پاکستان تحریک انصاف کا کمال یہ ہے کہ آج کی سیاست میں فی الحال کوئی کمال نہیں دکھا پا رہی ۔ اس جماعت کے رہنماؤں کے بڑے بڑے دعوےسن کہ یہ شعر یاد آتا ہے’’یہ دل عجیب ہے اکثر کمال کرتا ہے...جواب جن کا نہیں وہ سوال کرتا ہے‘‘ تحریک انصاف کے بانی چیئر مین عمران خان دو سال سے جیل میں ہیں ۔ انہوں نے جس ثابت قدمی سے جیل کاٹی اُس پر تو مخالفین بھی انہیں داد دینے پر مجبور ہو گئے لیکن تمام تر مقبولیت کے باوجود اُن کی جماعت عمران خان کی رہائی کیلئے کوئی تحریک چلانے میں ناکام رہی ہے ۔ کچھ دن پہلے تحریک انصاف نے عمران خان کی رہائی کیلئے ایک اور تحریک چلانے کا اعلان کیا اور کہا کہ اس تحریک کا کلا ئمکس 5 اگست کو ہو گا۔5 اگست کا سُن کر میں حیران بھی ہوا اور پریشان بھی ہوا۔ پانچ اگست 2019کوعمران خان وزیر اعظم تھے اور بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو معطل کر دیا تھا ۔ بھارتی آئین کی دفعہ 370 اور 35 اے کے معطل ہونے پر عمران خان نے ہر جمعہ کو پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد کے باہر احتجاج شروع کیا ۔ وہ گلا پھاڑ کر نریندر مودی کو ہٹلر قرار دیا کرتے تھے ۔ پھر یہ احتجاج ٹھنڈا ہو گیا اور فروری 2021 ء میں عمران خان کی حکومت نے لائن آف کنٹرول پر بھارت کے ساتھ سیز فائر کے معاہدے کا اعلان کر دیا ۔ اب جب تحریک انصاف کے بڑے بڑے رہنماؤں نےپانچ اگست کواپنے جلسے جلوسوں کے کلا ئمکس کا اعلان کیا تو مجھے خدشہ پیدا ہوا کہ یہ بھی کہیں ویسا ہی احتجاج نہ ہو جیسا احتجاج عمران خان نے مودی کے خلاف شروع کیاتھا اور پھر اس کا کلا ئمکس بھارت کے ساتھ سیز فائر کا ایک خاموش معاہدہ تھا۔ بہر حال عمران خان جیل کے اندر سے بیٹھ کر اپنی جماعت کو ہلانے جلانے کی بھرپور کوشش کر رہےہیں ۔ اس مرتبہ انہوں نےتحریک چلانے کی ذمہ داری محمود خان اچکزئی صاحب کوسونپ دی ہے جو تحریک تحفظ آئین کے پلیٹ فارم پر کئی دیگر جماعتوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش میں ہیں ۔ انکی ایک کا میابی یہ ہے کہ وہ اسلام آباد کی سیاست کے ایک متحرک کردار مصطفی نواز کھو کھر کو اپنی تحریک تحفظ آئین کا نائب صدر بنا چکے ہیںکچھ ناقدین کا خیال ہے کہ تحریک چلانے کی ذمہ داری محمود خان اچکزئی کو سونپ کر عمران خان نے اپنی ہی جماعت پر عدم اعتماد کیا ہے کیونکہ انکی جماعت کچھ عرصہ سے شدیداندرونی خلفشار کا شکار ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ دراصل تحریک انصاف نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے ۔ اس مرتبہ اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کی بجائے خیبر پختونخواہ میں احتجاج کیا جائے گا جہاں عوامی غم و غصہ اور بے چینی عروج پر نظر آ رہی ہے ۔ خیبر پختونخوا جن حالات سے گزر رہا ہے وہ آپکو پاکستان کے قومی میڈیا پر نظر نہیں آئیں گے ۔ اس پہلو کو نظر انداز نہ کیجئے کہ جیسے ہی تحریک انصاف نے یہ دعویٰ کیا کہ 5 اگست کو وہ کوئی کلائمکس دکھائےگی تو اچانک عدالتوں نے اُن کے اراکین پارلیمنٹ کو سزائیں سنانی شروع کردیں اورالیکشن کمیشن آف پاکستان نے فٹافٹ نااہلیوں کے اعلانات کرنا شروع کر دیئے۔یاران نکتہ داں پوچھتے ہیں کہ اگر تحریک انصاف میں واقعی کوئی دم نہیں رہا تو یہ اچانک سزاؤں اور نا اہلیوں کا سیلاب کیوں آگیا ہے ؟ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی تو یہ جانتا ہے کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کو آپس میں لڑا کر اور بہلا پھسلا کر قابو کیا جا سکتا ہے لیکن عوام میں بے چینی کی لہر کسی بھی وقت کوئی خطرہ بن سکتی ہے لہٰذا ان سب کو خوفزدہ کر دو جو بوقت ضرورت عوام کو گھروں سے نکالنے کی وجہ بن سکتے ہیں ۔ چیف الیکشن کمشنر سلطان سکند رراجہ کے عہدے کی معیاد جنوری 2025 ء میں ختم ہو چکی ہے ۔ موصوف کو 2020 ء میں عمران خان کی حکومت نے چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر فائز کیا تھا ۔ 31 جولائی 2022کو کو عمران خان کے حکم پر پنجاب اسمبلی میں سکندر سلطان راجہ کے خلاف ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں انہیں چیف الیکشن کمشنر کے عہدے سے ہٹانےکا مطالبہ کیا گیا، یہ قرارداد ہی اُنکی طاقت بن گئی کیونکہ بہت سے طاقتور لوگ یہ جانتے تھے کہ اگر عمران خان کو حکومت میں واپس آنے سے نہ روکا گیا تو پھر وہ طاقتور اپنے عہدوں پر نہیں رہیں گے ۔ یہ تحریک انصاف کا کمال تھا کہ سلطان سکند رراجہ کو چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر لا کر بٹھایا بھی اور پھر نکالنے کیلئے زور بھی لگایا ۔ راجہ صاحب نے فروری 2024 ء کے الیکشن میں اگلے پچھلے تمام حساب برابر کر دئیے ۔ اب اُن کے عہدے کی معیاد پوری ہو چکی ہے ،الیکشن کمیشن کے کچھ دیگر ارکان کے عہدوں کی معیاد بھی پوری ہو چکی ہے لیکن یہ سب حضرات بڑی آن شان کے ساتھ اپنی اپنی کرسی پر براجمان ہیں ۔ آئین کے مطابق نئے چیف الیکشن کمشنر کا تقرر وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کو باہمی مشورے سے کرنا ہے لیکن اپوزیشن لیڈرعمر ایوب خان کا دعویٰ ہے کہ چیف الیکشن کمشنر صاحب کسی بھی عدالت سے ان کے خلاف سزا کا انتظار کر رہے ہیں، اُن پر 160 مقدمات چل رہے ہیں جیسے ہی انہیں سزا کا اعلان ہوگا تو الیکشن کمیشن پلک جھپکتے میںانہیں نااہل کر دے گا ۔ الیکشن کمیشن کے کچھ ایسے ہی ارادے علی امین گنڈا پور کے بارے میں ہیں،گنڈا پور کیلئے سزا اور نا اہلی کسی تمغے سے کم نہ ہوگی کیونکہ جنید اکبر انہیں بہت متنازعہ بنا چکے ہیںآج کل بیرسٹر گوہر خان کی جیب میں اپنے ارکان پارلیمنٹ کی ایک فہرست موجود رہتی ہے جن کے بارے میں انہیں خدشہ ہے کہ یہ سب نا اہل ہو جائیں گے،پچھلے دنوں گوہر صاحب نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے خاموشی کے ساتھ ملاقات کی اور درخواست کی کہ انہیں انصاف دیا جائے ۔ چیف جسٹس نے گوہر صاحب کو کسی یقین دہانی کے بغیر واپس بھیج دیا۔ عمر ایوب خان نے بھی چیف جسٹس صاحب کو ایک خط لکھا ہے لیکن لگتا ہے الیکشن کمیشن رکنے والا نہیں ۔ سلطان سکند رراجہ تو اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ 1970 ء کے الیکشن میں ایک بنگالی جج جسٹس عبد الستار الیکشن کمیشن کے سربراہ تھے ۔ الیکشن عوامی لیگ جیت گئی تھی ۔ کچھ عرصہ بعد جب بنگلہ دیش بن گیا تو عبدالستار نئے ملک کے نائب صدر اور پھر صدر بن گئے تھے ۔ سلطان سکندر راجہ کو بھی کسی بڑے عہدے کی تمناہے، اب کسی بڑے عہدہ کے بغیر جینا بھی محال لگتا ہے ۔ جب اس قسم کا خوف ذہن پر چھا جائے تو پھر دوسروں کو خوفزدہ کرنا بقاء کا تقاضا بن جاتاہے ۔ تحریک انصاف والوں کیلئے سزاؤں اور نا اہلیوں کا سیلاب بتا رہا ہے کہ سب اچھا نہیں،جب بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں کے اقدامات کے پیچھے کسی خوف کے سائے لہراتے نظر آئیں تو پھر دُعا کرنی چا ہئےکہ اےاللّٰہ ہمیں دنیاوی طاقتوں کے خوف سے نجات دلا۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن خوف کی حکومت دیر پا نہیں ہوتی۔