سردار سلیم حیدر خان نے پنجاب حکومت کے بارے تمام سوالات کے جوابات انتہائی محتاط انداز میں دیئے ۔ مثلا ً جب ان سے یہ کہا گیا کہ چیف منسٹر پنجاب نے دودن پولیس کی وردی پہنی تو عوام میں سے کئی لوگوں نے پسند نہیں کیا کیونکہ پولیس کا رویہ عوام کے ساتھ اچھا نہیں ہوتا ، اس لئے مریم نواز شریف کو پولیس کی وردی پہن کر پولیس کی ساتھی ہونے کا اعلان کرنے کی بجائے مظلوم عوام کی ساتھی اور رہبر ہونے کا اعلان کرنا چاہیے تھا ۔تو ان کا جواب تھا ’’ میں اس معاملے میں کچھ نہیں کہہ سکتا‘‘ ۔ تاہم سیلابی مسائل کی طرف صوبائی حکومت کی توجہ مبذول کروانے کی بات ہوئی تو انہوں نے کہامیں نے کوئی تنقید نہیں کی ۔ کوئی سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہیں کی ۔ میں لڑائی نہیں چاہتا لیکن غریبوں کی بات ضرور کرتا رہوں گا ۔ میں خود متوسط طبقے کا آدمی ہوں ۔ اس لئے عام آدمی کے مسائل کے حل کیلئے پیپلز پارٹی سے سیاست شروع کی اور اختتام بھی اسی پارٹی میں چاہتا ہوں ۔ میں قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کا جیالا ہوں ۔ جب تک سانس میں سانس ہے بھٹو کی طرح ورکنگ کلاس کے مسائل اجاگر کرتا رہوں گا ۔ پنجاب حکومت کو ا س کا بُرا نہیں منانا چاہیے ۔چھوٹے اضلاع اور عام آدمی کو اہمیت دینے کیلئے ہی صدر آصف علی زرداری نے پنجاب کے آخری ضلع اٹک سے مجھے گورنر پنجاب بنایا ۔ حالانکہ یہ بات اس وقت زوروں پر تھی کہ گورنر لاہور سے ہو۔ تاکہ پی پی پی لاہور میں انگڑائی لے اور سارے پنجاب میں پی پی پی میں جان ڈالی جا سکے ۔ لیکن زرداری صاحب نے یہ احساس کیا کہ پنجاب کے بجٹ کا پیشتر حصہ لاہور پر خرچ ہو جاتا ہے ۔ حالانکہ چھوٹے اضلاع کا بھی اس پر اتنا ہی حق ہے ۔ اس لئے میرے سر پر ہاتھ رکھا۔ اب اگر میں دیگر اضلاع کے سیلابی اور دیگر مسائل کی طرف توجہ دلاتا ہوں تو صدر مملکت نے جو مینڈیٹ مجھے دیا ہے ۔ میں اسی کو نبھا رہا ہوں۔ پنجاب حکومت کو چاہیے کہ میری اس ساری کوشش کو مثبت انداز میں لے ۔ پنجاب کے دیگر اضلاع کی محرومیاں دور کرنے کیلئے میں اپنا کردار ادا کرتا رہوں گا ۔ مجھے یہ موقع دینے کیلئے صدر زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو کا شکریہ ۔ جب یہ کہا گیا کہ نقطہ نظر یہ ہے کہ 2008ء سے 2013ء تک وفاق میں PPکی حکومت کے دوران صدر زرداری نے PTIکو پرموٹ کرنے کی حوصلہ افزائی کی تھی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ PPPکا ووٹر تو پکا ہے۔ پنجاب میں ن لیگ کے ووٹ ہی ٹوٹیں گے ۔ تو گورنر پنجاب نے کہا میں اس وقت بھی اس حکمت عملی کے حق میں نہیں تھا ۔ لیکن زرداری کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔ اس وقت کا ISIکا ڈی جی پاشا اپنی مرضی سے ہی سب کچھ کرتا رہا تھا۔
جب انہیں یہ کہا گیا کہ ’’ موجودہ حکومت کو سپورٹ کرنا مگر اس میں شامل نہ ہوناکوئی مؤثر حکمت عملی نہیں۔ جب PPکے وزیروں مشیروں کی کاروں پر جھنڈے نظر آئیں گے تب پنجاب کے عوام کی زیادہ توجہ پی پی پی کی طرف جائے گی ‘‘۔ تو گورنر پنجاب سلیم حیدر خان نے اعتراف کیا کہ موجودہ حکمت عملی سے پی پی پی کو کوئی فائدہ نہیں۔ ہم نے ن لیگ کا ساتھ ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانے کیلئے دیا ہے ۔ ہم نے پارٹی کا سیاسی نقصان کرکے ملک کا فائدہ کیا ہے ۔ پی پی پی کبھی بھی ملک کا نقصان نہیں ہونے دے گی ۔ صدر زرداری کے ہر فیصلے کی بنیاد صرف اور صرف ملکی مفاد ہی ہے ۔گورنر پنجاب نے بتایا کہ پی پی پی تمام ضمنی الیکشنز میں اپنے امیدوار کھڑے کرے گی ۔ ن لیگ کیساتھ اس معاملے میں کوئی پیکٹ موجود نہیں۔ ہم نے آج ہی لاہور ، وزیر آباد اور میانوالی کی سیٹوں کیلئے امیدواران کے نام چیئرمین بلاول بھٹو کو بھیج ہیں ۔ ساتھ ہی پی پی پی لاہور کے صدر کا نام بھی روانہ کر دیا ہےچیئرمین امریکہ سے واپسی پر ان سب کا اعلان کریں گے ۔
جب یہ کہا گیاکہ ایک نقطہ نظریہ ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان آرمی چیف سے وائٹ ہائوس میں ملاقات اس لئے کی تھی کہ اول پاکستان کو ایران کی عملی مدد کرنے سے باز رکھنا۔ دوم وہ ایرانی حکومت کی سوچ اور حکمت عملی کو بہتر طور پر سمجھنے کیلئے اس موضوع پر پاکستان کا نقطہ نظر سننا چاہتے تھے ۔ وزیر اعظم اور وزیر دفاع کو نظر انداز کرکے آرمی چیف کی وائٹ ہائوس میں پذیرائی کرنا پاکستانی جمہوری نظام کی کمزوری کی نشاندہی کرتا ہے ۔ تو گورنر گویا ہوئے کہ نہیں امریکی صدر نے ایسا کرکے اکنالج کیا ہے کہ ہماری افواج بہت مؤثر اور اپنے دفاعی اہداف کے حصول کی ماہر ہیں ۔ یہ کریڈٹ صدر زرداری کو جاتا ہے جو صحیح رہنمائی کر رہے ہیں ۔ ہماری کامیاب حکمت عملی کا ہی نتیجہ ہے کہ اب ٹرمپ بھی انڈیا کے خلاف بو ل رہا ہے۔ میں نے کہا کہ 1973ء کی جنگ میں وزیر اعظم بھٹو نے پاکستانی ایئر فورس کے جہاز اور پائلٹس دوست ملک شام کے حوالے کئے تھے ۔ جو شام سے فلائی کرکے اسرائیل پر بمباری کرتے تھے ۔ تا ہم موجودہ حکومت عملی طور پر فلسطینیوں کے دفاع میں ایسا قدم نہیں اٹھا رہی ۔ اسرائیل ہر روز سو کے قریب بے گناہ فلسطینی غزہ میں شہید کر رہا ہے ۔ مثلاً اگر چار مسلم ممالک پاکستان ، ترکی ، ملائیشیا اور سعودی عرب ملکر وارننگ جاری کر دیں کہ اگر اب اسرائیل غزہ پر حملہ آور ہوا تو ہماری ہوائی افواج معصوم فلسطینیوں کے دفاع میں وہاں پہنچیں گی تو اسرائیل کی جرات نہیں ہو سکتی کہ وہ قتل عام جاری رکھ سکے۔ جو ملک مالی طور پر مضبوط ہے وہ مالی معاونت کرے اور دیگر اپنی ایئر فورسز مہیا کریں ۔ تو گورنر گویا ہوئے کہ واقعی بہت بڑا ظلم ہو رہا ہے یہ سارے مسلم ممالک کیلئے شرمندگی کا موقع ہے ۔ مسلمان ممالک کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور غزہ کا حل نکالنا چاہئے۔ میں نے جب ان کی توجہ اس طرف مبذول کروائی کہ تینوں بڑی پارٹیاں پی پی پی ، ن لیگ اور پی ٹی آئی جب اقتدار میںآتی ہیں تو ان کو وزیر خزانہ باہر سے اُدھار لینا پڑتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی سیاست میں آنے کی حوصلہ افزائی نہیں کر رہی ہیں۔ وگرنہ دیگر پارلیمانی جمہوری ممالک کی طرح ان کے پاس بھی وزیر خزانہ بننے کے لائق MNAہوتا ۔ سچی بات یہ ہے کہ دیگر سیاسی رہنمائوں کی طرح گورنر پنجاب سلیم حیدر خان کے پاس بھی اس بات کے دفاع میں کوئی جواب نہیں تھا۔