گزشتہ دہائیوں کے دوران بلوچستان کی گرین بیلٹ مسلسل قدرتی آفات کی زد میں ہی رہی کہ اس دوران متعدد تباہ کُن سیلاب آئے، جن کے نتیجے میں زراعت، آب پاشی، تعلیم اور صحت سمیت نہری نظام کا انفرااسٹرکچر بُری طرح متاثر ہوا۔ 2010ء کے سیلاب نے تو تباہی کی وہ داستانیں رقم کیں کہ جن کے اثرات اب تک موجود ہیں۔ افسوس ناک امَر ہے کہ پاکستان کی آبادی کی ایک بڑی تعداد بنیادی ضروریاتِ زندگی، صحت، تعلیم وغیرہ کی سہولتوں سے محروم ہے۔
تاہم، خوش آئند امر یہ ہے کہ ملک میں کئی این جی اوز، دُکھی انسانیت کی خدمت اور مُلک سے غربت کے خاتمے کے لیے اپنے اپنے دائرئہ کار میں کسی حد تک فعال کردار ادا رہی ہیں۔ اُن ہی تنظیموں میں سے تعلیم کے شعبے میں کام کرنے والی ایک تنظیم ’’یار محمد سمیجو ایجوکیشنل سوسائٹی اینڈ ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن‘‘ بھی ہے، جو جاپان کے ایک ادارے KNKکے اشتراک سے یونین کاؤنسل کی سطح پر سیلاب سے متاثرہ اسکولز اور مراکزِ صحت کی بحالی سمیت لوگوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے متعدد منصوبوں پر کام کررہی ہے۔ نیز، اس کے آگاہی پروگرام کے تحت عوام کو ممکنہ سیلاب یا کسی قسم کی قدرتی آفت سے نمٹنےکے لیے بھی تیار کیا جاتا ہے۔
ماضی میں بلوچستان میں متعدد بار آنے والے تباہ کُن سیلابوں کے نتیجے میں لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں ڈوبنے، کیرتھر کینال سمیت نہری و آب پاشی نظام کا مربوط سسٹم مفلوج ہونے، لاکھوں افراد کے بے گھر ہونے، کم و بیش نو لاکھ مویشی سیلابی ریلے میں بہہ جانے اور سیکڑوں اسکولز اور مراکزِ صحت منہدم ہونے کی وجہ سے کئی خوش حال گھرانوں کی معاشی حالت بھی خطِ غربت سے نیچے چلی گئی۔ ایسے میں عوام کو فوری ریلیف بہم پہنچانے کی غرض سے مختلف ملکی اور بین الاقوامی فلاحی ادارے حرکت میں آئے۔
ابھی ان اداروں کے بہت سے منصوبے بڑے عالمی اداروں کی پائپ لائن ہی میں تھے کہ اچانک سال2012ء میں اِس علاقے کو سیلاب کی صُورت ایک اور قدرتی آفت نے آلیا۔ جس کے بعد بلوچستان کے اناج گھر اور دو بڑی نہروں سے سیراب ہونے والی گرین بیلٹ حد درجہ متاثر ہوئی۔ بعدازاں،2022ء میں آنے والے سیلاب نے پہلے سے بدحال معیشت کو مزید نقصان پہنچایا۔ حکومتی سروے میں اس نقصان کا تخمینہ 30ارب ڈالرز سے زیادہ لگایا گیا۔
سیلاب کے نتیجے میں کھڑی فصلیں، پھلوں کے باغات اور کئی صنعتیں تباہ ہو گئیں۔ اگرچہ اس طرح کی قدرتی آفات دنیا بھر میں معمول کے مطابق آتی رہتی ہیں، لیکن ترقی یافتہ ممالک کی فول پروف منصوبہ بندی سے نقصانات کم سے کم ہوتے ہیں، جب کہ ہمارے یہاں منصوبہ بندی کے فقدان ہی کے سبب بھاری نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔
بہرکیف، سیلابی گزرگاہوں کی صفائی، نشیبی علاقوں میں تعمیرات کی روک تھام سمیت متعدد حفاظتی اقدامات نظرانداز کرنے سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوا، تو بعض عالمی اداروں اور این جی اوز کے تعاون سے تعمیرِنو کے منصوبوں پر بتدریج عمل درآمد کا آغاز کیا گیا۔ اور اسی ضمن میں جاپان کے اس ادارے کے تعاون سے جعفرآباد، نصیر آباد، صحبت پور اور اوستہ محمد میں کثیر لاگت سے جدید طرز پر گرلز اسکولز کی تعمیرکا سلسلہ جاری ہے۔
ان اسکولز کو جاپانی ماہرین کے آئیڈیاز پر پاکستان کے مایۂ ناز فنِ تعمیر نےجدید خطوط اور فنی باریکیاں مدِّنظر رکھ کرڈیزائن کیا ہے۔ سطحِ زمین سے پانچ فٹ اونچائی پر تعمیر کیے جانے والے ان اسکولز کی ان عمارات میں اوّل درجے کا تعمیراتی میٹیریل استعمال کیا جارہا ہے۔ یعنی یہ عمارات جتنی دیدہ زیب ہیں، اُس سے زیادہ مضبوط اور پائیدارہیں۔
فن فلاحی سرگرمیوں سے متعلق آرگنائزیشن کے چیئرمین، منیر احمد ابڑو کا کہنا ہے کہ ’’برادر مُلک، جاپان کے تعاون سے صحت، تعلیم اور آب پاشی کے مختلف منصوبوں پر تیزی سے کام کے علاوہ ضلع اوستہ محمد میں 23کے قریب اسکولوں کی عمارات کی تعمیرکا آغاز ہوچکا ہے، جب کہ شعور و آگاہی کے لیے مختلف سیمینارز اور ٹریننگ سیشنز بھی کروائے جارہے ہیں۔
سیلاب سے متاثرہ دیہی مراکز ِ صحت، عوامی ڈسپینسریز اور بیسک ہیلتھ یونٹس کے بحالی کےلیے ایم ایچ سی کی سروے رپورٹ بھی مرتّب کی جارہی ہے۔‘‘امید ہے کہ اِن منصوبوں کی تکمیل سےدیگر شعبوں کے ساتھ خصوصاً تعلیمِ نسواں کے شعبے میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔‘‘