سب سیاستدان لیڈر نہیں ہوتے ۔ سب لیڈر سیاستدان نہیں ہوتے۔ ان بخشے ہوئے لوگوں کی اپنی اپنی پہچان ہوتی ہے۔ان کی اپنی شناخت ہوتی ہے ۔ ضروری نہیں کہ آپ کسی ایسے سیاستدان کو جانتے ہوں جو کبھی لیڈر بھی رہ چکا ہو۔ عین اسی طرح ضروری نہیں کہ آپ کسی ایسے لیڈر سے واقف ہوں جو سیاستدان رہ چکا ہو۔ ایک سیاستدان کو لیڈر بننے کا بہت شوق تھا۔ بولتے ہوئے وہ ہکلاتا تھا۔ اس لیے تقریر کرنے اور مستقبل کی پیشگوئی کرنے سے گھبراتا تھا۔ چالاک سیاستدان تھا۔ اس نے خوابوں کی تعبیر سنانے کا دھندا شروع کردیا۔ خاص طور پر پریس کانفرنسوں میں دوسرے سیاستدانوں کے خوابوں کی تعبیر کرنی شروع کردی۔ نام کمایا اور فلسفی کہلوانے میں آیا۔ فلسفی سیاستدان۔ دیکھے بھالے سیاستدان اسکے پاس آنے لگے۔ اسکو اپنے خوابوں کے قصے کہانیاں سنانے لگے وہ تعبیر کے مثبت پہلو سن کر اپنے وجود میں گدگدی محسوس کرتے۔ نام پیدا کیا۔ مگر وہ سیاستدان لیڈر نہ بن سکا۔ہکلانے کے مرض سے نجات حاصل کرنے کیلئے اس نے یورپ اور امریکا کا دورا کیا۔ اسپیچ تھراپی کے ماہرین سے ملا مگر وہ ہکلانے سے فارغ نہ ہوسکا۔ نامور سیاستدانوں کو انکے خوابوں کی تعبیریں سناتے سناتے اس دنیا سے رخصت ہوا۔ لوگ اسے فلسفی سیاستدان کے حوالے سے جانتے ہیں۔
بڑی دلچسپ دنیا ہوتی ہے ان سیاستدانوں کی وہموں اور وسوسوں میں گھری ہوئی زندگی گزارتے ہیں اپنی تمام تر دلچسپ کوتاہیوں کے باوجود وہ وزیراعلیٰ، وزیرِ، وزیرِ مملکت اور گورنر صاحب کے مشیر یعنی ایڈوائزر لگ سکتے ہیں۔ یہ اپنے اپنے نصیب کی بات ہے۔ آپ کو کڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک پینڈو سیاستدان کو وزیر بننے کا بہت شوق تھا۔ وہ اپنے شوق سے باز نہیں آتا تھا۔ وزیر بن کر دم لیتا تھا۔ اس کو پچاس ہزار مرتبہ سمجھانے والوں نے سمجھایا تھا کہ آپ مسائل کی فائل میز کی درازوں میں گم مت کردیا کریں۔ کم ازکم ایک لفظ Seen فائل پر لکھ دیا کریںتاکہ گھمبیر نوعیت کی فائلوں پر منسٹری کے کلرک کام کرسکیں۔ بخشے ہوئے وزیر صاحب فائل پر Seen کی بجائے س لکھ دیا کرتے تھے۔ اللہ سائیں کو پیارے ہونے سے چند لمحے پہلے انہوں نے آخری فائل پر بھی Seenکی بجائے س لکھ دیا تھا۔ اس دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد پتہ چلا تھا کہ بخشے ہوئے وزیر صاحب Seen کو سین نہیں لکھ سکتے تھے۔ اسلئےوہ Seen کو ’س ‘لکھتے تھے۔ ایک وزیر صاحب کی وجہ شہرت تھی کہ وہ ایک لیڈیزپرس احترام اور عزت سے تھامے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ وہ پرس وزیر صاحب کا نہیں تھا۔ سیاسی سرکس میں دکھائی دینے والی ایک ادھیڑ عمر کی بیگم صاحبہ کا نایاب پرس تھا جس کی حفاظت وزیر صاحب کرتے تھے۔ بیگم صاحبہ وزیر صاحب کو اپنا ذاتی ملازم سمجھتی تھیں۔ وزیر صاحب کا نام اگر خدابخش ہوتا تو بیگم صاحبہ وزیر خدابخش کو اَڑے کُھدو کہہ کر مخاطب ہوتی تھیں۔ بیگم صاحبہ کے منہ سے اپنا نام خدا بخش کی بجائے کُھدو سن کر وزیرصاحب بہت خوش ہوتے تھے اور اپنے آپ کو بیگم صاحبہ کے اور قریب محسوس کرنے لگتے تھے۔ باقی ماندہ وزیر خدابخش عرف کھُدو کے نصیب پر عش عش کر اٹھتے تھے اور اپنے نصیب کو کوستے تھے۔ ایک سیاستدان عادات اور اطوار میں ہوبہو مینڈک کی طرح تھا۔ اُچھلتااور پھدکتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ کبھی ایرے کیساتھ، کبھی غیرے کیساتھ اور کبھی نتھو خیرے کیساتھ دکھائی دیتا تھا۔ پھدک پھدک کر پارٹیاں تبدیل کرتا تھا۔پارٹیاں تبدیل کرنے کا عادی تھا۔ وہ اسقدر پارٹیاں بدلتا تھاکہ خود بھول جاتا تھا کہ وہ کس پارٹی کا ممبر تھا۔ ایک مرتبہ وہ ہل چل پارٹی کا ممبر بنا تھا۔ سرگرم کارکن بن کر اس نے ہلچل پارٹی کا نام روشن کیا تھا۔ پارٹی کو چار پانچ چاند لگادیئے تھے اور پھر نہ جانے کیا ہوا کہ سیاستدان صاحب نے ہلچل پارٹی چھوڑدی۔ ہلچل پارٹی چھوڑنے کے بعد وہ چنچل پارٹی کا ممبر بنا اور پارٹی کے ساتھ وہ قوم کی خدمت کرنے لگا ایک مرتبہ بھول گیا کہ وہ ہلچل پارٹی کا ممبر رہ چکا ہے وہ ہلچل پارٹی کے اجلاس میں پہنچا اور دھواںدار تجویزیں دینے لگا۔ کسی نے اس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا ۔ ’سرجی یہ ہلچل پارٹی کا اجلاس ہے۔ آپ چنچل پارٹی کے ممبر ہیں آپ ہلچل پارٹی چھوڑ چکے ہیں‘‘۔ مرتے دم تک وہ سیاستدان مینڈک ہی رہا اور پارٹیاں بدلتا رہا اور ایک دن اللہ سائیں کو پیارا ہوگیا۔ سیاسی ہنر میں ایک سیاستدان ملک کے تمام سیاستدانوں کا باپ تھا۔ اسی نوے برس کے گھاگ سیاستدان اس کو اپنا باپ مانتے تھے۔ ہما نام کا پنچھی وہ اپنی جیب میں رکھتا تھا ۔ جب اس کا جی چاہتا تھا۔ وہ ہما پرندے کو جیب سے نکال کر اپنے گنجے سر پر بٹھادیتا تھا۔ اور خالی پڑے ہوئے اعلیٰ ترین عہدے پر جاکر بیٹھ جاتا تھا۔ ایک مرتبہ ہما پرندے نے مائی باپ سیاستدان سے پوچھا تھا۔ ’’میں جب مرجاؤں گا پھر تم کیاکروگے؟‘‘مائی باپ سیاستدان نے ہما پرندے سے کہا۔ ’’انسانی ذات کی تاریخ میں ہما پنچھی کبھی نہیں مرتا۔ تم قیامت تک زندہ رہوگے۔ اور ہم تمہارے بل بوتے پر حکومت کرتے رہیں گے۔ ‘‘