• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’وہ کتنے دن سے بھوکی ہے ،بیمار ہے، مر گئی ہے، کوئی نہیں جانتا۔ وہ کس سے ملتی ہے، کہاں جاتی ہے، کتنی بد کردار ہے، سب جانتے ہیں!‘‘ (منقول)

’’غیرت مندوں‘‘ کو بہت غصہ ہے، اُن کا خیال ہے کہ اگر اُن کی بیٹی یا بہن اُن کی مرضی کے خلاف ٹی وی ڈراموں میں کام کرتی ہے، ٹِک ٹاک بناتی ہے، ماڈلنگ کرتی ہے، تو اُس سے اِس حد تک قطع تعلق کر لینا چاہیے کہ اُس کی موت کی صورت میں لاش بھی وصول نہ کی جائے۔ یہ غیرت مند کون ہیں؟ یہ وہی غیرت مند ہیں جنہیں اِسلامی شعائر صرف اُس وقت یاد آتے ہیں جب انہیں کسی عورت پر لاگو کرنا ہو اور یہ وہی غیرت مند ہیں جو اپنی بہن کو وراثت میں حصہ نہیں دیتے مگر اسے برقع اوڑھا دیتے ہیں کہ یہ قرآن کا حکم ہے، یہ وہی غیرت مند ہیں جو سارا دن سڑکوں پر دندناتے پھرتے ہیں اور اپنی حریص نظروں سے آتی جاتی عورتوں کو تاڑتے ہیں، یہ وہی غیرت مند ہیں جو کھلے عام بازاروں میں ماں بہن کی ننگی گالیاں دیتے ہیں اور اِس بات کی پروا نہیں کرتے کہ آس پاس کون کھڑا ہے، یہ وہی غیرت مند ہیں جو جمعے کی نماز میں سلام پھیرنے کے بعد دکان کھولتے ہیں اور اللّٰہ اور رسولﷺ کی جھوٹی قسمیں کھا کر جعلی اور دو نمبر مال بیچتے ہیں، یہ وہی غیرت مند ہیں جو اُس وقت منہ میں گھُنگھنیاں ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں جب مدرسے میں کسی بچے کا ریپ ہوتا ہے، یہ وہی غیرت مند ہیں جو نہایت اطمینان سے یتیم کی جائیداد ہڑپ کر جاتے ہیں اور اُس وقت انہیں قرآن کی کوئی آیت یاد نہیں آتی، یہ وہی غیرت مند ہیں جو عورت کو تو گھر میں بند کرکے رکھنا چاہتے ہیں کہ اُس کے محض باہر نکلنے سے ہی فحاشی پھیلے گی مگر اپنی نظریں نیچی رکھنے اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیلئے تیار نہیں ۔حمیرا اصغر (خدا اُس کے گناہ معاف فرمائے اور اُس کو جنت میں جگہ دے) کی موت کے بعد پتا چلا کہ معاشرے میں صرف ’غیرت مند‘ ہی نہیں نیکوکار بھی پائے جاتے ہیں، اور یہ نیکوکار اِس بات پر سیخ پا ہیں کہ حمیرا اصغر جیسی عورت کے حق میں لکھا تو کیوں لکھا، وہ تو بے پردہ تھی، دولت کی خاطر شوبِز میں آئی تھی، والدین کی مرضی کے خلاف زندگی گزار رہی تھی، غیر مردوں سے ملتی تھی، فلموں میں کام کرتی تھی، ایسی بیٹیوں سے اعلانِ لا تعلقی ہی کیا جاتا ہے، وغیرہ۔ مجھے نہیں پتا کہ ہم لوگ اِس قدر سفاک، سنگ دل اور ظالم کب سے ہو گئے ہیں، کون سا دینِ اسلام ہے جو اِن نام نہاد نیکوکاروں نے پڑھا ہے اور کس دین کی یہ پیروی کر رہے ہیں۔ میں تو اسلام کی کسی ایسی روایت سے واقف نہیں جس میں کسمپرسی اور بے بسی کی حالت میں مرنے والی کسی عورت کے بارے میں ایسی بیہودہ باتیں کہی جائیں اور وہ بھی سینہ تان کے تقویٰ کے غرور میں۔ کون ساتقویٰ اور کہاں کی پارسائی؟ اگر معاشرے میں اتنے ہی نیکوکار پائے جاتے ہیں تو یہ جعلی ادویات کون بیچتا ہے، پلاٹوں پر قبضے کون کرتا ہے، ذخیرہ اندوزی کون کرتا ہے، چھوٹی چھوٹی بچیوں کے ریپ کون کرتا ہے، مزدور کی اُجرت کون دباتا ہے، لین دین میں بد دیانتی کون کرتا ہے، ملاوٹ شدہ اشیا کون فروخت کرتا ہے، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کون کرتا ہے، پورن کون دیکھتا ہے، جہیز کی مانگ کون کرتا ہے، ٹیکس کون چوری کرتا ہے...فہرست لامتناہی ہے۔ صفائی کے نصف ایمان ہونے اور مزدور کو اُس کی اُجرت پسینہ خشک ہونے کی احادیث ہمیں زبانی یاد ہیں مگر اپنے ارد گرد کی گندگی دیکھ لیں اور مزدوروں کی حالت زار، اندازہ ہو جائے گا کہ ہم کس حد تک قرآن و حدیث پر کاربند ہیں، مگر جہاں کسی عورت کا نقاب ذرا سا ہٹتا ہے وہاں جھٹ سے وہ لونڈے بھی قرآن کی آیت نکال کر لے آتے ہیں جنہوں نے اپنے فیس بُک پر سنی لیون کی ڈی پی لگائی ہوتی ہے۔ چلیے اسے بھی چھوڑیں، جو لوگ پانچ نماز وقت پڑھتے ہیں انہیں کبھی وضو کرتا دیکھ لیں، پانی ایسے ضائع کرتے ہیں کہ دیکھ کر شرم آتی ہے، کیا انہیں حدیث یاد نہیں جس میں حضورﷺ نے فرمایا کہ وضو کے پانی میں اصراف نہ کرو چاہے تم بہتے ہوئے دریا پر ہی کیوں نہ ہو۔یہ تمام نام نہاد غیرت مند اور نیکوکار جتنی نفرت حمیرا اصغر سے کر رہے ہیں اتنی نفرت یہ اپنے آپ سے کیوں نہیں کرتے جب وہ جاہلوں کی طرح گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں چلاتے ہیں، وضو کرتے وقت پانی کا ضیاع کرتے ہیں، یتیم کا مال کھاتے ہیں، بہنوں کی جائیداد ڈکار جاتے ہیں، سڑکوں پر گندگی پھیلاتے ہیں؟؟؟ بندہ اِن غیرت مندوں سے پوچھے کہ اگر کسی شعبے میں کوئی مرد بھیڑیے کے روپ میں ہے تو کیا اُس میں بھی عورت کا ہی قصور ہے؟ اور اگر شوبز ایسا شعبہ ہے جہاں سراسر غیر اسلامی کام ہوتے ہیں تو اُن مدرسوں میں، جہاں فقط دینی تعلیم دی جاتی ہے، بچوں کا ریپ کیوں ہوتا ہے، کیا پھر یہ سمجھا جائے کہ اُس میں بچوں کا قصور ہے؟ ظاہر ہے کہ اُس میں بچوں کا قصور نہیں، پھر حمیرا اصغر کا کیا قصور ہے؟ یہاں اِن غیرت مندوں کی دلیل ہو گی کہ بچے تو معصوم ہوتے ہیں جبکہ حمیرا اپنی مرضی سے شوبز میں گئی، یہ بات درست ہے، وہ عاقل و بالغ تھی، اُس پر بھی دین اسلام کی اتنی ہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے جتنی مسجد میں وضو کرتے وقت مولوی پر عائد ہوتی ہے۔ مولوی اور حمیرا اصغر، دونوں اپنے اپنے اعمال کے ذمہ دار ہیں، روز قیامت جواب دے لیں گے، لیکن اِن غیرت مندوں اور نیکوکاروں کو کس نے یہ اختیار دیا ہے کہ آج ہی خدا بن بیٹھیں اور کسی کی دنیا اور آخرت پر فتوے صادر کریں! پاکی داماں کی حکایت اتنی نہ بڑھائیں، کچھ شرم کریں، نہ ہم میں کوئی رابعہ بصری ہے اور نہ شیخ عبدالقادر جیلانی، ہم سب گناہوں میں ِلتھڑے ہوئے ہیں، اپنے اپنے گناہوں کی فکر کریں، حمیرا کا معاملہ اب اُس کے رب کے سپرد ہے، خدا اُس کی مشکلیں آسان کرے، آمین۔

تازہ ترین