• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے گلے میں پٹا ہے، یہ مضبوط چمڑے کا بنا ہوا ہے اور کافی پرانا ہے، جب میں پیدا ہوئی تھی تب سے یہ میرے گلے میں ہے، میں نے کئی مرتبہ اسے اتارنے کی کوشش کی مگر کامیابی نہیں ملی، اور اب تو مجھے اِس کی عادت ہو گئی ہے۔ میرا مالک مجھے اِس پٹے کی مدد سے ہی گھسیٹتا ہے، میں جہاں بھی جاتی ہوں اِس پٹے کے ساتھ جاتی ہوں، کھانا کھاتے وقت بھی یہ میرے گلے میں ہوتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ یہ پٹا اِردگِرد کے لوگوں کو دکھائی نہیں دیتا، کچھ عرصے سے میں نے بھی اِس کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیا ہے، کبھی کبھار مالک کو رحم آتا ہے تو وہ اسے ایک اِنچ کھول دیتا ہے تاکہ میں آسانی سے سانس لے سکوں مگر مجھے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رعایت عارضی ہے اور بہت جلد میرے پٹے کو دوبارہ سختی سے باندھ دیا جائے گا اور ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ میں نے کئی مرتبہ یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ میں ایسا کیا کروں کہ یہ پٹا مستقلاً میرے گلے سے اتار دیا جائے مگر میں نہیں سمجھ پائی، مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ میری کون سی بات مالک کو ناراض کرتی ہے اور کس بات سے وہ خوش ہوتا ہے، کبھی کبھار وہ اِس پٹے کو اتنی سختی سے باندھ دیتا ہے کہ میرا دَم گھُٹنے لگتا ہے، کئی کئی دن اِس کیفیت میں گزر جاتے ہیں، لیکن مالک کا رویہ ایسا ہوتا جیسے اسے کسی بات کی پروا ہی نہ ہو، اُس وقت مجھے یوں لگتا ہے جیسے وہ یہ جانتا ہی نہ ہو کہ اِس نے کس قدر سختی سے پٹے کو باندھ رکھا ہے، لیکن مالک اُس وقت بھی یوں بیگانگی سے دیکھتا ہے جیسے کچھ جانتا ہی نہ ہو، اُس کے نزدیک پٹا کھولنا یا بند کرنا ایسے ہی ہے جیسے کسی مشین میں لگے پیچ کو کَس کر بند کرنا یا کھول دینا۔ میں اُس دن کا انتظار کر رہی ہوں جب میں یہ جان سکوں گی کہ آخر میری گردن میں یہ پٹا کیوں کر ہے؟

میں جب پیدا ہوا تھا تو اکیس سال کا گھبرو جوان تھا۔ ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کو یہ بات عجیب لگے مگر میں اسے یوں ہی دیکھتا ہوں۔ آپ شاید یہ سمجھ رہے ہوں کہ پیدائش کے وقت میں بہت صحت مند تھا اِس لیے یہ بات کہہ رہا ہوں، جی نہیں، میں اسی طرح لاغر اور کمزور تھا جیسے ہماری طرح کے بچے ہوتے ہیں۔ مجھے ٹھیک سے یاد تو نہیں مگر میری ماں نے مجھے اسی دن ’کام‘ پر بھیج دیا تھا جب میں بمشکل پانچ یا زیادہ سے زیادہ چھ سال کا تھا اور اب تو میں پورے تیرہ برس کا ہوں، بیس پچیس کلو وزن اٹھا سکتا ہوں، دس گھنٹے مزدوری کر سکتا ہوں، اور مجھ میں اتنی طاقت ہے کہ بغیر کھانا کھائے بھی سخت سے سخت کام کر سکتا ہوں۔ مجھے ایسا کرنے کا کوئی شوق تو نہیں مگر کبھی کبھی کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی مجھے اپنے اردگرد لوگوں کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیسے وہ سارا دن مسلسل کچھ نہ کچھ کھاتے رہتے ہیں، لیکن شاید مجھے ایسا نہیں سوچنا چاہیے۔ جس دن مجھے کوئی اچھا کام مل جاتا ہے اُس روز میں خوب کھانا کھاتا ہوں۔ میرے ساتھ کئی اور لڑکے بھی کام کرتے ہیں، ہم میں سے نہ کوئی بیمار پڑتا ہے اور نہ کبھی کام سے چھٹی کرتا ہے، دو چار مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ میں کام پر گیا تو میرے ساتھی لڑکے نے بتایا کہ میرا بدن بخار سے تَپ رہا ہے، میں اُس کی بات سُن کر ہنس پڑا، میں نے کہا کہ کیا تم جانتے نہیں کہ ہم لوگ کبھی بیمار نہیں ہوتے۔ لیکن یہ ہماری آپس کی باتیں ہیں، دوسرے لوگوں کو نہ تو ہماری زبان سمجھ آتی ہے اور نہ باتیں، وہ فقط اشاروں سے ہمیں کام سمجھا دیتے ہیں اور ہم جُت جاتے ہیں۔ مجھے کسی بندے نے بتایا تھا کہ ایک دن جب یہ دنیا ختم ہوگی تو دوسری دنیا وجود میں آئے گی، اُس دوسری دنیا میں ہمارا کام اُن لوگوں کو دے دیا جائے گا جو ہم سے کام لیتے ہیں اور ہم اُن کی جگہ لے لیں گے۔ مجھے یقین تو نہیں کہ ایسا ہوگا لیکن پھر بھی مجھے اُس دن کا انتظار ہے جب یہ انتظام ہوگا۔

میں جس ملک کا شہری ہوں وہاں کا قانون بہت سخت ہے، یہ قانون ہر شخص کے سینے میں محفوظ ہے، آج سے دس سال قبل مجھے اسی قانون کے تحت سزا سنائی گئی تھی، مجھ پر الزام تھا کہ میں نے ملکی قانون کی خلاف ورزی کی ہے، مقدمہ کے آغاز سے ہی جج کو یقین تھا کہ یہ الزام درست ہے، وکیل استغاثہ کا کہنا تھا کہ مجھے سخت سے سخت سزا دی جائے، میرے وکیل نے اِس الزام کا ثبوت مانگنے کی کوشش کی مگر اسی قانون کی رُو سے اسے بتایا گیا کہ ریاست اِس بات کی پابند نہیں۔ میری بیوی اور بچے مجھے جیل میں ملنے آتے تھے، میری بیوی بتاتی تھی کہ اُس نے اپنا زیور اور جمع پونجی بیچ کر اعلیٰ عدالت میں اپیل دائر کی ہوئی ہے اور اسے پوری امید ہے کہ انصاف ملے گا۔ اب کچھ برس سے اُن کا آنا جانا کم ہو گیا ہے۔ آخری ملاقات میں میری بیوی نے بتایا تھا کہ مالک مکان نے ہمارا سامان اٹھا کر گلی میں پھینک دیا تھا کیونکہ چھ ماہ سے اسے کرایہ نہیں ملا تھا، اُس نے بتایا تھا کہ اب وہ کسی کے گھر میں کام کر رہی ہے اور اُس نے ایک چھوٹا سا کوارٹر کرائے پر لے لیا ہے۔ وہ اُس دن کا انتظار کر رہی جب اعلیٰ عدالت میں میری شنوائی ہوگی اور مجھے انصاف ملے گا۔ میں اسے کیسے بتاؤں کہ میرے لیے یہ انصاف کیا کم ہے کہ میں قانون کے تحت جیل میں بند ہوں اور میرا مقدمہ چلایا گیا ہے۔ لیکن وہ نادان عورت آج بھی انتظار کر رہی ہے، نہیں جانتی کہ یہ انتظار کس قدر طویل ہو سکتا ہے۔

مجھے جب کچرے کے ڈبے میں پھینکا گیا تو اُس وقت میری عمر صرف چند گھنٹوں کی تھی، سفید کفن میں لپٹی ہوئی، مجھے وقت کا اندازہ تو نہیں تھا شاید رات کا پچھلا پہر تھا، سناٹے میں میرے رونے کی آوازیں دور دور تک جا رہی تھیں مگر اُس نے جلدی جلدی ڈرم کا ڈھکن بند کیا اور یوں میری آواز دب گئی۔ ایک گھنٹے تک میں یونہی چیختی رہی پھر اچانک کسی نے کچرے کا وہ ڈبہ ہلایا، ڈھکن کھل گیا اور میں کوڑے کے ڈھیر کے ساتھ سڑک پر تھی۔ چند آوارہ کتے ارد گرد اکٹھے ہو گئے، اُنہوں نے مجھے بھنبھوڑنا شروع کیا، مجھے ٹھیک سے یاد نہیں شاید اُس وقت تک میری سانس بند ہو چکی تھی۔ اب مجھے اُس دن کا انتظار ہے جب زندہ دفن کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا۔کس خطا کی وجہ سے اسے قتل کیا گیا؟ اور جب نامۂ اعمال کھولے جائیں گے۔اور جب آسمان کھینچ لیا جائیگا۔ اور جب جہنم بھڑکائی جائیگی ۔ اور جب جنت قریب لائی جائیگی۔ ہر جان کو معلوم ہو جائے گا جو حاضر لائی۔

نہ جانے یہ انتظار کب ختم ہوگا۔

تازہ ترین