• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا زمانہ آگیا ہے ، ٹی وی اشتہارات میں بولی جانے والی زبان پہلے بھی کبھی قابل رشک نہیں رہی تھی مگر اب تو حد ہی ہو گئی ہے ۔ ایک اشتہار نظر سے گزرا جسے دیکھ کر میں تو سر ہی پکڑ کر بیٹھ گیا۔کسی صابن کا اشتہار تھا جس میں ماں اپنی بیٹی کو دیکھ کر کہتی ہے کہ ’میں اِس (اپنی بیٹی )کے خوابوں کے بیچ کسی کو نہیں آنے دوں گی ، جراثیم کو بھی نہیں‘ ۔لاحول ولا قوۃ۔ شاید اشتہار بنانے والی کمپنی یہ کہنا چاہتی تھی کہ’ میں اپنی بیٹی کے خوابوں کے بیچ کسی کو نہیں آنے دوں گی اور جراثیم کو تو بالکل بھی نہیں‘ ۔مگرلگتا ہے کہ کمپنی کے جس ڈائریکٹر نے اشتہار کی منظوری دی ہوگی وہ یقیناً باہر کی کسی یونیورسٹی کا پڑھا ہوگا اور اردو کو گھر کی لونڈی سمجھتا ہوگا اور بقول شخصے، شاید اسی لیے اردو کے ساتھ سلوک بھی اُس نے لونڈیوں والا ہی کیا۔ جس ملٹی نیشنل کمپنی کا یہ اشتہار ہے ،اُس کی شاخیں 190 ممالک میں ہیں، 400 سے زائد برینڈز ہیں اور سالانہ بِکری 50 ارب یورو سے زیادہ ہے۔ایسی کمپنی کا حال اگر یہ ہے کہ وہ مقامی زبان میں ٹھیک سے اشتہار بھی نہیں بنا سکتی تو کسی اور سے کیا گلہ۔اگلی مثال خبروں کے ایک عالمی ادارے بی بی سی کی ہے۔اِس کی ویب سائٹ پر جو پروگرام نشر کیے جاتے ہیں اُن میں انگریزی الفاظ کی ایسی غیر ضروری بھرمار ہوتی ہے کہ بندے کو سمجھ نہیں آتی کہ آخر یہ اردو میں پروگرام کرنے کا تکلف کر ہی کیوں رہے ہیں،سیدھی طرح انگریزی کیوں نہیں بولتے۔ایسے ہی ایک پروگرام میں میزبان نے خواہ مخواہ انگریزی کے جو الفاظ استعمال کیے اُن میں یوزرز،کراس،آرٹیفیشل انٹیلی جنس، ایونٹس،ایکوریسی، لیمیٹیشن،وغیرہ شامل تھے جن کا اردو متبادل چوتھی جماعت کے بچے کو بھی معلوم ہے۔اردوکےساتھ یہی درازدستی روزانہ شام کو ٹی وی کے پروگراموں میں بھی ہوتی ہے ،خاص طور سے اِن پروگراموں کے ابتدائیے میں ،جسے عرف عام میں ’اِنٹرو‘ کہا جاتا ہے ، جہاں میزبان بے دریغ انگریزی کے الفاظ بولتی/بولتا چلاجاتا ہے ۔اور تو اور اب اخبارات میں شائع ہونے والے مضامین میں بھی انگریزی کے وہ الفاظ لکھے جاتے ہیں جن کا اردو متبادل موجود ہے ،جیسے کہ اگنور ، ایشو،ٹریول۔

آپ بھی سوچ رہے ہوں گےکہ میں کس موضوع پر لکھنے بیٹھ گیا ہوں، یہاں ڈالر تین سو روپے کو چھو چکا، سونے کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے، لاکھوں لوگ روزانہ غربت کی لکیر سے نیچے جا رہے ہیں اور میں اِس بات پر جز بز ہو رہا ہوںکہ ملک میں اردو زبان درست کیوں نہیں لکھی اور بولی جارہی!ایک لحاظ سے یہ اعتراض درست بھی ہے ، آج کل سیاست جس نہج پر ہے اور ملک میں ایک دوسرے سے سیاسی بنیاد پر نفرت کا جو ماحول ہے، اُس میں زبان کے غلط استعمال پر پریشان ہونا ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص آئی سی یو میں ہو اور اِس بات پر غصے کا اظہار کرے کہ اسپتال والوں نے آئی سی یو کا اردو ترجمہ کیوں نہیں لکھا۔کسی حد تک یہ بات درست ہے کہ گرما گرم حالات پر چٹ پٹا تبصرہ کیا جانا چاہیے کہ ’ریٹنگ‘ لینے کا یہی طریقہ ہے مگر میری دیانتدارانہ رائے میں یہ تبصرہ کرنے والے مجھ سے بہتر لوگ موجود ہیں اور ویسے بھی یہ حالات ہماری زندگی میں تبدیل نہیں ہوں گے لہٰذا اِن پر کسی بھی وقت لکھا جا سکتا ہے ۔اردو کا معاملہ مختلف ہے ۔جس قسم کا بگاڑ اِس میں پیدا ہورہا ہے اگر اُس کی آج نشاندہی نہ کی گئی تو پھر ہم اِس خوبصورت زبان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔اِس ضمن میں رہی سہی کسر موبائل فون نے پوری کردی ہے جس میں اب لونڈے لپاڑے تو کیا اچھے خاصے جہاندیدہ لوگ بھی زبان کا وہ حشر کرتے ہیں کہ بندہ خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے ۔ السلام علیکم لکھنے کا تردد کرنے کی بجائے یار لوگ AOAلکھ کر بھیج دیتے ہیں اور اِن میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جن سے پہلے کوئی جان پہچان نہیں ہوتی ، میں بھی انہیں جواب میں Wلکھ دیتا ہوں۔اب ڈھونڈتے رہو اِس کا مطلب۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ زبان کا ارتقا اسی طرح ہوتا ہے ، ویسے بھی اردو ایک لشکری زبان ہے ، اِس میں دوسری زبانوں کے الفاظ سمونے کی صلاحیت موجودہے لہٰذا زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ دلیل اُس وقت تک تسلیم کی جا سکتی ہے جب تک ہم اردو میں انگریزی کے اُن الفاظ کو استعمال نہ کریں جن کا آسان متبادل موجود ہے ۔ اگر ہم ’نظر انداز‘ کی جگہ ’اگنور‘ لکھناشروع کردیں گے تو اردو کا لفظ مردہ ہوجائے گا۔البتہ اسکول، لاؤڈ اسپیکر، ٹی وی، ریڈیو،اسکوٹر جیسے الفاظ اب اردو کا حصہ بن چکے ہیں اور اِن کا اردو متبادل زبان کو بد ذائقہ بنا سکتاہے ۔جیسے ایک جگہ میں نے ریلوے اسٹیشن کا ترجمہ چھک چھک کا اڈہ پڑھا تھا جو کہ ظاہر ہے مضحکہ خیز بات ہے ۔اسی طرح ہم اسکول کو اردو میں مدرسہ لکھ سکتے ہیں مگر آج کل مدرسے سے مراد روایتی اسکول کی بجائے دینی تعلیم دینے والی جگہ سمجھی جاتی ہے لہٰذا یہ نُکتہ بھی ذہن میں رکھنے کی ضرروت ہے ۔سب سے زیادہ کوفت مجھے ٹی وی اشتہارات دیکھ کر ہوتی ہے ، اِن میں انگریزی کے الفاظ یوں ٹھونسے ہوتے ہیں جیسے کسی زمانے میں ویگنوں میں مسافر ٹھونسے جاتے تھے۔اور اب تو انگریزی کے ساتھ ساتھ زبان کا بے دریغ غلط استعمال بھی معمول کی بات بن گئی ہے ۔جس اشتہار کی میں نے شروع میں مثال دی ، مجھے یقین ہے کہ زیادہ تر لوگوں کو اُس میں کوئی غلطی نظر ہی نہیں آئی ہوگی جسے دیکھ کر میں ہلکان ہوا جا رہا ہوں۔اب یہ اپنے اپنے مزاج کی بات ہے ، کچھ لوگ ملک کے آئین کو روندتے ہوئے نکل جاتے ہیں اور اُن کےکان پر جوں نہیں رینگتی اور کچھ محض زبان کے غلط استعمال سے ہی خلجان میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔آئین توڑنے والے کو تو ہم کچھ کہہ نہیں سکتے کہ پَر جلتے ہیں، البتہ زبان کے غلط استعمال پر میرا دل کرتا ہے کہ غلط بولنے والے کی زبان کھینچ لوں، اسی لیے آج کا کالم لکھا، اجازت دیجیے AOA اورTC۔

تازہ ترین