• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خیال خام ہے کہ انسان نے جب کبھی شائستگی، تہذیب اور لطافت سیکھی ہو گی تب ہی انسان میں بدتمیزی، بدتہذیبی اور کثافت آگئی ہو گی۔ کسی معاشرے ،کسی جماعت یا کسی زمانے کو جب مہذب، شائستہ اور لطیف کہا جاتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی اکثریت ان اقدار کی حامل تھی وگرنہ سارے لوگ توکبھی اچھے نہیں ہوتے، اسی طرح جب کسی معاشرے، دور یا جماعت کو بدتمیز، گالی گلوچ کا شائق اور اخلاق باختہ کہا جاتا ہے تو اس جماعت کے سب لوگ ایسے نہیں ہوتے مگر اکثریت ان رویوں کی حامل ہوتی ہے، ان میں بھی کچھ لوگ شائستہ، تہذیب یافتہ اور پُر نظامت ہوتے ہیں مگر وہ دبے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کی آواز اس اجتماعی دھارے میں سنائی نہیں دیتی۔

تاریخ کی کہانی تو بہت قدیم ہے ہر زمانے میں شریف بدمعاش، اچھے برے، شائستہ بدتمیز، شیریں بیاں اور تلخ زبان، پھول جھڑنے والے لہجے اور گالیاں دینے والی زبان موجود رہے ہیں مگر یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ تضادستان کی بدلتی سیاسی صورتحال نے اکثریت کے دہن کو بگاڑ دیا ہے وہ وہ لوگ جو غنچہ دہن تھے یا جن کے دانتوں میں دندل پڑی رہتی تھے وہ بھی چیختے چنگھاڑتے اور اونچا اونچا بولتے نظر آتے ہیں۔ اگر تاریخی طور پر دیکھا جائے تو یوں لگتا ہے کہ معاشرتی حالات نےان کا توازن بگاڑ دیا ہے اور وہ بس اسی عدم توازن کی وجہ سے لڑکھڑا رہے ہیں۔ جسم تو لڑکھڑا ہی رہا ہے، ان کی زبان میں بھی اونچ نیچ آ رہی ہے۔

تاریخ کے اوراق کو الٹیں تو بقول ڈپٹی نذیر احمد جب غدر کے دوران دلی کو لوٹا گیا تو دہلی کے تلنگے ہر شریف اور عزت دار شخص کو ذلیل بھی کرتے اور اسے لوٹ کر دین دین کے نعرے لگا کر خوشی کا اظہار بھی کرتے تھے۔ لکھنؤ کی شاعرانہ اور شریفانہ تہذیب میں پیر بخاری کی شوہدن کا ذکر ملتا ہے لکھنؤکے شرفاء آپس میں لڑ پڑتے تب بھی گالیوں اور طعنوں جیسی ذلیل حرکت کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے اس لیے لکھنؤ کے علاقہ پیر بخاری میں کرائے کی شوہدنیں ملتی تھیں جو شرفا ءکی لڑائی میں ان کی ہم رکاب ہو کر فریق مخالف کو گالیاں اور طعنے دیتی تھیں۔یہ خواتین اپنے فن میں اس قدر طاق تھیں کہ شرفاء زیادہ سے زیادہ کرائے پر انہیں لاتے تھے جتنا زیادہ کرایہ ہوتا اتنی کراری گالیاں اور اتنے ہی سخت جلانے والے طعنے میسر آتے۔

آج کے گردوپیش کو دیکھیں تو ا یسا لگتا ہے کہ ہر طرف بدتہذیبی اور بدتمیزی کا راج ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ جو خود بدتمیزی نہیں کرتے وہ دوسروں کے ساتھ ہونیوالی بدتہذیبی کا مزا لیتے ہیں، وائرل اور کیا ہوتا ہے؟ یہی نہ کہ کسی کی بدتمیزی اور ’’عزت افزائی‘‘ سے باقی لوگ مزے لے لے کر لطف اندوز ہو رہے ہیں یعنی کسی زمانے میں کتھارسس Catharsis کا مطلب ہوتا تھا المیہ ڈرامے کی کہانی کو اپنے اندر سمو کر اپنے غم کی طرح منانا اور پھر اس غم سے سکون پانا۔ آج کل کے Catharsisکتھارسس کا مطلب ہے دوسروں کی بےعزتی دیکھ کر اپنے دل کو سکون دینا۔ گویا اب کتھارسس غموں کو محسوس کر کے آنسو بہانے اور سکون پانے کا نام نہیں دوسروں کا مذاق اڑا کر اپنی سفلی جبلت کو سکون دینے کا نام ہو گیا۔

تاریخ و تہذیب کے درمیان تعلق کا جائزہ لیں تو یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ بدتہذیبی اور بدتمیزی کو عروج پُرفتن ماحول میں ملتا ہے گو ہر معاشرے میں وہ کہیں نہ کہیں ڈھکی چھپی موجود ہوتی ہے لیکن اس کو بڑھاوا پُرفتن دور میں ہی ملتا ہے۔ دراصل انارکی اور بدتہذیبی ایک دوسرے سے جڑی ہوتی ہیںلفنگوں اور شوہدنوں کو انارکی ، لڑالی جھگڑا، مخاصمت اور گرما گرمی بہت راس آتی ہے جونہی مصالحت،امن اور سکون معاشرے پر چھاجاتے ہیں لفنگے اور شوہدنیں غائب ہو کر کونوں کھدروں میں جا چھپتے ہیں۔

آج کے لفنگے اور شوہدنیں کون ہیں؟ وہی جو مصالحت کے نام پر بھڑک اٹھتے ہیں، وہی جو معاشرے میں انارکی کو فروغ دیتے ہیں ،وہی جنکے چہرے ہر وقت تنے ہوتے ہیں آنکھوں میں خون اور زبان پر گالی ہوتی ہے، وہی جنکے ہاتھوں سے کسی کی عزت محفوظ نہیں ،وہی جو ہر ایک کو بے عزت کر کے سمجھتے ہیں جیسے بے عزت اور بے توقیر ہم ہیں ویسے ہی دوسرے بھی ہو جائیں۔ لفنگے اور کرائے کی شوہدن ہر وہ شخص یا عورت ہے جو الزام ،دشنام اور بدزبانی پر یقین رکھتے ہوے شر پھیلاتا یا پھیلاتی ہے۔ ہر ایک سے بدگمانی، ہر ایک پر شک، ہر کسی کو گالی، ہر ایک کا مذاق اڑانا، لفنگوں اور شہدنوں کا معمول ہوتا ہے اور جو کوئی ان لفنگوں اور شوہدنوں کا شریک کار ہوتا ہے یا ان کے ساتھ مل کر تالیاں بجاتا ہے وہ بھی لفنگا اور شوہدن ہی کہلاتاہے۔

ڈپٹی نذیر احمد کے دہلی میں لفنگے اور نوابانِ لکھنؤ کے عہد میں محلہ پیر بخاری سے شوہدنیں بھی کرائے پر دستیاب تھیں مگر ان دونوں جگہ وہ میسر نہیں ،دراصل دنیا میں جہاں کہیں انارکی ہو، سیاسی کشمکش ہو، مارا ماری ہو تہذیب کی جگہ بدتمیزی لے لے، مکالمے کی جگہ ہذیان گوئی رواج پا جائے، لفنگے اور شوہدن وہاں چلے جاتے ہیں ۔بدقسمتی سے یا تاریخ کی کسی بدنصیبی سے آج تضادستان میں لفنگوں اور شوہدنوں نے گھر بنا لیا ہے۔ کچھ تو گھر سے دور بیٹھے بھی چین نہیں پاتے اور طنز و شر کے گولے اپنے ہی ملک، اپنے ہی پیشے اور اپنے ہی ہم جلیسوں پر برساتے ہیں اور اس سے مریضانہ تسکین پاتے ہیں۔

تاریخ کے اوراق الٹیں یا لغات میں تلاش کریں لفنگے اور شوہدن عقل سے عاری وہ لوگ ہوتے ہیں جن پر جذبات طاری ہوتے ہیں جو زبان کی مٹھاس پر یقین نہیں رکھتے زبان کو خنجر بنا کر انسانوں کو قتل کرتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جو معاشروں میں نفرت پھیلاتے ہیں اور محبت کے دشمن بن جاتے ہیں، یہ وہ گروہ ہے ناکامی جس کا مقدر ہے۔ اصل میں جب بحران ہوتا ہے تو لفنگوں اور شوہدنوں کی بے حد حوصلہ افزائی ہوتی ہے کبھی انکے حق میں نعرے لگتے ہیں اور کبھی ان کو لائکسLikes ملتے ہیں، کبھی انکے طنز اور مذاق وائرل ہو جاتے ہیں تو کبھی انکے Hits آسمان سے باتیں کرتے ہیں مگر وہ تاریخ کا یہ سبق بھول جاتے ہیں کہ جب روشنی آتی ہے تو اندھیرا بھاگ جاتا ہے ،جب امن آتا ہے تو بدامنی فرار ہو جاتی ہے، جب شائستگی آتی ہے تو بدتمیزی چھپ جاتی ہے ،جب تہذیب نمو پاتی ہے تو بدتہذیبی زوال پذیر ہو جاتی ہے۔ اگر تو معاشرے نے تہذیب پانی ہے اور یقیناً پانی ہے لازماً آگے بڑھنا ہے تو لفنگوں اور شوہدنوں نے ضرور پاتال میں گرنا ہے!!

تازہ ترین