• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گئے دنوں کی بات ہے ہم ایک انٹرٹینمنٹ ٹی وی کی سربراہی فرمایا کرتے تھے، وہاں ایک انتہائی ذہین اور تخلیقی پروڈیوسر ہوا کرتے تھے زیک سیموئل، وہ برسوں سے امریکامیںاپنا ایک میڈیا ہاؤس چلاتے ہیں۔ ہم نے انہیں اپنے امریکا آنے کی کبھی اطلاع نہیں کی، لیکن وہ ہر دفعہ ہمارا سراغ لگا لیتے ہیں، اس بار بھی وہ ہمیں لے کر ٹائیسن کارنر کے ایک معروف ریستوران نما کنجِ عافیت میں پہنچے۔ ہمیشہ کی طرح کچھ ہی دیر بعد انہوں نے ماہ و سال کی گرد جھاڑی اور ان الواح کی تلاوت آغاز کی جن پر حضرتِ حماد غزنوی کے اقوالِ زریں کھدے ہوئے تھے۔ نوجوان پروڈیوسر جیسے اپنے کسی سینئر کو آئیڈیلائز کرنے لگتے ہیں، یہ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ہاں میں زیک کوکبھی نہیں بتا سکا کہ اکثر فرمودات تو میں بھول چکا ہوں اور باقی عقائد سے رجوع کر چکا ہوں۔ بہرحال، اب آپ کرشن رام کی گفتگو سنیے، جو اس ریستوران میں کام کرتے ہیں۔کاؤنٹر کے پیچھے ایک دیسی شکل نظر آئی، پوچھا ہندوستان کے ہو، بولا نہیں نیپال کا، پوچھا اُردو کیسے سیکھی، بولا یہ ہندی ہے، اور ہم نیپال کے جس گاؤں سے ہیں وہ سرحد پر ہے، ساتھ ہی ہندوستانی ریاست اُتر کھنڈ ہے جسکی سرکاری زبان ہندی ہے۔ کرشن جی بہت محتاط گفتگو کر رہے تھے مگر ہم انہیں بہلا پھسلا کر اپنے مطلب کی بات پر لے ہی آئے۔ پوچھا ہندوستان سے آپ کی کیا شکایات ہیں، کہنے لگے بھارت ہمارے کئی علاقوں پر قبضہ کر چکا ہے، اور مزید علاقوں پر نظر رکھتا ہے، ہماری عزتِ نفس مجروح کرتا ہے۔‘‘چلتے چلتے ہم نے پوچھا کہ حالیہ پاک بھارت جنگ میں آپ کس ملک کی فتح چاہتے تھے، کرشن جی مسکرانے لگے، ہم نے سوال دہرایا وہ مزید مسکرائے، ہم نے پوچھا بھارتی طیارے گرنے پر آپ کا کیا ردِ عمل ہے، اب کہ کرشن جی کی مسکراہٹ قہقہوں میں بدل گئی، وہ خوب ہنسے، ہنستے ہنستے دہرے ہو کر کاؤنٹر کے پیچھے رافیل کی طرح زمیں بوس ہو گئے۔امریکا میں پاکستانی ڈاکٹروں کی تنظیم’’اپنا‘‘نے ہمیں پاکستان سے اپنے سالانہ کنونشن میں مشاعرہ پڑھنے کیلئے بلایا تھا۔ یہ یہاں متمول پاکستانیوں کی غالباََ سب سے موثر تنظیم ہے، جسکے بہت سے ارکان پاکستانی سیاست میں بھی دلچسپی لیتے ہیں، یہ جو آپ سنتے ہیں کہ حال ہی میں ڈاکٹروں کا ایک وفد عمران خان سے ملاقات کرنے اور کوئی معافی تلافی کا راستہ نکالنے پاکستان آیا ہوا تھا، تو ان حضرات کا تعلق بھی اسی تنظیم سے ہے۔ ماضی میں تو اس پلیٹ فارم پر عمران خان کے ان یوٹیوبر حامیوں کو بھی مدعو کیا جاتا رہا ہے جو الفتِ خان میں ریاستِ پاکستان پر حملہ آور ہیں، مگر اس مرتبہ کنونشن کو ان نزاعی موضوعات سے پاک رکھا گیا۔ خیر، ڈلس شہر پہنچے تو اپنا کی طرف سے ہمارے خوش مزاج اور گرم جوش میزبان ڈاکٹر جاوید اکبر، ڈاکٹر سعید نقوی اور ڈاکٹر ثاقب تھے، جاوید اکبر اور سعید نقوی تو بہت عمدہ شاعر بھی نکلے، جب کہ ڈاکٹر ثاقب ان’’علتوں‘‘سے یکسر پاک تھے۔ اگلے دو دن شعراء کے ساتھ گزرے اور کیا خوب گزرے۔ حضرتِ عباس تابش سے غزل کی پہنائیوں پر بات چلتی رہی، شکیل جاذب ہمیں ادبی ایوارڈز کی سیاست کا منظر نامہ سمجھاتے رہے، ایک شاعر ہیں شاہین عباس، اور کیا ہی اچھے شاعر ہیں، پرانے زمانے کے آدمی لگتے ہیں مگر شعر بالکل نیا کہتے ہیں۔ فرماتے ہیں’’تمہی کو ہم بسر کرتے تھے اور دن ماپتے تھے... ہمارا وقت اچھا تھا گھڑی ہوتی نہیں تھی۔‘‘ شاہین عباس ہم میں واحد شاعر تھے جن کی پلیٹ میں کھانے کی مقدار سے پتا چل جاتا تھا کہ وہ شاعر ہیں، یعنی چند پتے سلاد کے چُن کر مدتوں محوِ طعام رہتے تھے۔ شاہین بھی شاید شہرت کی خواہش رکھتے ہوں مگر ہر اس حرکت سے گریزاں تھے جو شہرت کے طالب کیا کرتے ہیں۔ شہرت و پذیرائی کے حوالے سے رحمان فارس قطعی رائے رکھتے تھے، کہنے لگے ہر ہر شاعر شہرت کی خواہش رکھتا ہے، اور ہر ہر کا مطلب ہے ہر ہر۔ ہم نے عرض کیا کہ ہر شاعر شہرت تو چاہتا ہے مگر وہ اسکی کتنی قیمت ادا کرنے کیلئے تیار ہے، یہ ہے اصل سوال۔ اسی کے جواب سے شہرت کے خواہش مند اور شہرت کی ہوس میں مبتلا شعراء میں امتیاز کیا جا سکتا ہے۔ بات تو عام سی تھی مگر فارس کی آنکھیں یوں چمک اٹھیں گویا کوئی گتھی سلجھ گئی ہو۔ فارس پُر از سوال تھے، متجسس، سیماب صفت، یعنی شعر کہنے کیلئے انتہائی موزوں طبیعت، فرماتے ہیں ’’صدائیں دیتے ہوئے اور خاک اڑاتے ہوئے...میں اپنے آپ سے گزرا ہوں تم تک آتے ہوئے۔‘‘ اپنا کے مشاعرے بارے ہمارا اندیشہ تھا کہ چشم و لب و رخسار کے قصوں کو ماہرینِ ENT نہ جانے کس نظر سے دیکھیں مگر یہ اندیشہ غلط ثابت ہوا، مجمع انتہائی باذوق نکلا۔صبح صبح ایئرپورٹ جاتے ہوئے ہمارے کالج کے دوست صداقت علیم کا فون آیا جو ابامریکی ہیں، بتانے لگے کہ انکے علاقے میں سیلاب آیا، بہت سے لوگ مر گئے، پھر حکومت پر تبرا کرنے لگے، اور ہم سوچ رہے تھے کہ انہوں نے ابھی سنگدل حکومتیں دیکھی نہیں ہیں۔

تازہ ترین