سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف علی خورشیدی نے کہا ہے کہ سندھ میں سیلاب پیسے بنانے کا کاروبار بھی بن جاتا ہے۔
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیلاب کے ساتھ امداد بھی آتی ہے، سندھ میں ایمرجنسی کی صورتِ حال ہے۔
علی خورشیدی کا کہنا تھا کہ اس صورتِ حال میں مقامی حکومتوں کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ ریسکیو اینڈ ریلیف میں بلدیاتی اداروں کا کردار نظر نہیں آ رہا۔یہاں کے حکمران کہیں گے کہ دیگر صوبوں میں تو یہ بلدیاتی نظام بھی نہیں، میں یہاں کے لیے آواز اٹھاؤں گا آپ کو برا لگتا ہے تو لگے۔
انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سیلابی صورتِ حال میں کم سے کم نقصان ہو، ہم اس صورتِ حال کو خصوصی طور پر مانیٹر کر رہے ہیں، بتایا گیا کہ حب ڈیم سے نئی کینال بنائی جا رہی ہے اس کی گنجائش 100 ایم جی ڈی ہو گی۔
قائد حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ اگست میں نئے حب کینال کا بلاول بھٹو زرداری نے افتتاح کیا، 13 اگست کے بعد حب سے ملنے والا پانی کم ہوتا گیا، کس کو دھوکا دیا جا رہا ہے؟ ضلع غربی میں پانی نہیں ہے، کینال بننے کے بعد صورتِ حال ٹھیک نہیں ہوئی۔
علی خورشیدی نے کہا کہ 90 فیصد سے زائد چوری میں واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن ملوث ہے، ہمیں بتادیں ہم اسے ٹھیک کرنے کو تیار ہیں، گارڈن والے روڈ پر اب بھی ایسا لگ رہا ہے کل بارش ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم بلدیاتی ایکٹ میں ترمیم پر کام کر رہے ہیں، کسی کی زمین بچانے کے لیے کسی اور کی زمین پر پانی چھوڑ دیا جائے تو ایسی صورتِ حال نہیں ہونے دیں گے، جہاں موقع ہوا تو احتجاج بھی کریں گے، صوبائی اور وفاقی حکومت کراچی کی ذمے داری پوری نہیں کر رہیں۔
واضح رہے کہ سیلابی ریلا پنجاب اور خیبرپختونخوا میں تباہی مچانے کے بعد کل سندھ میں داخل ہوگا۔
دریائے سندھ میں سیہون کے مقام پر طغیانی ہے، سیلابی صورتِ حال برقرار ہے۔