وزیراعظم شہباز شریف کیساتھ دو چار نہیں بیسویں ملاقاتیں ہوئیں اور یہ تب کی بات ہے جب وہ وزیراعلیٰ پنجاب تھے، ویسے تو شریف خاندان سے تعلق کا رشتہ بہت پرانا ہے، والد ماجدؒ کی وفات ہوئی تو نمازِ جنازہ میں میاں شریف مرحوم کے علاوہ شہباز شریف اور عباس شریف بھی شامل ہوئے۔ نواز شریف اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب تھے، وہ ایک اہم میٹنگ کی وجہ سے نمازِ جنازہ میں شریک نہ ہو سکے مگر اگلے روز تعزیت کیلئے اقبال ٹائون والے گھر آئے ، نواز شریف وزارتِ عظمیٰ کے دوران اور بعد میں متعدد بار میرے گھر، میرے آفس اور الحمرا میں بغیر کسی پیشگی اطلاع اور بعض اوقات اطلاع کر کے ملاقات کیلئے آتے رہے، انکے ساتھ دو طرفہ محبت کا سلسلہ تاحال جاری ہے اور شاید اس میں کبھی کمی نہ آئے مگر آج شہباز شریف کے حوالے سے باتیں کرنا ہیں، نواز شریف سے محبت کے مضبوط تعلق کی روئداد اس ہفتے کے دوران بیان کرونگا۔میاں شہباز شریف کے ساتھ میری باقاعدہ دوستی بلکہ بے تکلفی تھی۔ 1972ء میں میری شادی پر وہ شورش کاشمیری کو اپنی کار میں لے کر آئے۔ وہ اس وقت کسی عہدے پر فائز نہیں تھے۔ مگر بعدازاں ان سے دوستی کا رشتہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔ اس تعلق میں ہم دونوں کا کوئی مفاد نہ تھا۔ جب شریف خاندان اسٹیبلشمنٹ کی ناراضی کے باعث جلاوطنی پر مجبور ہوا اور جدے میں رہائش اختیار کی، تو میں ان سے ملاقات کیلئے جدے گیا۔ سعودی حکومت نے میزبانی کا حق ادا کر دیا۔ میں ایک ہفتے تک انکے محل نما گھر میں قیام پذیر رہا۔ شہباز شریف تقریباً روزانہ چائے کا کپ ہاتھ میں پکڑے میرے کمرے میں چلے آتے۔ ان ملاقاتوں میں ، میں نے محسوس کیا کہ وہ پاکستان سے شدید محبت کرتے ہیں۔ انہیں جلاوطنی کا اتنا دکھ نہیں تھا، جتنا اس بات کا کہ پاکستان تنزلی کی طرف جا رہا ہے۔ میں نے پاکستان سے روانہ ہوتے وقت میاں نواز شریف کو اطلاع کر دی تھی کہ میں فلاں تاریخ کو آپ سے ملاقات کیلئے جدہ آ رہا ہوں ۔امیگریشن وغیرہ کی رسومات سے فارغ ہو کر میں ایئرپورٹ سے باہر نکلا تو بہت حیران ہوا کہ شہباز شریف خود مجھے ریسیو کرنے آئے تھے۔ جب ہم انکے گھر پہنچے تو دروازے پر میاں شریف مرحوم ومغفورجو وہیل چیئر پر تھے اور میاں نواز شریف میرے استقبال کیلئے کھڑے تھے، میاں شریف مرحوم نے شہباز شریف سے کہا ’’میں نے تمہیں کہا تھا کہ مہمان کو ریسیو کرتے ہی مجھے اطلاع کر دینا‘‘ مجھے حیرت ہوئی کہ انہوں نے ایسا کیوں کہا کہ اس سے بہتر استقبال اور کیا ہو سکتا تھا کہ اہل خانہ خود استقبال کیلئےدروازے پر موجود تھے۔بہرحال ان سات دنوں میں شہباز صاحب سے بہت خوشگوار ملاقاتیں رہیں۔ میاں نواز شریف کا بیان بعد میں ہوگا، پہلے شہباز صاحب سے ملاقات کی چند جھلکیاں پیش کر لوں۔ ایک دن شہباز صاحب نے مجھے کہا آپ تیار ہو جائیں آپ کو ہسپتال لے کر جانا ہے۔ میں ڈر گیاکہ اللہ جانے انہیں مجھ میں کس بیماری کے آثار نظر آئے ہیں۔ بہرحال میں انکے ساتھ ہسپتال چلا گیا۔ پتہ نہیں کون کون سے ٹیسٹ تھے جو انہوں نے کرانا تھے کہ اس میں کافی وقت صرف ہو گیا۔ شہباز صاحب اس دوران باہر کرسی پر بیٹھے رہے۔ اس سارے کام میں کم و بیش ڈیڑھ گھنٹہ لگا اور شہباز صاحب کسی قریب ترین عزیز کی طرح متشوش رہے کہ میرے بارے میں پاکستان میں ایک کلینکل رپورٹ میں کینسر کا شبہ ظاہر کیا گیا تھا۔ میں آج بھی سوچتا ہوں کہ ارب پتی خاندان کا فرد اور بڑے عہدوں پر فائز رہنے والا یہ شخص ایک ناکارہ سے شخص سے اتنی محبت کیسے کر سکتا ہے۔ اب کچھ عرصے سے ہماری ملاقات نہیں ہوئی لیکن میں انکی محبت کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔جس گھر میں میرا قیام گھر کے ایک فرد کی طرح تھا، وہاں میری ملاقات ایک درویش سے ہوئی، اس درویش کا نام میاں عباس شریف تھا۔ اس کا کام عبادت گزاری اور والد اور والدہ کی خدمت کے سوا کچھ نہ تھا۔ عباس شریف بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے اور پاکستان کی جیل میں ننگے فرش پر سوتے تھے۔ ایک دن میں نے ان سے کہا ’’میاں صاحب! آپ نے اتنی بلیاں کیوں پالی ہوئی ہیں’’ بولے‘‘ان بلیوں کی وجہ سے میں ہی تو ہمیں بلی نئیر کہا جاتا ہے۔‘‘ نواز شریف ان سے بہت محبت بھری چھیڑ چھاڑ کرتے رہتے تھے۔ بہرحال ساتویں دن میری پاکستان واپسی تھی۔ شہباز صاحب اس دوران مجھ سے بہت محبت کرنے لگے تھے۔ انہوں نے بہت اصرار کیا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک لحاظ سے میری منت سماجت کی کہ میں کچھ دن اور رک جائوں، لیکن کچھ ضروری کاموں کیلئے مجھے بہرحال واپس جانا تھا۔ ملاقاتوں کی یہ کمی اس وقت دور ہو گئی جب یہ خاندان واپس پاکستان آیا اور شہباز شریف چیف منسٹر پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے اور انکی محبتوں میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا گیا۔ مگر ابھی میں نے واپس پاکستان نہیں جانا۔ کیونکہ شہباز شریف سے امریکہ میں ہونے والی دوسری ملاقات کا تذکرہ باقی ہے۔ میں امریکہ گیا ہوا تھا میرے علم میں تھا کہ شہباز صاحب کینسر کے علاج کیلئےنیو یارک کے ایک اسٹوڈیو اپارٹمنٹ میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ میں حسب معمول برادرم شاہین بٹ سے ملنے انکے ریستوران میں گیا اور ان سے شہباز صاحب کا مکمل ایڈریس لے کر ان کی عیادت کیلئے گیا۔ آگے چلنے سے پہلے یہ بتا دوں کہ شاہین بٹ جیسے انسان مائیں روز روز نہیں جنتیں۔ ان کے ہارٹ کے چار آپریشن ہو چکے ہیں اور وہ روزانہ شہباز صاحب سے ملنے اور کھانا پہنچانےجاتےتھے۔بہرحال میں شہباز صاحب کے اسٹوڈیو اپارٹمنٹ پہنچا تو میری اس اچانک آمد پر بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے خود اُٹھ کر میرے لیے چائے بنائی اور ہم کافی دیر گپ شپ کرتے رہے۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد میں نے اجازت مانگی اور یہ سراپا محبت شخص مجھے باہر چھوڑنے آیا۔ پھر انہوں نے جیب سے کافی ڈالر نکالے اور کہا میری طرف سے بچوں کیلئے کچھ لیتے جائیں۔ میں نے دیکھا تو سو سو کے ایک سو ڈالر ان کے ہاتھ میں نظر آئے۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا میں بچوں تک آپ کا پیار پہنچا دوں گا۔ مگر جب وہ بضد رہے تو میں نے ان میں سے ایک نوٹ نکالا اور باہر نکل آیا۔ (جاری ہے)
پس نوشت: میں نے گزشتہ ہفتے احسن اقبال کے حوالے سے ان کا محبت بھرا ذکر کیا تھا۔ انہوں نے اس حوالے سے واٹس ایپ پر کچھ تصحیح کی ہے وہ ملاحظہ کریں۔ ’’جناب کا محبت بھرے الفاظ سے یاد آوری کا شکریہ۔ تصحیح: والدہ صاحبہ کے والد چوہدری عبدالرحمان قیام پاکستان سے پہلے جالندھر ضلع سے 23 برس ممبر پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی رہے۔ بندہ ضلع نارووال سے باہر بھی خادم ہے!