• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چین میں دنیا کے سب سے بڑے ہائیڈرو پاور ڈیم کی تعمیر کا آغاز، بھارت پریشان

— فائل فوٹو
— فائل فوٹو 

چین کے وزیرِاعظم لی کیانگ نے اعلان کیا ہے کہ چین کے علاقے تبت کے مشرقی کنارے پر دنیا کے سب سے بڑے ہائیڈرو پاور ڈیم کی تعمیر کا آغاز ہو گیا ہے۔

چینی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اس منصوبے کے ذریعے خطے میں صاف توانائی، نوکریاں، انفراسٹرکچر اور خوشحالی لانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ تاہم یہ منصوبہ صرف بجلی کی پیداوار اور معاشی فوائد کے بارے میں نہیں ہے بلکہ اسکی ذمہ داری بھی بہت زیادہ ہے جیسے کہ علاقائی سلامتی، ماحولیاتی استحکام اور ایشیا کے بڑے دریاؤں میں سے ایک کا مستقبل میں توازن یقینی بنانا۔

یہ ڈیم کتنا بڑا ہے؟

رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ ڈیم دریائے یارلنگ زانگبو کے نچلے حصے میں واقع ہوگا جہاں دریا 50 کلومیٹر کے فاصلے میں 2 ہزار میٹر کی بلندی سے گرتا ہے جو اسے بجلی کی پیداوار کی صلاحیت فراہم کرے گا۔

رپورٹ کے مطابق یہ ڈیم تبت کے شہر نینگچی کی کاؤنٹی میڈوگ میں واقع ہے، یہ ڈیم تھری گورجز ڈیم کو بھی پیچھے چھوڑ دے گا، یہ ڈیم 5 ہائیڈرو پاور اسٹیشنز کے ساتھ تھری گورجز ڈیم سے 3 گنا زیادہ بجلی پیدا کرے گا، اس سے سالانہ 300 ارب کلو واٹ بجلی پیدا ہوگی جو برطانیہ کی کل سالانہ بجلی کی پیداوار سے بھی زیادہ ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس ڈیم کی تعمیر پر لگ بھگ 167 ارب ڈالرز کی لاگت آئے گی یعنی یہ ڈیم ایک بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے بھی زیادہ مہنگا ہوگا۔

اس ڈیم کی تعیمر کیوں ضروری ہے؟

رپورٹ کے مطابق تبت کے سطح مرتفع کی ہائیڈرو پاور کی صلاحیت سے فائدہ اٹھانے کی ایک وسیع حکمت عملی کے حصے کے طور پر چین کے پانچ سالہ منصوبے کے تحت اس منصوبے کا پہلی بار 2020ء میں اعلان کیا گیا تھا اور اس ڈیم کو بنانے کے لیے فزیبلٹی اسٹڈیز 1980ء کی دہائی میں شروع کی گئی تھیں جس کے بعد چینی حکومت نے دسمبر 2024ء میں ڈیم کی تعمیر کی اجازت دی تھی۔

اس حوالے سے چینی حکومت کا کہنا ہے کہ تبت کے علاقے میں قابل تجدید توانائی کی توسیع، کاربن کے اخراج میں کمی اور اقتصادی اہداف کے حصول کے لیے اس ڈیم کو تعمیر کیا جا رہا ہے۔

چینی میڈیا کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس ڈیم سے پیدا ہونے والی بجلی سے ناصرف تبت میں بجلی کی مقامی ضروریات کو پورا کیا جائے گا بلکہ بجلی کو دوسرے علاقوں میں بھی منتقل کیا جائے گا۔

اس ڈیم کی تعمیر سے بھارت کیوں پریشان ہے؟

دریائے یارلنگ زانگبو جنوب کی طرف بھارت میں بہتا ہے اور بھارت میں یہ دریائے برہم پترا کہلاتا ہے اور پھر بھارت سے بنگلادیش میں بہتا ہے اور یہ خطے کے لاکھوں لوگوں کے لیے پانی کا ذریعہ ہے اور زراعت کے لیے بھی لوگ دریا پر انحصار کرتے ہیں۔

یہ دریا اروناچل پردیش سے گزرتا ہے جو کہ ایک ایسا علاقہ ہے جس پر چین اور بھارت دونوں دعویٰ کرتے ہیں اور چین میں اس علاقے کو زنگنان کے نام سے جانا جاتا ہے۔

بھارتی حکومت اس منصوبے کو چین کے اسٹریٹجک اور اقتصادی فائدے کے لیے آبی وسائل پر کنٹرول کرنے کے ایک ممکنہ ذریعے کے طور پر دیکھتی ہے۔

بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ چین ممکنہ طور پر پانی کو بطور ہتھیار استعمال کر سکتا ہے اور یہ ڈیم بھارت میں سیلاب یا خشک سالی کا باعث بن سکتا ہے۔

رواں ماہ کے آغاز پر اروناچل پردیش کے وزیر اعلیٰ پیما کھنڈو نے میگا ڈیم پروجیکٹ کو ’واٹر بم‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس ڈیم کی تعمیر کے بعد بھارت کو پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور اگر چین کبھی اچانک پانی چھوڑ دیتا ہے تو اروناچل پردیش اور آسام میں سیلابی صورتحال بھی پیدا ہو سکتی ہے۔

چین کا ڈیم کی تعمیر سے متعلق خدشات پر ردِعمل

چین کا دعویٰ ہے کہ اس منصوبے کا سخت سائنسی جائزہ لیا گیا ہے اور اس سے پڑوسی ممالک کے ماحول، ارضیاتی استحکام یا آبی وسائل کے حقوق پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔

چینی حکومت نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ہم اپنے پڑوسیوں کو نقصان پہنچا کر کسی بھی قسم کا کوئی فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کریں گے۔

خاص رپورٹ سے مزید