• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں کافی دنیا دیکھ چکا ہوں، اچھا خاصا سفر کر چکا ہوں مگر اب بھی جب جہاز میں بیٹھتا ہوں تو طبیعت مضطرب ہو جاتی ہے۔ لیکن استنبول کی پرواز بہت ہی پر سکون تھی، البتہ ہوائی اڈے پر خاصا چلنا پڑا اور غلطی سے دو مرتبہ امیگریشن اور ائیر لائن کے عملے کی پڑتال سے گزرا جو کہ نہایت اُکتا دینے والا کام ہوتا ہے۔ مسئلہ تو کچھ نہیں ہوا لیکن نہ جانے کیوں اِن مراحل سے گزرتے وقت یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میں قانونی طریقے سے نہیں بلکہ ڈنکی لگا کے جا رہا ہوں۔ برادرم احسان شاہد لندن سے ویانا پہنچ چکے تھے، ہوائی اڈے پر جس والہانہ انداز میں انہوں نے مجھے جپھی ڈال کر چوما مجھے یقین ہے کہ آس پاس کے لوگ ہمیں LGBT کے قبیلے سے سمجھیں ہوں گے۔ ہوائی اڈے سے نکلتے ہوئے احسان شاہد نے مژدہ سنایا کہ جس ہوٹل میں ہم نے کمرہ لیا تھا وہاں پانچ بجے کے بعد کوئی نہیں ہوتا، خودکار نظام کے تحت چیک اِن کرنا پڑتا ہے اور یہ کسی اچھے ہوٹل کی نشانی نہیں۔ بات تو سچ تھی مگر بات تھی رسوائی کی۔ اگلے روز صبح ریسپشن پر ایک نوجوان موجود تھا، اُس سے میں نے کہا کہ کمرہ چھوٹا ہے تبدیل کر دو، اُس نے کندھے اُچکا کر کہا کہ یہ اسٹینڈرڈ روم ہے، کچھ نہیں ہو سکتا۔ مجھے اسی جواب کی توقع تھی لیکن اُس کو یہ توقع نہیں تھی کہ جواب میں یہ خاکسار کیا کہے گا جسکے بعد اُس نے ہمیں سویٹ روم میں منتقل کر دیا۔ کیسے؟ یہ نسخہ میرا اپنا ایجاد کردہ ہے اور یہاں بتایا نہیں جا سکتا۔

اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ زندگی میں یورپ صرف ایک مرتبہ جانے کا موقع ملے گا اور ایک ہی شہر دیکھنے کی استطاعت ہوگی تو کس شہر کا انتخاب کروں گا، میرا جواب ہو گا ویانا۔ یہ شہر یورپ کا دل ہے، اِس کی خوبصورتی تو خیر ضربِ عَضب ہے ہی، معافی چاہتا ہوں ضرب المثل لکھنا چاہتا تھا، لوٹ جاتی ہے ادھر کو ’ہی‘ نظر کیا کیجیے! پہلااحساس جو اِس شہر میں آتے ہی ہوا وہ کھانوں کی اشتہا انگیز خوشبوئیں تھیں، ہم جہاں بھی جاتے یہ خوشبوئیں ہمارا پیچھا کرتیں، بیکری میں مہکتے ہوئے کروساں اُبلے ہوئے انڈوں کے ساتھ اور گرما گرم کافی کی خوشبو۔ میں لاہور سے اپنے ’کوٹے‘ سے تین کلو زیادہ وزن لے کر چلا تھا (یہاں مراد ذاتی وزن کی ہے سامان کی نہیں) سو میں نے یہ عہد کیا کہ کم از کم دو دن تک خود کو قابو میں رکھوں گا، گو کہ یہ عشق نہیں آساں تھا پھر بھی میں نے آگ پر چلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ناشتے میں صرف کافی پی جس کا درمیانہ مَگ ہی اتنا بڑا تھا کہ اُس میں ڈبکی لگائی جا سکتی تھی، دو کش سگار کیلئے اور فیصلہ کیا کہ ویانا کے کاہلن برگ چلا جائے، اِس جگہ کا مشورہ ایک بہت ہی پڑھے لکھے دوست نے دیا تھا، اُس نے بتایا کہ یہ جگہ کچھ بلندی پر واقع ہے اور یہاں وہ مقام بھی ہے جہاں 1683میں جنگِ ویانا لڑی گئی تھی، اِس جنگ کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ کی یورپ میں پیش قدمی روک دی گئی تھی اور یوں اسے یورپ کی تاریخ کا فیصلہ کُن معرکہ بھی کہا جاتا ہے، مور اوور کے طور پر اُس نے یہ بھی بتایا کہ یہاں انگور کے باغات ہیں جہاں دنیا کی بہترین وائن کشید کی جاتی ہے۔ ہم نے ویانا کا ایک دن کا پاس بنوایا اور ایک ٹرین اور بس بدل کر پہنچ گئے۔ اِس جگہ کو آپ ویانا کا ہِل ٹاپ بھی کہہ سکتے ہیں، یہاں ایک پرانا گرجا گھر ہے، چھوٹی سی نجی یونیورسٹی ہے اور ریستوران اور کیفے ہیں۔ یہاں سے پورا ویانا دکھائی دیتا ہے، ڈینیوب بھی شہر کو درمیان سے گزرتا نظر آتا ہے، انگریزی میں اِس نظارے کیلئے ایک لفظ ہے Breathtaking View، ہم مبہوت ہو گئے، ویسے تو یورپ میں اِس طرح کی کئی جگہیں ہیں، ایسی ہی ایک جگہ ناروے میں برگن شہر میں بھی ہے جہاں آپ چیئر لفٹ میں بیٹھ کر جاتے ہیں، مگر ویانا کی بات ہی کچھ اور تھی۔ ہم نے کچھ دیر یہاں تصویریں بنائیں اور فیصلہ کیا کہ ’ناشتہ‘ کرکے اُس جنگ کے مقام تک چہل قدمی کرکے جائیں گے جسکے بارے میں لکھا تھا کہ فقط بیس منٹ کی واک ہے۔ میں نے اپنی زندگی کا بہترین کروساں، ابلے ہوئے انڈوں، تَرکی اور سلاد کے ساتھ کھایا، ایک لمحے کیلئے یوں لگا جیسے من و سلوٰی اُترا ہو، طبیعت بشاش ہو گئی۔ اُس کے بعد کمر کس کے معرکہ ویانا والے مقام کا رُخ کیا، دو منٹ کے بعد ہی احساس ہو گیا کہ آگے چڑھائی ہے، لہٰذا سلطنت عثمانیہ کی طرح ہم نے بھی پیش قدمی روک دی اور واپس آ گئے۔

ویانا کی سب سے مرکزی جگہ کارلز پلاٹس ہے، اور یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے یورپ کے ڈاؤن ٹاؤن ہوتے ہیں، پُرشکوہ گرجا گھر، میوزیم، بگھیوں پر سیر کرتے سیاح، کافی شاپس اور برینڈڈ کپڑوں کی دکانیں۔ آپ برسلز چلے جائیں یا بارسلونا، کہیں زیادہ فرق نہیں ہے۔ یہاں ایک دکان پر کام کرنے والے مردِ عاقل سے ہم نے پوچھا کہ بالکل سامنے جو عظیم الشان عمارت ہے کیا وہ قلعہ ہے یا عجائب گھر، اُس نے جواب دیا کہ میں یہاں پندرہ سال سے کام کر رہا ہوں، مگر میں کبھی اُس کے اندر نہیں گیا لہٰذا کچھ کہہ نہیں سکتا۔ اِس تاریخی جواب پر دل تو چاہا کہ اُس کا منہ چوم لوں مگر پھر صرف ہاتھ ملانے پر اکتفا کیا۔ احسان شاہد نے کہا کہ پہلے آئس کریم کھائی جائے اُس سے چہل قدمی کرنے میں آسانی ہوگی، بے شک یہ دانائی کی بات تھی جس سے انکار ممکن نہیں تھا۔ اُس مردِ عاقل کی طرح میں بھی عجائب گھروں کی سیر کا زیادہ شوقین نہیں لیکن پھر بھی ایک ’چیک باکس ٹِک‘ کرنے کی غرض سے ہم نے سوچا کہ موزارٹ کا گھر ضرور دیکھا جائے۔ وہ یہاں سے چند قدم کی دوری پر تھا، اِس عظیم موسیقار کی دھُنیں شہرہ آفاق ہیں، انہوں نے موزارٹ کے گھر کو میوزیم میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہاں آ کر پتا چلا کہ موزارٹ 27 سال کی عمر تک مشہور ہو چکا تھا اور اُس کا ڈنکا چاردانگ عالم میں بجتا تھا، یہ اپارٹمنٹ جو اُس نے خریدا وہ اُس زمانے میں بھی ویانا کی سب سے مہنگی جگہ پر تھا، یہاں انہوں نے ایک چھوٹی سی فلم بھی دکھائی جس میں یہ تصور کیا گیا تھا کہ موزارٹ یہاں کیسے رہتا ہوگا۔ لیکن بد قسمتی سے دنیا کا یہ عظیم موسیقار صرف 36 برس کی عمر میں ہی فوت ہو گیا۔’’ کتنی دلکش ہو تم، کتنا دلجوہوں میں...کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین