حسین شہید سہروردی نامور اور مہنگے وکیل تھے، بھاری فیسیں لینے والے حسین شہید سہروردی اپنی پارٹی کے غریب کارکنوں کا ہمیشہ خیال رکھتے تھے، کسی کارکن کی کوئی ضرورت ہوتی تو وہ شام کو ٹہلتے ٹہلتے ضرورت پوری کر دیتے پھر ایک دن ایسا آیا کہ حسین شہید سہروردی پاکستان کے وزیراعظم بن گئے، ظاہر ہے وزیر اعظم بنتے ہی ان کے رابطے عام کارکنوں سے کٹ گئے، وزیر اعظم کے گرد پروٹوکول کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، ان دنوں پاکستان کا دارالحکومت کراچی تھا، حسین شہید سہروردی کی پارٹی کے ایک مشہور زمانہ کارکن خلیفہ غلام حسن گلشن لاہور میں رہتے تھے، اس زمانے میں لاہور کی مال روڈ پر ایک خاص ریسٹورنٹ میں سیاستدانوں اور دانشوروں کی بیٹھک ہوتی تھی، مختلف لوگوں کے ٹیبل مخصوص ہوتے تھے، جس کیلئے ٹیبل مخصوص ہوتی تھی، وہی اس کا بل ادا کرتا تھا، خلیفہ گلشن جب کسی ٹیبل پر آتے تو کہتے ’’مہنگائی بہت ہے، لوگ بہت تنگ ہیں، حکومت کو کوئی خیال ہی نہیں، بہت جلد مظاہرے ہونے والے ہیں‘‘۔ جن دنوں خلیفہ غلام حسن گلشن تبصرے کر رہے تھے، انہی دنوں میں وزیراعظم حسین شہید سہروردی نے انہیں ملاقات کیلئےبلایا، خلیفہ صاحب مشکل حالات میں بذریعہ ٹرین کراچی گئے، ان کی وزیراعظم سے ملاقات ہوئی، ملاقات کے موقع پر وزیراعظم حسین شہید سہروردی نے خلیفہ غلام حسن گلشن سے حالات کا پوچھا تو انہوں نے حالات کی تنگی کا اظہار کیا، وزیراعظم نے خلیفہ گلشن کو ایک پرمٹ جاری کر دیا، وہ پرمٹ عام سے سیاسی کارکن خلیفہ غلام حسن گلشن نے کراچی میں 88 ہزار کا بیچا ( اس وقت کا 88 ہزار آج کا 88 کروڑ سمجھ لیں)۔ پرمٹ بیچ کر خلیفہ گلشن نےبذریعہ جہاز لاہور جانے کا ارادہ کیا، جو آدمی بمشکل ٹرین سے کراچی گیا تھا، اب وہ مال دار ہو کر بذریعہ جہاز لاہور پہنچا۔ لاہور پہنچ کر اگلے دن وہ مال روڈ پر اسی ریسٹورنٹ پر گیا، جہاں سیاستدانوں اور دانشوروں کی بیٹھک ہوتی تھی، خلیفہ نے اپنی ٹیبل بک کرائی اور اکیلے بندے نے کوئی دس بارہ بندوں کے کھانے کا آرڈر کر دیا، پوری میز کھانوں سے بھر گئی اور کھانے والا اکیلا خلیفہ غلام حسن گلشن... اسی دوران ریسٹورنٹ میں دو تین افراد داخل ہوئے، انہوں نے جب یہ منظر دیکھا تو وہ سوچ میں پڑ گئے کہ یہ خلیفہ گلشن تو اس قابل نہیں تھا، یہ کیا ہو گیا ہے؟ ان افراد کو پرمٹ کا علم نہیں تھا، ان میں سے ایک آدمی نے پاس سے گزرتے ہوئے خلیفہ گلشن سے پوچھا: ’’خلیفہ صاحب! بڑے دنوں بعد نظر آئے ہیں، لوگوں کے حالات کیسے ہیں‘‘؟ وہی خلیفہ جو مہنگائی کے رونے روتا تھا، اس نے فوراً پنجابی میں جواب دیا،’’ اونی بکھ نہیں، جنا ںرولا اے‘‘ ( اتنی بھوک نہیں ہے جتنا لوگ شور کر رہے ہیں)۔
آج بھی حالات ایسے ہی ہیں، حکومت کے گیت گانے والے سارے یہی کہہ رہے ہیں کہ مہنگائی تو ہے نہیں، مسائل تو ہیں نہیں، ایسے ہی لوگوں نے سوشل میڈیا پہ شور مچایا ہوا ہے۔ فرعون کے زمانے میں بھی ایسے ہی لوگ تھے، صدیوں اور برسوں کے سفر میں ایک ہی نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ جو لوگ حکومتوں میں ہوتے ہیں یا حکمرانوں کے آس پاس ہوتے ہیں یا جن کا داؤ لگا ہوتا ہے، انہیں عوامی مسائل کبھی نظر نہیں آتے۔ آج کے پاکستان میں عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آدھی آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ پچھلے چھ مہینوں میں تین لاکھ پاکستانی نوجوان بیرون ملک چلے گئے ہیں، لوگوں کے سامنے بھوک، مہنگائی اور بے روزگاری کے پہاڑ کھڑے ہو گئے ہیں جبکہ حکمران اور ان کے حمایتی ہمیں معاشی بہتری کے قصے سناتے ہیں۔ دو روز پہلے وسطی پنجاب سے میرے کچھ عزیز ملنے کیلئے آئے تو انہوں نے بتایا کہ’’ وسطی پنجاب کے دیہات میں روٹی کبھی مسئلہ نہیں رہی تھی مگر اب حالات یہ ہیں کہ ہمارے دیہات میں غربت اتنی بڑھ گئی ہے کہ عام لوگوں کیلئے دو وقت کا کھانا افورڈ کرنا مشکل ہو گیا ہے، بعض غریب گھرانے تو 24 گھنٹوں میں ایک وقت کا کھانا کھاتے ہیں‘‘۔ حالات کے پیش نظر فیض احمد فیض کے اشعار یاد آرہے ہیں کہ
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے
مِٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے