ہمارا تضادستان عجیب و غریب ہے۔ دشمنوں کیلئے تو ایک دو دھاری شمشیر برہنہ ہے ہی مگر کئی دوستوں کیلئے بھی غم ناک زنجیر ہے ۔ہماری روایت ہے کہ ہم اپنے سے پیار کرنے والے کو چوم چوم کر اور دبا دبا کر مار دیتے ہیں ،تضادستان دشمن کی کلائی موڑنے کا ماہر تو ثابت ہو چکا وہ اپنے کئی دوستوں کو بھی چٹکی کاٹتا رہتا ہے، حریف کو پھندے میں پھنسانا تو ایک منٹ کا کام ہے اور اسی طرح محبوب کے جذبات سے کھیلنا بھی ہمیں خوب آتا ہے۔ پاکستان بننے کے موقع پرآج کا خیبر پختونخوا ریفرنڈم کے ذریعے نئے ملک میں شامل ہوا کیونکہ اس وقت قوم پرست متحدہ ہندوستان میں رہنے کے خواہش مند تھے مگر پھر اکثریت کے سامنے جھکنےپر مجبور ہوگئے،سندھ کی تو اسمبلی نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا ،بلوچستان کے بارے میں دو متضاد آرا ہیں ایک رائے یہ ہے کہ نواب احمد یار خان آف قلات نے جرگے کے مشورے سے پاکستان سے الحاق کیا جبکہ نواب کے بھائی نےاسی روزسے الحاق کے خلاف تحریک شروع کردی ۔بلوچستان میں تشدد کا بازار گرم کرنے والی بی ایل اے کا بیانیہ یہ ہے کہ وہ پاکستان میں زبردستی شامل کئےگئےچنانچہ وہ پاکستان سے الگ ہوکر آزاد بلوچستان بنانا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کسی بھی ریاست کیلئے یہ بیانیہ ناقابل قبول ہے اور جب تک ریاست کے پاس طاقت اور جان ہے وہ لڑے گی اور پاکستان کو خطرے سے بچائے گی۔ اس سے بالکل متضاد مقدمہ گلگت اوربلتستان کا ہے ،یہ علاقہ تقسیم ہندوستان سے پہلے کشمیر کے ڈوگرہ مہاراجہ گلاب سنگھ کے زیر تسلط تھا گلگت بلتستان کی مقامی آبادی نے پاکستان میں شامل ہونے کیلئے ڈوگرہ مہاراجہ سے بغاوت کردی، مہاراجہ کی فوج بھی مہاراجہ کے خلاف ہوگئی ،مہاراجہ کی فوج میں شامل چند مقامی فوجی افسران کرنل مرزا احسن خان ،کرنل احسان علی اور پھر گلگت اسکائوٹس کے میجر بابر خان،کیپٹن شاہ رئیس نے ملکر ایک کامیاب بغاوت شروع کی اور یہ علاقہ ڈوگرہ راج سے آزاد ہوگیا، یوں اس علاقے کے لوگوں نے جنگ کرکے اپنی مرضی اور خواہش سے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔ ظاہر ہے کہ اس معاملہ میں انہیں باقی کئی علاقوں سے ترجیحی حیثیت حاصل ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ 75سال بعد بھی انکو پاکستانی شناخت نہیں ملی، وہ ایک ہی خواہش رکھتے ہیں کہ پاکستانی کہلائیں مگر تضادستان ہے کہ بس آئیں بائیں شائیں.... ایسا کرنے کی سب سے معقول دلیل یہ دی جاتی ہے کہ چونکہ کشمیر ابھی ایک متنازع مسئلہ ہے اور جب بھی اس کا حل ہوگا، اس میں استصواب رائے کی شرط پر عمل ہو گا اگر گلگت بلتستان کو پاکستان کا حصہ بنا دیا گیا تو پھر ہمیں گلگت بلتستان کے ووٹ نہیں مل سکیں گے۔ اس دلیل میں کچھ وزن ضرور ہے مگر استصواب رائے کب ہوگا۔ کسی کو علم تو کیا خواب و خیال تک نہیں، تو کیا اس وقت تک اپنے عاشقوں کو محبوب تضادستان رولتا رہے گا؟ یہاں کے لوگ اس کا آسان حل یہ بتاتے ہیں کہ جب بھی استصواب رائے ہوگا تو بھارت کو کشمیرسے اپنی افواج نکالنا پڑیں گی پاکستان کو بھی اسی طرح کرنا ہوگا ،بھارت نے تو کشمیر کو بھی اپنا صوبہ بنا رکھا ہے وہ بھی ختم کرنا ہوگا گویا یہ عبوری یا وقتی انتظامات اس وقت تک چلیں گے اور استصواب رائے کے موقع پر ختم ہو جائیں گے،مقامی بلتستانی اس معاملے کا حل یہ بتاتے ہیں کہ عبوری طور پر گلگت بلتستان کو پاکستان میں شامل کرلیا جائے اور جب کشمیر کا حتمی فیصلہ ہو تو مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کی طرح گلگت بلتستان کا بھی سابقہ اسٹیٹس بحال کردیا جائے۔ عاشقوں کی یہ تجویز انتہائی مناسب ، معقول اور قابل قبول ہے کیا تضادستان عاشقوں کی اس خواہش کو قبول کرکے محبوب کے روایتی جفا کارانہ کردار سے نکل کر مہربانہ کردار ادا کرے گا؟
میں اس وقت اسکردو میں دریا کنارے کھوج لگاتے ہوئے ریزورٹ میں دن رات کے بدلتےرنگوں کیساتھ پانی کابدلتا روپ مشاہدہ کررہا ہوں۔ اسکردو کے اسلم سحر برسوں سے ہر سال ’حسینؓ سب کا‘‘ کے نام سے بین المذاہب کانفرنس کرواتے ہیں وہ کئی برسوں سے اس فقیر کو بھی یاد فرماتے رہے مگر ذاتی اور صحافتی مجبوریاں آڑے آتی رہیں اس بار تو اسلم سحر نے مجھے کئی ماہ پہلے ہی پابند کرلیا اور یوں میں کانفرنس میں شرکت کیلئے حاضر ہوگیا ہوں کہ گناہ گار بھی اپنی حاضری سے کچھ اجر پالے۔
شیرِ مادرکی گواہی سے کون انکار کرسکتا ہے، اسی طرح آپ اپنی دھرتی اور دریا کے اپنی شخصیت اور کردار پراثرات سے کیسے انکاری ہوسکتے ہیں؟ شیرِ مادر کے ساتھ ساتھ میں نے دریائے سندھ کاپانی پیا ہے اسی لئے میں خود کو ہمیشہ سپت سندھو کہتا اور سمجھتا ہوں اسکردو سے دریائے سندھ اپنے روایتی زور و شور سے گزرتا ہے میں جہاں مقیم ہوں ایک طرف پہاڑ ہے اور میرے سامنے ناچتا کودتا دریا۔ میں نے کبھی دریا کو رات بھر نہیں دیکھا مگر اس بار میں نے صبح شام اور رات بھر دریا کو ٹک ٹک دیکھا ،کبھی اس کا رنگ سونے جیسا سنہرا ہوتے دیکھا تو یاد آیا اس خطے کے پہلے یورپی سیاح نے لکھا تھا دریائے سندھ کے پانی میں سونا بہتا ہے پھر صبح صبح اس کا رنگ نیلا ہوتے دیکھا ،شام ہوئی تو اس کے رنگ گلابی ، عنابی اور کیا کیا ہوتے رہے۔ دن کے اجالے میں گدلا سا لگتا ہے شاید حقیقت بھی یہی ہو مگر قدرت کے رنگ دیکھنے ہوں تو دریائوں، پہاڑوں اور جنگلوں میں اسکے مظاہر زیادہ واضح نظرآتے ہیں۔
ہمارے تضادستان کو اصلی جمہوری پاکستان بننا ہے تو اسے تضادات سے چھٹکارا پانا ہوگا۔ گلگت بلتستان ، بلوچستان اور کشمیر کے جمہوری حقوق بڑھانے ہوں گے پسِ پردہ حکومت کا داغ مٹانا ہوگا اور برسراقتدار سیاستدانوں کو اپنی اہلیت بڑھانا ہوگی ۔ مقتدرہ کو ناتجربہ کار حکومتوں کو برداشت کرنا ہوگا۔
گلگت بلتستان میں دریائے سندھ کے کنارے بیٹھا میں قدرت کے بدلتے رنگوں کو دیکھتا ہوں تو دنیا بھرکی مختلف روایات، مختلف مذاہب اور مختلف رنگوں کی قوس قزح کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، دن کی روشنی میں کثرت وحدت میں بدل جاتی ہے سارے رنگ سرمئی ہو جاتے ہیں ریت پہاڑ اور پانی سب یک رنگ ہو جاتے ہیں قدرت کا انسانیت کیلئے بھی یہی سبق ہے کہ رنگا رنگی بھی رہے اور انسانیت سے محبت کی یک رنگی بھی ہو۔ انسانی حقوق اور جمہوری حقوق پر دنیا کا دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ہی اتفاق ہو چکا اقوام متحدہ کا چارٹر اسی حقیقت کی ترجمانی کرتا ہے۔ تاریخ نےیہ بتایا ہے کہ جارح اور ظالم وقتی طور پر جیت جاتے ہیں مگر شکست کھانے کے باوجود تاریخ اور اصول کی دنیا میں زندہ ہمیشہ حسین ؓ ہی رہتے ہیں، وقت کے اسرائیل اور وقت کے آمر تاریخ میں مردود ٹھہرائے جاتے ہیں۔ تضادستان میں بھی ضروری ہے کہ سیاسی، مذہبی اورلسانی تضادات کے منصفانہ حل کی طرف پیش رفت ہو۔ ہم جنگ جیت چکے ،کوئی فوری سیاسی خطرہ نہیں، کوئی عدم استحکام والاعنصر نظر نہیں آتا ایسے میں ماضی کے ظالم اشوکا نے بدھ مت کے امن کے پیغام کو پھیلا کر اصلی فتح حاصل کی تھی،تضادستان میں بھی ایسا کیا جاسکتا ہے،کیا کوئی واقعی اشوکا کی طرح تاریخ میں امن کے نشان پر زندہ رہنا چاہتا ہے۔؟