انڈیا میں ایک بیٹی کو باپ نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا اور پاکستان میں ایک باپ نے بیٹی کی لاش وصول کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ دو خبریں ہر کچھ دیر بعد میرے سامنے آ جاتی ہیں، میں اِن کی تفصیل پڑھتا ہوں اور لرز اٹھتا ہوں۔ رادھیکا کی عمر پچیس سال تھی، وہ ٹینس کھیلتی تھی، اپنے علاقے میں ٹینس کی اکیڈمی بھی چلا رہی تھی، انسٹا گرام پر مقبول ہو رہی تھی، کچھ کمائی بھی کر رہی تھی۔ گاؤں والے اُس کے باپ دیپک کو طعنے دیتے تھے کہ وہ بیٹی کی کمائی کھا رہا ہے، ایک روز وہ طیش میں آ گیا، بیٹی کچن میں کام کر رہی تھی، اُس نے ریوالور اٹھایا اور پے درپے پانچ گولیاں اپنی بیٹی کو مار دیں، تین گولیاں اُس معصوم کی پشت پر لگیں اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئی۔ باپ نے پولیس کے سامنے اعتراف جُرم کر لیا ہے۔ دوسری بیٹی پاکستان کی تھی، حمیرا اصغر نام تھا، اداکاری اور ماڈلنگ کا شوق تھا جس کی تکمیل کیلئے وہ لاہور سے کراچی منتقل ہو گئی تھی، گھر والوں نے عملاً قطع تعلق کر رکھا تھا، بات وہی کہ شریف گھرانے کی لڑکی ہو کر شوبز میں کیوں گئی۔ ماں کے عالمی دن کے موقع پر انسٹاگرام پہ نہایت محبت سے اپنی ماں کی تصویر لگائی اور بچپن کے دنوں کو یاد کیا جب وہ ماں کی گود میں کھیلا کرتی تھی۔ اِس حمیرا اصغر کی لاش آٹھ ماہ تک اُس کے اپنے فلیٹ میں گلتی سڑتی رہی، دنیا کو خبر نہ ہوئی، نہ خاندان میں سے کسی نے پروا کی کہ اُن کی بیٹی کس حال میں ہے۔ فلیٹ کا دروازہ توڑا گیا تو وہاں مردہ حالت میں پائی گئی، اُس کے گھر والوں سے رابطہ کیا تو باپ نے لاش وصول کرنے سے انکار کر دیا، تاہم بعد میں بھائی نے کراچی آ کر لاش وصول کی اور لاہور میں تدفین کی۔ جب سے میں نے یہ دونوں خبریں پڑھی ہیں میرے دماغ میں فلم چل رہی ہے۔ رادھیکا اپنے گھر کے کچن میں برتن دھو رہی ہے، اُس غریب کو کچھ پتا نہیں کہ چند لمحوں میں اُس کا اپنا باپ پستول لے کر آئے گا اور اسے پانچ گولیاں مار دے گا۔ جب رادھیکا کو اُس کے باپ نے گولیاں ماری ہوں گی تو ایک مرتبہ تو اُس بچی نے تڑپ کر باپ کی آنکھوں میں دیکھا ہوگا اور پوچھا ہوگا کہ آخر میرا قصور کیا ہے، مگر جواب ملنے سے پہلے ہی وہ اپنے بھگوان کے پاس چلی گئی۔ یہ کیسی دنیا ہے، یہ کیسا باپ ہے، والد تو اپنی بیٹیوں پر جان نچھاور کر دیتے ہیں، باپ تو بیٹیوں کیلئے پوری دنیا سے لڑ جاتے ہیں، یہ کون لوگ ہیں جو اِس قدر وحشی ہیں کہ بیٹیوں کو محض اِس بات پر قتل کر دیتے ہیں کہ وہ ذرا سی مرضی کیوں کر لیتی ہیں۔ حمیرا کا گناہ بھی یہی تھا، اپنی زندگی جینے کی کوشش کیوں کی! ایک باپ کو اطلاع ملے کہ اُس کی بیٹی کی لاش ملی ہے اور وہ جواب دے کہ میرا اُس سے کوئی تعلق نہیں، یہ بات کہنے سے پہلے اُس کا کلیجہ کیوں نہیں پھٹ گیا، کوئی اپنی بیٹی سے اتنی نفرت کیسے کر سکتا ہے، میں یہ بات سمجھنے اور سوچنے سے قاصر ہوں۔ شکر ہے کہ اُس کے بھائی نے کچھ Damage Control کیا اور بالآخر بہن کی تدفین کی مگر یہی بھائی اگر آٹھ ماہ پہلے کراچی آ جاتا تو وہ اپنی بہن کو زندہ سلامت دیکھ سکتا تھا، اُس کی آنکھوں میں خوشی دیکھ کر اُسے دعا دے سکتا تھا، مگر ’ہمیشہ دیر کر دیتے ہیں ہم!‘
نصرت فتح علی خان کا مشہور گاناہے ‘دُلہے کا سہرا سہانا لگتا ہے‘۔ اِس گانے سے متعلق ایک واقعہ مشہور ہے کہ گاتے گاتے خاں صاحب کی آواز بھرّا گئی اور انہیں کئی مرتبہ ری ٹیک کرنا پڑا، وجہ گانے کے بول تھے کہ ’میں تیری بانہوں کے جھولے میں پلی بابُل، جا رہی ہوں چھوڑ کے تیری گلی بابُل، خوبصورت یہ زمانے یاد آئیں گے، چاہ کے بھی ہم تمہیں نہ بھول پائیں گے...‘ کہتے ہیں کہ نصرت صاحب گاتے ہوئے بار بار رو پڑتے تھے، انہیں اپنی بیٹی یاد آ جاتی تھی، موسیقار نے کہا کہ خاں صاحب آج رہنے دیں، کسی اور دن ریکارڈ کر لیں گے، انہوں نے جواب دیا کہ اگر آج یہ گانا ریکارڈ نہ ہوا تو پھر کبھی نہیں ہو سکے گا۔ انسٹاگرام پر کسی نے اِس گانے کے ساتھ نصرت صاحب اور اُن کی لاڈلی بیٹی کی تصاویر لگائی ہیں جن میں وہ اُن کی گود میں بیٹھی کھیلتی نظر آ رہی ہے۔ میرے جیسے بندے کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ ایک اور منظر مجھے کبھی نہیں بھولتا۔ لاہور کی سب سے مہنگی شاہراہ پر، جسکے چاروں جانب بلند و بالا عمارتیں ہیں، جہاں امرا کھڑے کھڑے لاکھوں کی خریداری کرتے ہیں اور جہاں قطار اندر قطار بیش قیمت گاڑیاں نظر آتی ہیں، وہاں ایک غریب شخص سائیکل پر اپنی سال ڈیڑھ سال کی بچی کو بٹھائے آہستہ آہستہ جا رہا ہے، بچی دائیں بائیں حیرت سے لوگوں کو دیکھ رہی ہے، اُس کے چہرے پر مونا لیزا جیسی مسکراہٹ ہے، باپ کے چہرے پر اطمینان ہے مگر نہ جانے کیوں جب میں نے انہیں دیکھا تو کانپ اٹھا اور سوچنے لگا کہ کل کو جب اِس سفاک دنیا میں بچی کا باپ نہیں ہوگا تو ماں کے جیسی یہ ریاست اِس کے ساتھ کیا سلوک کرے گی، انسانوں کے بھیس میں بھیڑیوں سے یہ خود کو کیسے محفوظ رکھے گی، اِس بچی کا مستقبل کیا ہوگا! مجھے جھُرجھری سی آ گئی۔
ہم سب بھی کبھی بچے تھے، پھر بڑے ہوئے، اپنے ماں باپ کی حکم عدولیاں بھی کیں اور اپنی من مانیاں بھی کیں، کیا اِس جُرم کی پاداش میں والدین کو بچوں سے ناطہ توڑ لینا چاہیے؟ ہر گز نہیں، بلکہ سچ کہوں تو ماں باپ اپنی مرضی سے اولاد پیدا کرکے اسے دنیا میں لاتے ہیں، اُن کا تا زندگی فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے بچے اور بچی کے ناز نخرے اٹھائیں، بچے اگر جواباً والدین کی خدمت کریں تو بہت اچھا اور اگر نہ بھی کریں تو کوئی گلہ نہیں۔ ہمارے بچے بچیاں اپنی مرضی کی زندگی جینا چاہتے ہیں تو ہمیں اُن کے راستے کی رکاوٹ نہیں بننا، ہمارا کام صرف برا بھلا سمجھانا ہے اور وہ بھی اُس وقت تک جب تک وہ بالغ نہ ہو جائیں، کیونکہ آخر ایک دن وہ بھی اسی طرح سمجھدار ہو جاتے ہیں جس طرح ہم خود کو سرد و گرم چشیدہ سمجھتے ہیں۔ اور بیٹیوں کی تو بات ہی اور ہے، انہیں تو صرف خود مختار بنانا چاہیے تاکہ آپ کے بعد وہ اِس دنیا میں سر اٹھا کے جی سکیں۔ میرے الفاظ تو یہاں کم پڑ گئے، مربّیٰ اظہار الحق سے جملہ مستعار لینا پڑے گا: ’’سفر سے واپسی پر پہلا گھر جس میں مقدس قدم پڑتے، فاطمہ زہراؓ کا ہوتا۔ نکلتے وقت آخری تشریف آوری وہاں ہوتی۔ آتیں تو دو جہانوں کے سردار کھڑے ہو جاتے۔‘‘ اِس سے زیادہ اور میں کیا کہوں!