ہو سکی کہ وہ اِس تنظیم سے وابستہ ہیں یا نہیں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا کے تمام بانی مبانی، جنگِ آزادی کے ہیرو اور تقریباً تمام منتخب صدور اِس تنظیم سے وابستہ رہے ہیں۔ آنجہانی جان ایف کینیڈی، رومن کیتھولک عقیدے سے تعلق کی وجہ سے اِس تنظیم کے رُکن نہیں بنے تھے، لیکن سابق صدر جوبائیڈن نے رومن کیتھولک چرچ کا پیروکار ہونے کے باوجود اِس تنظیم کی رُکنیت اختیار کر رکھی ہے۔چوں کہ فری میسن تنظیم کی رگوں میں یہودی خون گردش کرتا ہے، اِس لیے اس کے رُکن بننے والے تمام امریکی صدور اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد سے صیہونی مقاصد کی تکمیل میں مددگار بنتے چلے آ رہے ہیں۔
فری میسن تنظیم اپنے دعوے کے مطابق ایک غیر مذہبی تنظیم ہے، جس کا مقصد روشن خیالی، خیرات اور دیانت داری کی قدریں پھیلانا ہے۔اس سے وابستہ ہونے والے افراد کے مختلف درجے مقرّر ہیں۔ پہلا درجہ ’’نوآموز‘‘ (Entered Apprentice)، دوسرا ’’ دوست یا ساتھی‘‘ (Fellow Craft)اور تیسرا درجہ’’ استاد میسن‘‘ (Master Masson)کا ہے۔ پہلے درجے کے تنظیمی مرکز کو لاج کہا جاتا ہے۔ان لاجز میں وہ آپس میں ملتے ہیں۔
سب سے زیادہ راز داری اُن کے ملنے جُلنے، ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے اور متعارف ہونے کے عجیب طریقوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ بات چند روز قبل اسرائیلی وزیرِ اعظم کی وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ٹرمپ سے ہاتھ ملانے کے انداز سے بھی ہمیں یاد آئی۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیاتِ طیّبہ میں مستقبل کے لیے بہت سی پیش گوئیاں فرمائی تھیں۔ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید مسلمان اُن پر اِتنا ایمان نہیں رکھتے، جتنا ’’ایمان‘‘یہودی رکھتے ہیں۔ محمد قطبؒ نے اپنی ایک کتاب میں ’’شجرۃُ الغرقد‘‘ والی حدیث کا ذکر کیا تھا کہ حضور ﷺ نے فرمایا۔ ’’قیامت اُس وقت تک قائم نہیں ہوگی، جب تک تمہارا یہودیوں سے آخری معرکہ نہ ہو جائے گا۔ اس معرکے میں یہودی جان بچانے کے لیے درختوں اور پتھروں کے پیچھے چُھپیں گے۔ غرقد کے درخت یا پودے کے سِوا ہر درخت اور پتھر پکار کر کہے گا کہ’’اے مسلمان! یہ میرے پیچھے ایک یہودی چُھپا ہوا ہے۔‘‘(صحیح مسلم)
یعنی یہ درخت یا پودا یہودی کو پناہ دے گا۔ محمّد قطب ؒ نے لکھا تھا کہ یہودیوں کا اِس حدیث پر اِتنا یقین ہے کہ اپنے گھروں کے صحنوں اور دالانوں میں یہ خاص درخت یا پودا بڑے اہتمام سے اُگاتے ہیں، جو اُن کے خیال میں’’غرقد‘‘ ہے۔ ’’دجّال‘‘ کے ظاہر ہونے اور اُس کے ساتھ اہلِ ایمان کی جنگ سے متعلق بھی احادیث روایت ہوئی ہیں۔
ہمارا موضوع دجّال نہیں، فری میسن ہے، لیکن چوں کہ اِس تنظیم کا یہودیوں سے گہرا تعلق ہے، اِس لیے ضمناً دجّال کا ذکر خود بخود نکل رہا ہے۔ دجّال سے متعلق ایک صحیح حدیث ہے کہ وہ ایران کے شہر اصفہان سے ظاہر ہوگا اور ستّر ہزار سبز پوش یہودی اُس کے لشکر میں شامل ہوں گے۔
اصفہان، ایران کا ایک بہت بڑا کاروباری مرکز ہے، جس میں مال دار یہودیوں کی کم و بیش اِتنی ہی تعداد آباد ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہی یہودی دجّال کے لشکر میں شامل ہوں گے، البتہ جیسا کہ حدیثِ پاک سے ظاہر ہے کہ دجّال کا ظہور اصفہان سے ہو گا اور یہودی اُس کے معاون و مددگار ہوں گے۔
دو خواتین اسکالرز، ڈاکٹر حافظہ بریرہ حمید اور آمنہ علی کا ایک مشترکہ تحقیقی مقالہ، بعنوان’’ Zionism and Freemassonary: A Research Review‘‘ میں اِس تنظیم کے مقاصد پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے کہ یہ اپنے آپ کو رفاہِ عامّہ کے لیے کام کرنے والی تنظیم کے طور پر متعارف کرواتی ہے، لیکن یہ خالص یہودی مقاصد کے ساتھ پُراسرار انداز میں کام کرتی ہے۔
یہ اُس ’’دجّال‘‘ کے لیے ذہن سازی کرتی اور میدان ہم وار کرتی ہے، جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے پیش گوئیاں فرمائی تھیں کہ وہ مستقبل میں کسی وقت ظاہر ہوکر ایک’’ دجّالی ریاست‘‘ قائم کرے گا۔ ’’دجّال‘‘ کا کردار ہمارے یہاں جتنا مکّار، ظالم اور حق دشمن ہے، یہودیوں کے ہاں وہ اُسی قدر محترم و مقبول ہے اور صیہونیت اُسی شیطانی منصوبے کا ایک حصّہ ہے۔
اسرائیل گویا کہ ایک لحاظ سے وہی دجّالی ریاست یا اُس کے لیے میدان صاف کرنے والا ایک معاون مُلک ہے۔ کراچی، لاہور اور راول پنڈی میں فری میسن تحریک کے لاجز قائم تھے، جن پر 1972ء میں ذوالفقار علی بھٹّو کی حکومت نے پابندی عاید کر دی تھی، لیکن ’’لاجز‘‘ پر پابندی کا یہ مطلب نہیں کہ فری میسن ختم ہوگئے۔
چوں کہ یہ ایک خفیہ تنظیم ہے، اِس لیے اِس کی سرگرمیاں کئی پردوں میں جاری رہتی ہیں۔ اکثر مسلمان ممالک کی حُکم ران اشرافیہ، اعلیٰ فوجی و سِول افسران، اونچے کاروباری طبقے، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں میں یہ اپنی جڑیں پھیلاتی ہے۔ پاکستان کے شہر لاہور میں اس کا ایک ’’لاج آف ہوپ اینڈ پریزرونس‘‘ 1859ء میں قائم ہوا اور دوسرا ’’ایمرلڈ آئیزل‘‘ تعمیر ہوا تھا۔
پنجاب کے جاگیردار طبقے کے لیے ان کی رُکنیت میں بڑی کشش تھی۔ظاہر ہے کہ پنجاب کی کئی اہم شخصیات اس کی رُکن بنی ہوں گی۔ مذہبی شخصیات بھی اس کے جال میں پھنستی ہیں۔ یہ بات ہم سمیت بے شمار عقیدت مندوں کے لیے موجبِ حیرت اور باعثِ صدمہ ہے کہ اُمّتِ مسلمہ کی ایک انتہائی عظیم، محترم اور مقبول شخصیت، سیّد جمال الدّین افغانی اور مصر سے تعلق رکھنے والے اُن کے شاگرد، مفتی محمّد عبدہٗ نے بھی مصر کے ایک ’’لاج‘‘ میں باقاعدہ حلف اُٹھا کر اِس تنظیم کی رُکنیت اختیار کی تھی۔ تاہم ،کہا جاتا ہے کہ بعد میں اس کے اصل مقاصد سے آگاہ ہو کر دونوں نے اس سے علیٰحدگی اختیار کر لی تھی۔
فورٹ ولیم کالج، کلکتہ، ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیرِ اہتمام قائم ہونے والا ادارہ تھا، جس کا ایک مقصد مشرقی علوم کی ترویج اور انگریز افسران کو ہندوستانی زبانیں (خاص طور پراردو) سِکھانا تھا۔ مولانا محمّد حسین آزاد جیسے اُردو کے اساطین اِس کالج سے وابستہ رہے تھے، لیکن یہ بھی یاد رکھنے والی بات ہے کہ 1719ء میں فری میسن تنظیم کا پہلا صوبائی گرینڈ لاج اِسی کالج میں قائم ہوا تھا۔ مولانا محمّد حسین آزاد تشبیہات و استعارات سے مزیّن اپنی خُوب صُورت اردو تحریر کی وجہ سے جدید اردو کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں، لیکن ملّی حیثیت میں اُن کے کردار پر کئی پردے پڑے ہوئے ہیں۔
علمی و ادبی مذہبی شخصیات کی بات چلی، تو یہ بھی بتا دیا جائے کہ انیسویں صدی کے اواخر میں نبوّت کا جھوٹا دعویٰ کر کے انگریزی سرکار کے مقاصد میں معاون بننے والے، مرزا غلام احمد قادیانی کا ابتدائی تعارف ایک عالِمِ دین اور مذہبی شخصیت کا تھا۔ وہ بھی فری میسن کا رُکن بنا تھا۔
سیّد احمد شہید ؒ کی تحریکِ جہاد کو اگرچہ سِکھوں کے ہاتھوں بڑی زک پہنچی تھی، لیکن وہ تحریک ابھی زندہ تھی اور اُس کا رُخ برطانوی سام راج کے خلاف ہو گیا تھا، عین اِس حالت میں جہاد جیسی عبادت کو دینِ اسلام سے خارج قرار دینے والے قادیانی امام نے انگریز سرکار سے وفاداری کا حق ادا کیا۔ بہت سی بااثر شخصیات اس کے پیروکاروں میں شامل ہوئیں، جن کا بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق فری میسن سے قائم ہوا۔
غلام احمد قادیانی نے، جس نے پہلے ’’محدّث‘، پھر ’’مسیحِ موعود‘‘ اور1901 ء میں نبی ہونے کا دعویٰ کیا تھا، سرکارِ برطانیہ کی خوش نُودی کے لیے بڑے پاپڑ بیلے تھے۔ اُس نے 1899ء میں ملکۂ برطانیہ کی شان میں ایک پمفلٹ بعنوان ’’ستارۂ قیصریہ‘‘ لکھا تھا، جس کے اوپر والے بائیں کونے میں ایک دوسرے کو عبور کرتی ہوئی دو تکونوں والا فری میسن نشان بطور اہتمام شائع کیا تھا۔
بعدازاں، قادیانی مسلسل وضاحتیں کرتے رہے ہیں کہ اِس سے مُراد تمام مذاہب کا اتحاد ہے، لیکن مسیحت اور اسلام میں اتحاد کا یہ خیال اُسے اُس وقت آرہا تھا، جب عیسائی مِشنریز نے برّعظیم اور دیگر برطانوی مقبوضات میں اسلام اور رسول اکرم ﷺ کے خلاف ایک مکروہ مہم چلا رکھی تھی۔ (مضمون نگار، لگ بھگ 40 برس تک شعبۂ تعلیم سے وابستہ رہے۔ معروف مذہبی اسکالر اور کئی کتب کے مصنّف ہیں)