بلوچستان میں محبت کی شادی کرنے والے جوڑے کو جس طرح سرِ عام اور دن دہاڑے کاروکاری (غیرت کے نام پر قتل)کیا گیا ہے ۔ اس نے ایک مرتبہ پھر ثابت کر دیا ہے کہ ہم ابھی تک مہذب اکیسویں صدی کی بجائے دورِ جہالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ جہاں مظلوم طبقوں خصوصاََ خواتین کی حیثیت ایک کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں ۔ وہ عورت جسے اس کا ئنات کی شکل و صورت اور قسمت بدل دینے والے عظیم سائنسدانوں ، شاعروں ، دانشوروں اور ولیوں حتّٰی کہ پیغمبروں تک کی ماں ہونے کا اعزاز ہے اور انہیں ماں کے قدموں میں جنّت کی بشارت عطا کی گئی ہے ہمارے معاشرے میں اسکی زندگی عملی طور پر جہنم سے کم نہیں۔ اسے تو عام انسانی حقوق بھی حاصل نہیں۔ آج بھی تعلیم ، صحت اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں عورت کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے اور مردوں کے مقابلے میں انہیں ہر طرح سے کمتر سمجھا جاتا ہے ۔
اس مردانہ غلبے کے معاشرے میںلڑکے کے پیدا ہونے پر خوشیاں اور لڑکی کے پیدا ہونے پر سوگ منایا جاتاہے ۔ اگر عورت سے اولاد پیدا نہ ہو سکے ، جسکی وجہ مرد میںکوئی طبّی مسئلہ بھی ہو سکتا ہے ۔ تب بھی اس کی زندگی اجیرن بنا دی جاتی ہے۔ سب سے زیادہ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ مذہب اور فرسودہ روایات کے نام پر ہوتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہمارے پیارے نبیؐ کی کوئی زندہ نرینہ اولاد نہیں تھی اور ان کا نام اور پیغام بڑھانے کے لیے ان کی بیٹیوں اور ان کی اولاد نے بڑی قربانیاں دیں۔ حضور ؐاپنی بیٹیوں اور انکی اولاد سے بے پنّاہ محبت کرتے تھے۔ لیکن ہمارے ہاںاسی حوّا کی بیٹی کی تذلیل کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔ یہ ہے ہمارادوغلا پن۔ ہم دھڑلے سے احکاماتِ الٰہی، سنّتِ رسولؐاور ملکی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے نہ صرف بہیمانہ درندگی کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ ویڈیوسوشل میڈیا پر وائرل کرکے اپنی مردانگی کی تشہیر بھی کرتے ہیں۔
یہ ویڈیو اتنی بھیانک اور دل ہلا دینے والی ہے کہ کوئی حسّاس انسان اسے دیکھ بھی نہیں سکتا۔ یوں لگتا ہے کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیںجو حیوانوں سے بھی بدتر ہے کیوں کہ حیوان بھی ا پنے ہم جنس ساتھیوں کے ساتھ ایسا ظالمانہ سلوک نہیں کرتے۔دراصل کاروکاری اور ونی جیسی وحشیانہ رسموں کے پیچھے وہ قبائلی اور گروہی مفادات وابستہ ہیں۔ جن میں عورت کو قربانی کا جانور بنا کر ذبح کردیا جاتا ہے۔ اس واقعے میں نہ صرف اس خاتون کے بھائی اور دیگر مرد رشتے دار شامل ہیں بلکہ غیرت کے نام پر عورت اور مرد کو قتل کرنے کا حکم دینے والے جرگے کا قبائلی سردار شیر باز ساتکزئی بھی شامل ہے ۔ جوکہ ایک بااثر سردار ہے ۔ کیا اس مرتبہ قانون کا پھندہ ان تمام قاتلوں کی گردنوں تک آئے گا یا وہ ہمیشہ کی طرح اپنے اثرورسوخ کے ذریعے ایک مرتبہ پھر قانون کا مذاق اڑانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ تمام مہذب اور انصاف پسند شہری اس واقعے کے بعد شدید اضطراب کا شکار ہیں کہ جنگل کا یہ قانون ہمیں کہاں لے جائے گا اور ہمارے اربابِ بست و کشاد کب تک ان قانون شکنوں کے خلاف آنکھیں بند کئے رکھیں گے جو تمام قانونی ، اخلاقی اور انسانی قدروں کو پامال کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اسی حوالے سے کاروکاری کے عنوان سے ایک نظم پیش ہے۔
کاروکاری
(غیرت کے نام پر قتل کی رسم )
غیرت کے نام پہ گالی ہے
غیرت کے نام پہ قتل گری
یہ قتل ہے انسانیت کا
کہتے ہیں جس کو کاروکری
یہ خون بہانا انساں کا
یہ غیرت کی پہچان نہیں
تم جس کو آن سمجھتے ہو
وہ جھوٹی انا ہے آن نہیں
کیا جیون ساتھی چننے کا
عورت کو کوئی ادھیکار نہیں
وہ حق جو خدا نے بخشا ہے
اس حق سے جب انکار نہیں
پھر کیوں سنگسار وہ ہوتی ہے
پھر جان سے کیوں وہ جاتی ہے
اپنی معصوم سی خواہش کی
وہ ایسی سزا کیوں پاتی ہے
وہ انساں ہے یا کٹھ پتلی
وہ کیا ہے قسمت کی ماری
تاوان کے بدلے دی جائے
جیسے وہ جنس ہو بازاری
صدیوں کی فرسودہ رسمیں
رسموں کے یہ گورکھ دھندے
یہ ذات اور پات کے الجھائو
یہ ’’فخر‘‘ نہیں یہ ہیں پھندے
ان پھندوں سے اپنی گردن
آئو مل کر آزاد کریں
جہاں جذبوں کو تعظیم ملے
ایسی دنیا آباد کریں