پاکستان، پانی کی شدید کمی کا سامنا کرنے والے ممالک میں سرِفہرست ہے۔ قلت کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قیامِ پاکستان کے وقت ملک میں پانی کی دست یابی 5ہزار چھے سو پچاس کیوبک میٹر فی کَس تھی، لیکن اب یہ ایک ہزار کیوبک میٹر سے بھی کم رہ گئی ہے۔
ملک کی64فی صد دیہی آبادی کا روزگار زراعت سے وابستہ ہونے کی وجہ سے یہ شعبہ پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے لہٰذا اکثر قلّتِ آب کے سبب صوبوں میں کشیدگی کی فضا پیدا ہوجاتی ہے اور ہمارا حریف بھارت، اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھاکر اوچھے ہتھکنڈوں پر اُترآتا ہے، جب کہ اس بار تو اُس نے حد ہی کردی، اُس کی انتہا پسند قیادت نے رواں برس اپریل میں64سال قبل طے پانے والا نہری پانی کی تقسیم کا معاہدہ ’’سندھ طاس‘‘ معطل کرکے پاکستان کے حصّے کے پانی پر قبضے کااعلان کردیا۔ حالاں کہ معاہدے کے مطابق، فریقین میں سے کوئی بھی یہ معاہدہ یک طرفہ طور پر ختم نہیں کرسکتا۔
برِعظیم کی جغرافیائی تقسیم کے 12برس بعد 1960ء میں دریاؤں کی تقسیم کا ’’سندھ طاس معاہدہ‘‘ کیوں اور کیسے ہوا؟ آئیے، جائزہ لیتے ہیں۔ دراصل، اس معاہدے کا تعلق برطانوی راج کے برِعظیم پاک و ہند کی غیرمنصفانہ تقسیم سے ہے۔ اگست 1947ء میں ہندوستان کی تقسیم کے وقت دریائے سندھ کے پانچ میں سے تین معاون دریا، بیاس، راوی اورچناب بھارتی حدود سے گزر کر پاکستان میں داخل ہوتے تھے۔ ستلج اور جہلم کا کنٹرول بھی بھارت کے پاس تھا۔
کوہِ ہمالیہ سے نکلنے والا دریائے سندھ، مقبوضہ کشمیر سے گزرتا ہے اور دریائے جہلم، مقبوضہ کشمیر سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان دریاؤں کے نشیبی حصّے میں قائم ہوا اور دو بڑی نہروں کے ہیڈ ورکس بھارتی علاقے میں تھے۔
سو، آزادی کے چند ماہ بعد ہی بھارت نے قانونی موشگافیوں کا سہارا لیتے ہوئے یہ دعویٰ کردیا کہ چوں کہ دریاؤں کے بالائی حصّے اُس کے پاس ہیں، لہٰذا وہ اپنی مرضی سے جس طرح چاہے، پانی استعمال کرسکتا ہے۔ اور پھر اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے یکم اپریل1948ء کو اس نے پہلی مرتبہ پاکستان کی سینٹرل باری دوآب اور دیپال پور نہر کے لیے پانی کی رسد بند کردی۔
اس یک طرفہ کارروائی سے پاکستان کی وسیع زرعی اراضیوں کے بنجر ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا، تو اُس وقت کے وزیراعظم پاکستان، خان لیاقت علی خان نے فوری طور پر ایک اعلیٰ سطحی وفد نئی دہلی بھیجا، جہاں4مئی 1948ء کو نہری پانی تنازعے پرعارضی معاہدہ طے پایا۔ پاکستان کی جانب سے وزیرخزانہ، غلام محمد، سردار شوکت حیات خان اور میاں ممتاز خان دولتانہ، جب کہ بھارت کی طرف سے وزیرِاعظم پنڈت جواہر لعل نہرو، نرنجن داس گلہاٹی این ڈی گیڈگل اور سردار سورن سنگھ نے دستخط کیے۔
معاہدے کے بعد نہروں کا پانی تو بحال ہوگیا، لیکن بھارت نے تین مشرقی دریاؤں راوی، بیاس اور ستلج پر ملکیت کا دعویٰ کرکے محاذ کھڑا کردیا۔ جس کے بعد 18مئی 1948ء کو پاکستان نے جلو کے قریب پہلی نہر، بمباں والا راوی بیدیاں دیپال پور لنک (بی آر بی) کی تعمیر کا آغاز کرکے دوطرفہ گفتگو بھی شروع کردی۔ سخت مطالبات اور کئی مرتبہ پانی روکنے کی بھارتی کوششوں کے درمیان یہ گفتگو بے نتیجہ رہی، تو یہ معاملہ بین الاقوامی حیثیت اختیار کر گیا۔
1951ء میں طاس ویلی اتھارٹی کے سابق چیئرمین، مسٹر ڈیوڈ لی ایتھنیل کا ایک مضمون امریکی میگزین میں شائع ہوا، جس میں انہوں نے اپنی رائے دیتے ہوئے پاکستان اور بھارت کو مشورہ دیا کہ ’’آبی تنازعے کے حل کے لیے اپنی مشترکہ فنی ماہرین کی ٹیم کے ذریعے واٹر سسٹم کو ترقی دیں۔
نیز، جامع منصوبے بنائیں۔ اس مقصد کے لیےعالمی بینک ضروری تعمیرات کےلیے مالی امداد کا وعدہ کرے، تو ممکن ہے، تنازعے کا تصفیہ ہوجائے۔‘‘ مضمون کے ردِّعمل میں عالمی بینک کے صدر، یوجین آر بلیک نے دونوں ممالک کو پیش کش کی کہ وہ عالمی بینک کی مساعی سے سندھ کے پانی پر اختلافات طے کرسکتے ہیں۔
1952ءمیں دونوں ممالک کی تجویز قبول کرنے کے بعد جنرل ڈیمونڈ کی نگرانی میں بھارت، پاکستان اور عالمی بینک کے انجینئرز کی ٹیم نے مشترکہ طور پر اگلے دو سال تک جامع منصوبے پر کام کرنے پر غور شروع کردیا۔ تاہم، اتفاقِ رائے پھر بھی نہ ہوسکا۔ 13فروری1954ء میں عالمی بینک نے تین بنیادی نکات پر مشتمل اپنا منصوبہ پیش کیا۔
اوّل، تین مشرقی دریاؤں، یعنی ستلج، بیاس اور راوی کا پانی بھارت استعمال کرےاور تین مغربی دریاؤں، یعنی سندھ، جہلم اور چناب کاپانی سوائے ریاست جموں و کشمیرمیں معمولی استعمال کے، پاکستان کے لیے مخصوص ہونا چاہیے۔ دوم، ایک عبوری مدّت کے دوران پاکستان کے مشرقی دریاؤں پر انحصار کرنے والے علاقوں میں مغربی دریاؤں سے رسد لانے کے لیے متبادل تعمیرات کی جائیں۔
عبوری مدّت میں بھارت کو ایک متفقہ جَدول کے مطابق، مشرقی دریاؤں سے پانی کی رسد جاری رکھنی چاہیے۔ سوم، پانی کے اس فائدے کے تناسب سے جو تاریخی لحاظ سے پاکستان کو ملتا تھا، بھارت اپنے استعمال میں لانےاور اس کے فوائد کے مطابق متبادل تعمیرات کے مصارف برداشت کرے۔ ابتدا میں خیال تھا کہ متبادل تعمیرات میں صرف داخل ہونے والی نہروں کی تعمیر ہوگی، لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ اس ضمن میں پانی کے ذخیرہ گاہوں کی بھی ضرورت ہوگی۔
بھارت نے بینک کی تجویز مشروط طور پر قبول کرلی تھی، لیکن پاکستان نے آب پاشی کے لیے پانی کی نئی ذخیرہ گاہوں پر تحفّظات کے سبب انکار کردیا۔ تاہم، اگلے چارسال سے زائد عرصے تک دونوں ممالک کے واشنگٹن میں مذاکرات جاری رہے۔ وزیراعظم لیاقت علی خان سے فیروز خان نون تک سات وزرائے اعظم کی حکومتیں اس معاملے پر سنجیدگی سے مصروفِ عمل رہیں۔
اس دوران پاکستان نے یہ تو تسلیم کیا کہ وہ ان نہروں کے لیے پانی کی رسد بتدریج کم کرے گا اور مغربی پنجاب کے لیے پانی کے متبادل ذرائع تلاش کرے گا، لیکن بھارت کو تین دریادینے پر فیصلہ محفوظ رکھا۔ مستقبل کے خدشات کے سبب پاکستان کی سول قیادت پھونک پھونک کرقدم رکھ رہی تھی۔ اس معاملے پر سیکریٹری پانی و بجلی نرنجن داس گلہاٹی، بھارتی وفد، جب کہ قدرتی وسائل کے سیکریڑی، جی معین الدین پاکستانی وفد کی قیادت کررہے تھے اور مسٹر ڈبلیو اے بی ایلیف، عالمی بینک کی نمائندگی کررہے تھے۔
اکتوبر1958ء میں پاکستان میں نظامِ حکومت بدلنے کے بعد آرمی چیف، جنرل ایوب خان ریاستی فیصلوں کی ذمّے دار بن گئے تھے۔ دوسری طرف تجربہ کار سیاست دان جواہر لعل نہرو، بھارت کے وزیراعظم تھے۔ بہرکیف، 8دسمبر1958ء سے واشنگٹن میں بات چیت کا نیا دَور شروع ہوا۔ اس موقعے پر پاکستان نے تجویز پیش کی کہ ’’امریکا، برطانیہ ،کینیڈا اور آسٹریلیا پر مشتمل گروپ بھارت و پاکستان کے ساتھ بارہ سالہ میعاد پر مبنی پانی کی تقسیم کی 72کروڑ ڈالرز کی اسکیم کا فیصلہ کرے۔
نیز، عالمی بینک دونوں ممالک کو چوبیس چوبیس کروڑ ڈالرز قرض دے، جسے دونوں ملک دو کروڑ ڈالر سالانہ کی شرح سے ادا کرسکیں اور چار ممالک کا کنسورشیم باقی 24کروڑ ڈالر باہمی اقتصادی پروگرام کے تحت دیں۔‘‘ لیکن بھارت نے پاکستانی تجاویز مستردکردیں اور کہا کہ ’’پاکستان، نہروں کی تعمیر اور پانی کے ذخیرے کے لیے بہت بڑی رقم کا مطالبہ کررہا ہے۔‘‘
تاہم، امریکی دل چسپی سے ایوب حکومت کے ابتدائی چند ماہ ہی میں بات چیت میں تیزی سے پیش رفت ہونے لگی۔21اپریل 1959ء کو بھارتی وزیرِ آب پاشی، جے سکھ لعل نے راجیہ سبھا میں بتایا کہ ’’پاکستان نہری پانی پر1954ءکی عالمی بینک کی تجاویز پر رضامند ہوگیا ہے۔‘‘ ادھر،18مئی1959ء کو صدر عالمی بینک، یوجین بلیک نے کراچی میں اعلان کیا کہ ’’نہری پانی کا تنازع طے کرنے کےلیے عالمی بینک کی تجاویز پاکستان نے منظور کرلی ہیں۔‘‘
جس کے بعد عالمی بینک نے تعمیراتی مصارف کے لیے دوست ممالک سے مالیاتی تعاون حاصل کرنے کے منصوبے پر کام شروع کردیا اور اسی برس اگست کے مہینے میں ترقیاتی فنڈ قائم کرنے پر اتفاق رائے بھی ہوگیا۔ منصوبے کی تفصیلات طے کرنے کے لیے قریباً ایک برس واشنگٹن، لندن، کراچی اور نئی دہلی میں مذاکرات کے کئی دَور ہوئے۔ آخرکار اگست1960ء کے دوسرے ہفتے نائب صدر، عالمی بینک نے دونوں ممالک کا دورہ کیا۔
بھارت نے11اگست1960ءکو نہری پانی مصالحتی فارمولے کی منظوری پر آمادگی کا اظہار کردیا۔ جس کے بعد نائب صدر عالمی بینک، صدر ایوب خان اور نہری پانی کمیٹی میں شامل تین مرکزی وزراء، وزیرِخزانہ محمد شعیب، وزیرِخارجہ منظور قادر اورقدرتی وسائل کے وزیر، ذوالفقار علی بھٹوکے ساتھ سمجھوتے کی آخری تفصیلات طے کرنے پاکستان پہنچ گئے۔ بات چیت مکمل ہوتے ہی معاہدہ واشنگٹن میں چھپنا شروع ہوگیا۔
4 ستمبر1960ءکو صدر ایوب خان نے ریڈیوپاکستان پراپنے نشری خطاب میں ’’سندھ طاس معاہدے‘‘ سے متعلق قوم کو آگاہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’نہری پانی کے معاہدے کے بعد مسئلہ کشمیربھی فوری طور پر حل ہونا چاہیے، معاہدے کے بعد مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا موقف زیادہ حقیقت پسندانہ سمجھا جائے گا، اب ہمیں صرف تین مغربی دریاؤں کے پانی پر اکتفا کرنا پڑے گا۔
اس حقیقت سے اس بات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے، ہمیں ان دریاؤں کے سوتوں اور بالائی وادیوں پر کنٹرول حاصل ہو، تاکہ ہم مغربی پاکستان کی بڑھتی ضرورتوں کے لیے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاسکیں، کیوں کہ آزادی کے وقت برِعظیم کی تقسیم سے جو مسائل پیدا ہوئے، اُن میں سے ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے۔ آب پاشی کے بڑے ہیڈورکس بھارتی علاقے میں رہ گئے تھے اوربھارت نے ہماری نہروں کا پانی بند کردیا تھا، جس کی وجہ سے پاکستان کو زبردست بحران کا سامنا تھا، بعض شرطوں پرجو پانی دیا گیا، اس پر ہمیں مجبوراً راضی ہونا پڑا۔
اس کے بعد ہم نےعالمی بینک سے مسئلہ حل کرنے کی درخواست کی۔‘‘ 10ستمبر 1960ء کو نہری پانی تقسیم کے منصوبے کی کابینہ سے منظوری کے اعلان کے بعد19ستمبر 1960ء کوبھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو تیسری مرتبہ5روزہ دورے پر پاکستان آئے۔ بھارتی وفد، نائب وزیرآب پاشی، حافظ محمد ابراہیم، جے سنگھ لعل ہتھی، کامن ویلتھ سیکریٹری ایم جے ڈیسائی اور نہری پانی مذاکرات کے بھارتی انچارج،نرنجن داس گلہاٹی اور سینئر افسران پر مشتمل تھا۔
صدر جنرل ایوب نے کراچی ائرپورٹ پر اُن کا استقبال کیا اور 19ستمبرکی شام ساڑھے سات بجے ایوانِ صدر میں سندھ طاس بین الاقوامی سمجھوتے پر صدر ایوب خان ،پنڈت جواہر لعل نہرو اور عالمی بینک کے نائب صدر ڈبلیو اے بی ایلیف نے دستخط کردیئے۔ سمجھوتے کا نفاذ یکم اپریل 1960ءسے ہوا۔
مذکورہ سمجھوتے کے ساتھ مزید تین معاہدے بھی ہوئے۔ ایک، انڈس بیس ڈیویلپمنٹ فنڈ ایگریمنٹ، جس پر برطانوی انڈر سیکریٹری، مسٹر تھامسن امریکا، جرمنی، آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ کے سفارتی نمائندوں، نائب صدر عالمی بینک اور پاکستان کے وزیرخزانہ نے دستخط کیے۔
دوسرا، معاہدہ عالمی بینک کے ساتھ قرض کا اور تیسرا امریکی ترقیاتی فنڈ کا تھا۔ ان تینوں معاہدوں پر وزیرِخزانہ محمد شعیب نے دستخط کیے۔ اس موقعے پرنائب صدر عالمی بینک، ڈبلیو اے بی ایلیف نے اپنے خطاب میں کہا۔ ’’پاکستان اوربھارت کے عوام، خصوصاً کاشت کاروں کے لیے یہ یادگار دن ہے۔‘‘ امریکی سفیر، ولیم راؤٹری نے معاہدے کو بڑی کام یابی قرار دیتے ہوئے کہا۔ ’’منصوبے پر مالی معاونت کرنے والے چھے ممالک امریکا، برطانیہ، جرمنی، آسٹریلیا، کینیڈا اور نیوزی لینڈ کا تعلق تین مختلف براعظموں سے ہے، جو چوتھے براعظم کے دو پڑوسی ممالک کے عظیم منصوبے میں مدد کررہے ہیں، اس میں عالمی بینک اور اس کے 68اراکین کی امداد بھی شامل ہے۔‘‘پنڈت نہرونے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’مَیں اس جذبے کا خیرمقدم کرتا ہوں، جس کی وجہ سے ہم تمام مشکلات اور رکاوٹوں پر قابو پانے میں کام یاب رہے۔‘‘
جب کہ صدر پاکستان، محمد ایوب خان نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’تعاون کے جذبے سے کام لیا جائے، تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے تمام مسائل حل نہ ہوسکیں۔‘‘ امریکا میں اس معاہدے پر انتہائی مسّرت کا اظہار کیا گیا۔ اُس وقت وہاں صدارتی انتخابی مہم چل رہی تھی۔اس دوران ڈیموکریٹ امیدوار، جان ایف کینیڈی اور اُن کے نائب، ری پبلکن امیدوار،رچرڈ نکسن، اُن کے نائب اور کئی سینیٹرز کا دستخط شدہ اشتہار ’’نیویارک ٹائمز‘‘ میں شائع ہوا۔ جس میں کام یاب معاہدےپر اُن کی جانب سے صدر ایوب اور پنڈت نہرو کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔
اگرچہ سندھ طاس معاہدے پر 19ستمبر 1960ء کو دستخط ہوئے، تاہم اس کا اطلاق اپریل1960ءسے کیا گیا۔ معاہدے کے تحت بھارت کومشرقی دریاؤں بیاس، راوی اور دریائے ستلج کے پانی پرمکمل، جب کہ پاکستان کو مغربی دریاؤں سندھ، چناب اور جہلم کے پانی پر اختیار دیا گیا۔
ان دریاؤں کے 80فی صدپانی پر پاکستان کا حق، جب کہ بھارت کو مغربی دریاؤں کے بہتے پانی سے بجلی پیدا کرنے کا حق دیا گیا۔ ساتھ ہی یہ شق بھی رکھی گئی کہ بھارت پانی ذخیرہ کرنے یا اس کا بہاؤ کم کرنے کے منصوبے نہیں بنا سکتا۔ تاہم، اسے مشرقی دریاؤں راوی، بیاس اور ستلج پر کسی بھی قسم کے منصوبے تعمیر کرنے کا حق حاصل ہے، جس پر پاکستان اعتراض نہیں کر سکتا۔
پاکستان میں آب پاشی منصوبے کے حوالے سے تعمیراتی اخراجات سندھ طاس معاہدے کے ترقیاتی فنڈ سے کیے جانے تھے۔ تین دریاؤں سے دست برداری کے بعد ان علاقوں میں پانی کی فراہمی کےلیے 5ارب روپے کی لاگت سے متبادل نہری تعمیرات پر پاکستان کے70کروڑ روپے کے اخراجات طے ہوئے، باقی رقم عالمی بینک، امریکا، برطانیہ، کینیڈا، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، جرمنی اور بھارت کوفراہم کرنی تھی۔
لہٰذا معاہدے کے تحت تقریباً90کروڑ ڈالر سے سندھ طاس کا ترقیاتی فنڈ قائم ہوا،جس میں64کروڑ ڈالرز شریک حکومتوں کو دینے تھے۔ تعمیراتی کام کی ذمّے داری ویسٹ پاکستان واپڈا کو دی گئی اور نہری پانی معاہدے کے تحت پاک، بھارت نمائندوں پر مشتمل ایک مستقل انڈس کمیشن بھی قائم کیا گیا، جس کا کام معاہدے کے نفاذ کی نگرانی کرنا تھا۔ تین دریاؤں سے دست برداری، گرچہ آسان فیصلہ نہیں تھا، لیکن پاکستان نے خطّے اور عالمی امن کی خاطر یہ کڑوا گھونٹ بَھرلیا۔
دوسری طرف مسئلۂ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں ہوں یا سندھ طاس معاہدے میں عالمی بینک کی ثالثی، بھارت نے ہمیشہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا۔ بہرحال، اس تمام تر تناظر میں اب عالمی برادری کی ذمّے داری بنتی ہے کہ وہ بھارتی قیادت کوجنوبی ایشیا کا امن تباہ کرنے کے اقدامات سے باز رکھے۔